محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سوال گزشتہ روز ایک نوجوان صحافی دوست نے مجھ سے پوچھاکہ کیا عمران خان کو نا اہل ، گرفتار کیا جائے گا؟
میں نے جواب دینے سے پہلے اسے کہا کہ یہ بتاﺅ، تمہارے خیال میں اگر اگلے ماہ الیکشن ہوں تو کیا پی ڈی ایم پنجاب یا کے پی میں جیت سکے گی؟ اس کا جواب نفی میں تھا۔ کہنے لگا، مجھے تو لگتا ہے کہ تحریک انصاف دو تہائی اکثریت لے جائے گی۔
میں نے اگلا سوال کیا، اگر عمران خان الیکشن سے پہلے نااہل ہوجائے اور کسی مقدمے میں جیل چلا جائے، وہ تقریریں کر سکے اور نہ ہی اپنے کارکنوں کو موٹیویٹ کر سکے تو کیا انتخابی نتیجہ نکلے گا؟ نوجوان صحافی جو عمران خان کا حامی ہرگز نہیں اور اس کا میلان ن لیگ کی طرف ہے، مسکرا کر کہنے لگا نتیجہ تو شاید زیادہ مختلف نہ ہو، مگر کچھ نہ کچھ فرق پڑ جائے گا اور پی ڈی ایم کے لئے شاید تھوڑا بہت چانس بن جائے ۔
اس گفتگو کے بعد میرے لئے اس کے سوال کا جواب دینا اور سمجھانا آسان ہوگیا تھا۔اسے کہا، بس آپ کے اپنے جوابات ہی میں سوال کا جواب پوشیدہ ہے۔ عمران خان کو سیاسی طور پر نااہل کرنا، اسے کسی طرح گرفتار کر کے اندر بھیجناپی ڈی ایم کی بقا کا مسئلہ بن گیا ہے ۔ وہ اس کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے ۔ جس حد تک جانا پڑا جائیں گے اور اپنے سب سے بڑے حریف عمران خان کے لئے زیادہ سے زیادہ سیاسی مشکلات پیدا کریں گے۔
ممکنہ پلان کیا ہوسکتا ہے؟
پچھلے چند دنوں میں کئی باخبر اخبارنویسوں اور ن لیگ کے ان سائیڈ سرکل تک رسائی رکھنے والے تجزیہ کاروں سے یہ سوال پوچھا کہ آپ کے خیال میں کیا ہونے جا رہا ہے۔ مجھے دو نکاتی جواب ملا:
عمران خان جلد سیاسی طور پر نا اہل ہوجائے گا۔
عمران خان کو اس کے بعد جیل بھیج دیا جائے گا۔
میرا اگلا سوال یہی ہوتا کہ آخر کس طرح یہ کیا جائے گا؟ اس کے جواب میں مختلف اسٹوریز، تجزیے اور خبریں سننے کو ملتی رہیں۔
ایک دوست کا کہنا تھا کہ ان کا ایک جاننے والا الیکشن کمیشن کے ریکارڈز وغیرہ تک رسائی رکھتا ہے اور ان کے قانونی ماہرین کے مطابق عمران خان کی سیاسی نا اہلی اب زیادہ دور نہیں اور بقول ان کے یہ اوپن اینڈ شٹ کیس ہے۔ ممنوعہ فنڈنگ کیس اور توشہ خانہ دونوں ہی عمران خان کی گردن میں طوق بنائے جائیں گے۔
پہلے نا اہلی اور پھر گرفتاری
اہم ذرائع یہ بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ حکومتی کیمپ کے اندر اس امر پر اختلاف ہے کہ پہلے کیا کرنا چاہیے۔ ایک رائے یہ تھی کہ کسی بھی طرح عمران خان کو پکڑ کر اندر کر دیا جائے تاکہ اس کی تقریروں کا سلسلہ تو ختم ہو۔ خیر یہ کام تو خود عمران خان کی ایک بے احتیاطی اور پھر اس پر پیمرا کی گرفت کے ذریعے سردست کر دیا گیا ہے، اس کی تقریروں پر پابندی لگ گئی۔ عدالتوں سے ریلیف ملا تب شاید کچھ اور سوچا جائے گا۔
کہا جارہا ہے کہ ن لیگ کے بعض لیڈر عمران خان کی گرفتاری سے پہلے اس کی سیاسی نا اہلی کے حامی ہیں۔ ان کے خیال میں ایسے گرفتار کیا گیا تو اس کی مقبولیت مزید بڑھ جائے گی جبکہ اگر سیاسی نا اہلی کے بعد کسی کیس میں گرفتاری ہوتی ہے تو پھر معاملہ مختلف ہوجائے گا۔ وہ اس حوالے سے میاں نواز شریف کی مثال دیتے ہیں جنہیں سپریم کورٹ نے پہلے نااہل کیا، پھر پارٹی لیڈر کا عہدہ رکھنے پر بھی پابندی لگائی اور پھر احتساب عدالت کی سزا کے بعد گرفتار اور اسیر کیا گیا۔ عمران خان کے لئے بھی ایسا ہی کوئی ماڈل سوچا جا رہا ہے۔
نااہلی ہوگئی تب کیا ہوگا؟
پی ڈی ایم کے اہم رہنماﺅں تک رسائی رکھنے والے اخبارنویسوں کا خیال ہے کہ حکومتی کیمپ کو اندازہ ہے کہ عمران خان کی نااہلی سے تحریک انصاف فوری تحلیل نہیں ہوجائے گی، ان کی مقبولیت اتنی جلد ختم نہیں ہوسکتی۔ یہ البتہ خیال ہے کہ عمران خان کے بعد پارٹی میں توڑ پھوڑ ہوگی، قیادت کے لئے مسابقت پیدا ہوگی ،متبادل سربراہ بننے کے لئے ایک سے زیادہ امیدوار ہوں گے۔ اس وقت پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی ہیں جبکہ حال ہی میں چودھری پرویز الٰہی کو پارٹی کا صدر بنایا گیا ہے۔ یہ دونوں قائم مقام قائد کے امیدوار ہوں گے، جبکہ یہ بھی امکان ہے کہ عمران خان اسد عمریا کسی دوسرے کو یہ ذمہ داری سونپ دے۔
حکومتی تھنک ٹینکس کا خیال ہے کہ تھوڑا بہت فرق تو لازمی پڑے گا اور عین ممکن ہے کہ نچلی یا درمیانی سطح پر کچھ لوگ تحریک انصاف سے توڑے جا سکیں، یہ بھی خیال ہے کہ ٹکٹوں کے مرحلے پر بھی اثرانداز ہوا جائے اور اچھے مضبوط امیدواروں کی جگہ پر نسبتاً کمزور لوگوں کو ٹکٹ مل جائیں جو الیکشن نہ جتوا سکیں، وغیرہ وغیرہ۔
کیا صوبائی اسمبلی کے الیکشن ہوں گے؟
یہ وہ سوال ہے جس پر ہر کوئی متفق ہے کہ پنجاب اسمبلی کے الیکشن ابھی نہیں ہوسکتے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن اکٹھے ہی ہوسکتے ہیں، اس کے بغیر یہ ممکن نہیں۔
تحریک انصاف کے کارکن اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ بھی نجی محفل میں یہ بات مانتے ہیں کہ صرف صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن نہیں ہوں گے، اکٹھے ہی ہونے ہیں مگر اب ان میں زیادہ دیر نہیں۔ یہ پرامید ہیں کہ بجٹ کے بعد ملک بھر میں جنرل الیکشن ہوسکیں گے۔
ایسا مگر کس طرح ممکن ہوگا؟ اس پر کسی کے پاس جواب موجود نہیں۔
لاہور کے ایک سینئر ایڈیٹر سے بات ہوئی تو ان کے خیال میں اسی فیصد امکانات ہیں کہ تحلیل شدہ صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ہوجائیں گے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ آئین کی اتنی بڑی خلاف ورزی عملی طور پر کرنا ممکن نہیں۔ الیکشن کمیشن یا کوئی بھی اور ایسا نہیں کرنا چاہے گا کیونکہ بعد میں آئین شکنی کے نتائج بھی انہیں ہی بھگتنا پڑیں گے۔ الیکشن کمیشن کے سابق اعلیٰ عہدے دار کنور دلشاد کا بھی یہی موقف ہے، وہ کہتے ہیں کہ جو اسمبلیاں تحلیل ہوئی ہیں ان کے الیکشن تو کرانے پڑیں گے۔
ملین ڈالر سوال یہی ہے کہ پنجاب میں تو الیکشن کمیشن نے شیڈول کا اعلان بھی کر دیا ہے، اب الیکشن کس طرح ملتوی کئے جائیں گے؟ کیا عذر بنایا جائے گا اور کیا یہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی نہیں ہوگی؟ ممکن ہے حالات ہی کچھ ایسے بن جائیں کہ کوئی اعتراض نہ کرے۔
معاشی ایمرجنسی کا آپشن
ن لیگ کے بعض حلقے معاشی ایمرجنسی کی دبے لفظوں میں بات کرتے رہے ہیں کہ ایسی صورت میں بہت سے آئینی حقوق ضبط ہوجائیں گے اور معاشی حالات کے پیش نظر الیکشن ملتوی کرانا آسان ہوجائے گا۔ اس حوالے سے ایک سازشی تھیوری بھی موجود ہے کہ شاید حکومت دانستہ حالات زیادہ خراب کر رہی ہے تاکہ کوئی انتہائی قدم اٹھایا جا سکے ۔
البتہ ماہرین معیشت کا ایک حلقہ البتہ اس آپشن کو سختی سے رد کرتا ہے۔ ان کے خیال میں جو لوگ یہ بات کر رہے ہیں انہیں معاشی ایمرجنسی کے مضمرات کا علم ہی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جیسے ہی اس کا اعلان ہوا تو ملک عملی طور پر دیوالیہ ہونے کی طرف چلا جائے گا۔ دنیا بھر میں کمپنیوں کو اندازہ ہوجائے گاکہ پاکستان میں صورتحال کس حد تک خراب ہوگئی ہے۔ کہیں سے جہاز یا کچھ اور مال بھی نہیں آئے گا، انشورنش کے ریٹ آسمان تک چلے جائیں گے اور اس کے نتائج اتنے خوفناک ہوں گے کہ اسے سنبھالنا ممکن ہی نہیں رہے گا۔
ٹرمپ کارڈ کیا ہوگا؟
اس بارے میں اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ اشارہ کر چکے ہیں کہ اگر ڈیجیٹل مردم شماری نوٹیفائی ہوگئی تو اگلے دو ماہ تک الیکشن نہیں ہوسکیں گے۔ وہ جولائی کے بعد ملک بھر میں جنرل الیکشن کا اشارہ دے چکے ہیں۔ ممکن ہے ڈیجیٹل مردم شماری کا ایشو بنایا جائے، ممکن ہے وفاقی حکومت الیکشن کمیشن کو فنڈز دینے سے صاف انکار کر دے ، ایک عذر یہ بھی بنایا جا رہا ہے کہ سرکاری ٹیچرز وغیرہ پر مشتمل عملہ ہی الیکشن کراتا ہے مگر یہ سب مردم شمار ی میں مصروف ہیں ۔
یقینی طور پر کچھ اور بھی سوچا جا رہا ہوگا۔ یہ بہرحال طے ہے کہ پی ڈی ایم کسی بھی صورت میں جلد الیکشن نہیں کرانا چاہتی کہ اسے یقینی شکست صاف نظر آرہی ہے۔ پی ڈی ایم قطعی طو رپر یہ نہیں چاہتی کہ پنجاب اور کے پی صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن پہلے ہوجائیں ، اس لئے کہ یہاں ہار ہوئی تو قومی اسمبلی میں پھر ہار سو فی صد یقینی ہوگی۔ اس لئے ہر ممکن طریقہ، ہر چال چلی جائے گی۔ ایسا کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جایا جائے گا۔ ن لیگ اسی لئے عدلیہ کو بھی ہدف بنا رہی ہے تاکہ اسے اس قدر دفاعی پوزیشن میں لے جایا جائے کہ وہ اپنے فیصلے کی خلاف ورزی پر کوئی سخت ایکشن نہ لے سکے۔
دوسری طرف عمران خان نے بھی کچھ نہ کچھ سوچ رکھا ہے۔ وہ اپنے کارڈز اچھے سے کھیل رہے ہیں۔ اپنے کارکنوں کو چارج رکھے ہوئے ہیں،الیکشن کی تیاریاں انہوں نے شروع کر دی ہیں۔ البتہ عدالتی جنگ میں وہ کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں یہ ابھی دیکھنا باقی ہے؟ عمران خان اپنی نااہلی اور گرفتاری کو کس طرح ناکام بنانے کی کوشش کریں گے، یہ بھی تحریک انصاف کے مستقبل کے لئے اہم ہے۔
بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ مارچ کے مہینے کے اندر ہی جو ہونا ہے وہ ہوجائے گا۔ اپریل کا مہینہ انتخابی مہم کے گرد گھومے گا اور پھر الیکشن ملتوی کرنا آسان نہیں رہے گا۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر