وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا اچھا منظر ہے۔ آئین کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر خود آئین مارے خوشی کے جھومنے کے خوف سے کپکپا رہا ہے۔ ریاست جن چار ستونوں پر کھڑی ہے، وہ ستون آئین کا بوجھ نہیں سہار پا رہے۔ ہر ستون سے فرانسیسی شہنشاہ لوئی چہاردہم کا بھوت چمٹ چکا ہے۔ ہر ستون سے آواز آ رہی ہے ’’لے تا سے موا” (میں ہی ریاست ہوں)۔
ہم تیئیس مارچ کو یوِم پاکستان اور چودہ اگست کو یوِم آزادی مناتے ہیں۔ مگر گزشتہ پچاس برس میں کسی منتخب یا نامزد پارلیمان نے یہ قانون نہیں بنایا کہ دس اپریل بطور یوِم دستور منایا جائے۔ جبکہ بھارت جو ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا۔ وہاں جتنی اہمیت پندرہ اگست (یوم آزادی) کو دی جاتی ہے اتنی ہی چھبیس جنوری (یوِم جمہوریہ) کو بھی دی جاتی ہے۔ بھارت میں یوم آزادی پر کسی غیر ملکی مہمان کو مدعو کیا جائے یا نہ کیا جائے مگر چھبیس جنوری کی پریڈ کا مہمانِ خصوصی عموماً کوئی نہ کوئی سربراہ مملکت یا حکومت ہوتا ہے تاکہ دنیا کو باور کرایا جا سکے کہ بھارت سب سے بڑی عالمی جمہوریت ہے۔
جب انیس سو ستانوے میں بھارت اور پاکستان نے آزادی کی گولڈن جوبلی منائی تو ملکہ برطانیہ نے اکتوبر میں دونوں ممالک کا خصوصی دورہ کیا۔ انہوں نے اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ اس اجلاس میں غیر ملکی سفرا،عدالِت عظمی کے جج، تینوں مسلح افواج کے سربراہ مہمانوں کی گیلری میں بیٹھے تھے۔ ملکہ کو باور کرایا گیا کہ کس طرح مشترکہ تلخ و شیریں نوآبادیاتی تاریخ،علاقائی اتھل پتھل اور داخلی بحرانوں کے باوجود پاکستان پچھلے پچاس برس میں ایک پراعتماد ریاست کے طور پر ابھرا ہے۔ (آج کی نسل شاید نہ جانتی ہو کہ ملکہ کے والد پانچ برس اور ان کے بعد ملکہ برطانیہ چار برس پاکستان کی آئینی حکمران رہیں۔ جب تک انیس سو چھپن کے آئین کے تحت ملک کا ڈومینین اسٹیٹس جمہوریہ میں نہیں بدل گیا اور گورنر جنرل ملکہ کے نمائندے کے بجائے صدِر مملکت کہلانے لگا)۔
دس اپریل کو جب اسلام آباد کے پارلیمنٹ ہال میں آئین کی گولڈن جوبلی کے موقع پر خصوصی اجلاس ہوا تو اس میں عدالِت عظمی کے ایک جج (قاضی فائز عیسی) کےعلاوہ کسی مدعو جج نے شرکت نہیں کی۔ صدِر مملکت کو اللہ جانے اس خصوصی اجلاس کی دعوت دی گئی یا انہوں نے شرکت کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ تینوں مسلح افواج کے سربراہ بھی دکھائی نہیں دیے۔
غرض یہ پارلیمانی سیشن کہیں سے بھی کوئی ایسا خصوصی اجلاس نہیں لگ رہا تھا، جسے جشن طلائی کا جلسہ کہا جا سکے۔ نہ ہی تقاریر اس خصوصی موقع کے شایانِ شان تھیں۔وہی روزمرہ کے عمومی مسائل، الزام تراشی، تھکے ہوئے فقرے اور بوریت کی فضا۔
آئین کے ایک ستون (پارلیمنٹ) نے دوسرے ستون (عدلیہ) کے لتے لیتے ہوئے یہ لحاظ بھی نہیں کیا کہ سپریم کورٹ کے ایک معزز جج بھی اس ایوان میں اس وعدے پر مدعو ہیں کہ اس سیشن میں کوئی متنازعہ یا سیاسی یا آئین کی تاریخ سے ہٹ کے موضوع نہیں چھیڑا جائے گا۔ چنانچہ معزز مہمان جج کو بادلِ نخواستہ اپنے خطاب میں میزبانوں کو وہ وعدہ یاد دلانا پڑا کہ جس پر عمل نہیں ہوا۔
سرکاری پی ٹی وی اور نجی چینلوں نے اس موقع پر تمام کارروائی براہِ راست دکھائی۔ مگر جب جب کسی رکنِ پارلیمان نے اپنی توپوں کا رخ آئین کے احترام کی بابت عسکری اسٹیبلشمنٹ کے کردار کی جانب موڑنے کی کوشش کی تو چینلوں نے بھی براہ راست کارروائی کی نشریات پر اپنی خانہ ساز کمنٹری چڑھا کے ناظرین کی توجہ بٹانے کی بھرپور کوشش کی تاکہ کل کلاں چینلوں کو کوئی نیا نوٹس نہ مل جائے۔
یعنی ایک بار پھر جتا دیا گیا کہ آئین سر آنکھوں پر، آئینی اداروں پر تنقید بھی سر آنکھوں پر۔لیکن آئین سے اوپر بھی کوئی سپریم طاقت ہے جس کے بارے میں پارلیمنٹ کی چار دیواری میں بات تو ہو سکتی ہے مگر خواص کی بات ضروری نہیں عوام تک بھی پہنچے۔ عوام پارلیمنٹ ضرور چن سکتے ہیں لیکن اپنی ہی چنندہ پارلیمنٹ کو پوری طرح سننے کا فیصلہ کرنے کے اہل نہیں۔
اور ملکوں میں ایسے یادگار مواقع پر پریڈیں ہوتی ہیں، قیدیوں کی سزا میں تخفیف کا اعلان ہوتا ہے، خصوصی ڈاک ٹکٹوں، کرنسی نوٹوں یا سکوں کا اجرا ہوتا ہے، یادگاری تمغہ بھی جاری ہو جاتا ہے۔ آئین کی اہمیت پر ملکی و بین الاقوامی کانفرنسیں ہوتی ہیں۔ تعلیمی اداروں میں طلبا کو آئین کی اہمیت اور اس کے اہم نکات سے آگاہ کرنے کی مہم چلائی جاتی ہے۔ مگر آس پاس کا آسیبی ماحول دیکھ کے بے ساختہ یاد آ گیا ”اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی ‘‘
ہم چونکہ وکھرے قسم کے لوگ ہیں لہذا ہمارا خراج تحسین و خراجِ عقیدت بھی وکھرا ہی ہوتا ہے۔ ہم نے آئین کی گولڈن جوبلی کے موقع پر خصوصی قومی ٹورنامنٹ کا اہتمام کیا۔ مقابلہِ تیراندازی حزبِ اقتدار پی ڈی ایم اور حزبِ اختلاف پی ٹی آئی کے درمیان ہے۔ مقابلہ نیزہ بازی ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیرِ اعظم کے بیچ ہے۔ اعلی عدلیہ اور انتظامیہ (سرکار) ہیوی ویٹ باکسنگ میں آمنے سامنے ہیں۔کوئی ٹکٹ نہیں۔ انٹری فری فار آل ہے۔
ویسے تو ہمیں پہلی آئینی موٹر کار انیس سو پینتیس کے انڈیا ایکٹ کی شکل میں ملی۔ جسے ہم نے کھٹارا ہونے کے باوجود آزادی کے بعد بھی نو برس تک چلایا۔ پھر ہم اس قابل ہوئے کہ چھپن ماڈل کی آئینی کار خرید سکیں۔ لیکن یہ گاڑی لگ بھگ ڈھائی برس بعد ہی ایک فوجی جیپ سے تصادم میں تباہ ہو گئی۔
پھر اسی جیپ پر خاکی اور سبز رنگ کی لیپاپوتی کر کے اس پر انیس سو باسٹھ کی نیم پلیٹ لگا دی گئی۔ آٹھ برس میں یہ بھی کھٹارا بن کے کباڑی کے ہاتھ بک گئی۔ اگلے پانچ برس تک یہ ملک بیابان میں پاپیادہ چلتے چلتے ادھ موا ہو گیا۔ تب کہیں جا کے قسطوں پر انیس سو تہتر میں ایک نئی آئینی موٹرکار لے پایا۔
یہ موٹر کار پچاس برس سے کسی نہ کسی طور رواں ہے۔وہ الگ بات کہ کانسٹیٹیوشن ایونیو پر ایک سے ایک اناڑی ڈرائیور نے اس پر طبع آزمائی کی۔ اوریجنل بمپر ٹوٹ گیا تو جینین کی بجائے کسی جیپ کا کام چلاؤ بمپر لگا دیا گیا۔ بریکیں کئی بار ٹوٹیں اور بدلی گئیں۔سیٹ کورز پھٹ گئے، بار بار ورکشاپ میں لمبے لمبے عرصے کے لیے کھڑی رہی۔ کئی بار انجن بھی کھلا۔ مگر آج بھی کسی نہ کسی طور رواں ہے۔
کیوں نہ اس کے پیچھے اب لکھوا دیا جائے:
نہ انجن کی خوبی نہ کمالِ ڈرائیور
چلی جا رہی ہے خدا کے سہارے
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
(بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر