نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ذوالفقار علی بھٹو کی برسی !!!۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عدالتوں میں لڑی جانے والی کرسی اور اقتدار کی جنگ خدا نہ کرے ’’میرے ہم وطنو!‘‘ تک نہ پہنچے کہ 4 اپریل ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا دن بھی اسی کشمکش کی یاد دلاتا رہا ۔ بھٹو کی برسی کے موقع پر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان کی سیاست بھٹو کے تذکرے کے بغیر ادھوری ہے ، بھٹو ایک شخص نہیں ایک سوچ کا نام ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی شہید ذوالفقار علی بھٹو 5جنوری 1928کو لاڑکانہ میں پیدا ہوئے، آپ کے والد شاہ نواز بھٹو(1888 ئ1957-ئ) سندھ کے زمیندار اور با اثر سیاست دان تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم بمبئی سے اور اعلیٰ تعلیم برگلے یونیورسٹی کیلی فورنیا اور اوکسفورڈ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ کچھ عرصہ سائوتھمپٹن یونیورسٹی میں بین الاقوامی قانون کے لیکچرر بھی رہے۔ 1962ء میں آپ کو وزیر خارجہ بنایا گیا تو پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ستمبر1965ء میں پاک بھارت جنگ کے دوران میںذوالفقارعلی بھٹو نے اقوم متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کے مسئلے پر ایک شاندار تقریر سے اقوام عالم کو ہم نوا بنایا جب جنوری 1966ء میں پاکستان اور بھارت نے ’’اعلان تاشقند‘‘ پر دستخط کیے تو یہیں سے ایوب خان اور بھٹو کے اختلافات کا آغاز ہوا۔ آپ وزارت خارجہ سے مستعفی ہو گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر محترمہ بے نظیر بھٹو تک جس طرح بھٹو خاندان کو غیر طبعی موت کے ذریعے راستے سے ہٹایا گیا، دنیا کی سیاسی تاریخ میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے، بھٹو خاندان کے یکے بعد دیگر قتل کے بعد جو اثرات پاکستان پر مرتب ہوئے اس سے پاکستانی قوم آج تک نہیںنکل سکی۔ ایک فیصلہ عدالتوںنے دیا اور ایک فیصلہ عوام کا ہے ۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے سر براہ ذوالفقار علی بھٹو 4 اپریل 1979ء کو نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کے الزام میں پھانسی دے دی گئی ، اس مقدمے میں وعدہ معاف گواہ فیڈرل کے سر براہ مسعود محمود دنے اعتراف کیا تھا کہ بھٹو نے انہیں مسٹر قصوری کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا، لا ہور ہائی کورٹ نے 18 مارچ 1978ء کو اس مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے بھٹو کو سزائے موت اور 25 ہزار جرمانہ ادا کرنے یا چھ ماہ تک سخت قید کی سزا سنائی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے ورثاء پھانسی کو سیاسی قتل کا نام دیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ عدالت نے آمر کے دبائو پر پھانسی کا فیصلہ سنایا تھا، وہ اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کیلئے یہ بات بھی کہتے ہیںکہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق علی نے صد رکی ہدایات براہ راست وصول کی تھیں، سپریم کورٹ کے 4 ججوں نے پھانسی کے حق میں جبکہ 3 نے اس کے خلاف فیصلہ سنایا۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ بھٹو دراصل امریکہ کے غضب کا نشانہ بنے کیونکہ انہوںنے پاکستان میں ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا تھا اور عالم اسلام کے اتحاد کے خواہاں تھے، پھانسی کی سزا پر عمل درآمد روکنے کیلئے کئی بین الاقوامی رہنمائوں نے جنرل ضیاء الحق پر دبائو ڈالا لیکن وہ اپنے فیصلے پر بضد رہے۔ یوں 4 اپریل 1979ء کو ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک وزیراعظم پھانسی کے پھندے پر جھول گئے،اور پورے ملک میں ہنگامے شروع ہو گئے۔ پیپلزپارٹی اسے عدالتی قتل قرار دیتی ہے، ذوالفقار علی بھٹو کے چاروں بیٹوں اور بیٹیوں میں سب سے چھوٹے بیٹے شاہ نواز بھٹو سوئٹرز لینڈ میں پڑھ رہے تھے جب ان کے والد کو پھانسی کی سزا دی گئی تو انہوں نے اپنے بڑے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کیساتھ مل کر بین الاقوامی لیڈروں سے ملاقات کے دوران جنرل ضیاء کو پھانسی کے فیصلے سے باز رکھنے کی بھرپور کوشش کی لیکن ان کی تمام کوششیں بے کار ثابت ہوئیں۔ ۔ 18 جولائی 1985ء کو 27 سالہ شاہ نواز اپنے فلیٹ میں مردہ پائے گئے، ان کی موت کو بھی بھٹو خاندان کو ختم کرنے کی کڑی قرار دیا جاتا ہے۔ بھٹو خاندان کا قصہ صدیوں پرانی دیو مالائی لوک داستانوں کا حصہ نہیں اور نہ ہی سندھ وادی کی کئی ہزار داستانوں میں کوئی ایسی کہانی کتابوں میں درج ہے مگر گڑھی خدا بخش کے بھٹو خاندان کی مزاحمتی تاریخ پر نظر ڈالیں تو قربانیاں دینے والے انسانوں کی المناک داستانوں میں یہ داستان سر فہرست نظر آئے گی۔ بھٹو خاندان کے بہت سے افراد مصائب سے دو چار ہوئے ، انہیں ہم نے نہیں دیکھا مگر ذوالفقار علی بھٹو سے محترمہ بینظیر بھٹو تک قربانیوں کے تو ہم خود شاہد ہیں ۔اگر ایک لمحے کیلئے چشم تصور سے تصور کریں تو بھٹو خاندان کی قربانیاں کسی دیو مالائی قصے کا حصہ نظر آتی ہیں اور گمان ہوتا ہے کہ ایسے ہو نہیں سکتا۔ مگر یہ سچ ہے اور سو فیصد سچ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو جس کے پاس کسی چیز کی کمی نہ تھی ، انہوں نے بزدلی اختیار نہ کی ،اصول پر موت کو ترجیح دی ۔ اسی طرح سارا زمانہ بینظیر بھٹو کو کہتا رہا کہ پاکستان میں موت ہے ، وہاں نہ جانا ،یہ تمہیں مار دیں گے مگر محترمہ بینظیر بھٹو نے کہا میں پاکستان ضرور جائوں گی ۔ ہزار اختلاف کے باوجود یہ تسلیم کرنے کے سوا چارہ نہیںکہ ذوالفقار بھٹو ایک قومی رہنما تھے ’’غریب کو اپنے ہونے کا احساس‘‘ دیکر بلا شبہ بھٹو نے بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا ۔ بھٹو کی شخصیت کے کئی پہلو تھے،ان کا وسیب سے محبت کا حوالہ بہت اعلیٰ ہے ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ نسل در نسل اسمبلیوں میں جانے والے وسیب کے جاگیرداروں کو اپنے خطے کی تہذیب‘ ثقافت اور تاریخ کا علم نہیں ہے مگر بھٹو اس سے واقف تھے وہ سرائیکی کی جداگانہ شناخت کو سمجھتے تھے ۔ آج ہمیں بہت دُکھ ہوتا ہے کہ بھٹو کی سیاسی میراث کے وارثوں نے ان کے اس پہلو کو فراموش کر دیا۔پیپلز پارٹی مہاجر صوبے کے خوف سے صوبے کے مسئلے کو بیچ منجھدار میں چھوڑ کر خود کنارے لگ گئی، کیا اس کا نام وفا شعاری ، اصول اور نظریہ ہے؟ ۔ ٭٭٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author