وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم ایک طوفان کی زد میں آئے گھر کے مکین ہیں۔ نیند آتی ہے مگر جاگ رہے ہیں سرِ خواب۔ لرزتی دیواروں، تیز ہوا کے جھکڑوں میں وقفے وقفے سے سر پیٹتے کواڑوں اور بوسیدہ کڑیوں پر ٹکی چھت کے نیچے شاید یہ رات بھی گزار لی جاتی لیکن آئندہ صبح کے ویرانے کا امکان الگ سے خاک اڑا رہا ہے۔ ہمیں تو ان حالوں پہنچنے کے مکمل حقائق بھی معلوم نہیں، آگے کا منظر کیسے بیان کریں اور یہ حکایت کس سے کہیں۔ کسی چارہ ساز کی کوئی خبر نہیں۔ اس آفت کے سامنے مصحفی نے ہاتھوں کی پناہ کر لی تھی۔ ہم مگر دست بریدہ ہیں، ہمارے لئے پرانی کتابیں اور رفتگاں کی یاد ہی ٹھکانہ ہیں۔ اپنی زمین کے ایک گوہر گم کردہ سے بات شروع کرتے ہیں۔ 19 فروری 1936 کو پیدا ہونے والے محمد ادریس پاکستان کے بہترین انگریزی صحافیوں میں سے ایک تھے۔ وہی مشرق اور مغرب کے رنگوں میں رچی دھنک، خواب اور خاک کے درمیان کھنچی سانسوں کی کڑی کمان۔ 29 دسمبر 1988 کو رخصت ہونے والے محمد ادریس کی ربع صدی پر محیط تحریروں کا انتخاب ظفر اقبال مرزا نے کیا تھا جس کا عنوان مارچ 1972 میں لکھے محمد ادریس کے ایک کالم کے آخری جملے سے مستعار لیا گیا تھا۔ The night was not loveless ۔ بظاہر مادھو لال حسین کے عرس کی تصویر کشی تھی لیکن ادریس نے بین السطور ہماری تاریخ کے ان دنوں کی اجتماعی رسوائی کا نوحہ سولی کی نوک پر رکھ دیا تھا۔ Loveless nights grow cold and bitter and long. Last night was not loveless ۔
امریکی ادیب سکاٹ فٹز جیرالڈ گزشتہ صدی کی تیسری دہائی میں طلوع ہوا ۔ Jazz age اور امتناع مے نوشی کا عشرہ ختم ہوتے ہوتے غروب ہو گیا۔ جیرالڈ کی بیوی زیلڈا ذہنی پیچیدگیوں سے دوچار تھی۔ خود جیرالڈ کثرت مے نوشی اور تخلیقی آزمائشوں کا شکار تھا۔ اس کیفیت میں اس نے 1934 میں ایک شاندار ناول لکھاTender is the night۔ یہ عنوان جان کیٹس کی بلبل کے نام شہرہ آفاق نظم کے چوتھے بند سے لیا گیا ہے لیکن کساد بازاری، خشک سالی اور دو عالمی جنگوں کے درمیان بے یقینی کو اپنی ذاتی زندگی پر منطبق کرتے ہوئے جیرالڈ غالباً یہ اشارہ دے رہا تھا کہ رات کے جادو میں بھید ہے۔ رات کی تاریکی ناگزیر طور پر خطرے کی علامت ہے، ان دیکھی معذوریاں ہوتی ہیں۔ ناقابل فہم دباﺅ ہوتے ہیں۔ اندھیرے میں اجتماعی سانجھ کا دائرہ انفرادی بقا تک محدود ہو جاتا ہے۔ سکاٹ جیرالڈ کا یہ ناول ہماری حالیہ تاریخ کے چند برسوں سے بہت مطابقت رکھتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے ابتدائی برسوں میں امریکا ہی میں یوجین اونیل (Eugene O’Neill) نے اپنا بہترین ڈرامہ لکھا۔ A Long day‘s journey into night یہ میاں بیوی اور ان کے دو بیٹوں پر مشتمل مختصر ٹائرون (Tyrone) گھرانے کی ناکام زندگیوں کی کہانی ہے ۔ مرکزی خیال یہ ہے کہ محرومی، کوشش کی شکست اور فرد کی ٹوٹ پھوٹ کے سرے کہیں بہت دور معروض کے بڑے دائرے سے برآمد ہوتے ہیں لیکن افراد خانہ ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں، باہم الجھ رہے ہیں۔ الزام تراشی کی آڑ میں اپنا دفاع ڈھونڈ رہے ہیں۔
کیا ہم بھی ان دنوں کچھ ایسا ہی نہیں کر رہے۔ ہمیں ٹھیک سے معلوم ہے کہ ہماری معاشی بدحالی، سیاسی الجھاﺅ، اداروں کے زوال اور قومی وقار میں انحطاط کے سرے ہماری تاریخ میں بہت دور تک جاتے ہیں۔ بیرونی عوامل اسی صورت میں کسی ملک کے حالات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں جب انہیں درون خانہ نقب زنی کے راستے فراہم کیے جائیں، ذاتی اور گروہی مفاد کے لئے قومی مفاد کو رہن رکھنے والے میسر ہوں۔ کیا قیامت ہے کہ شہریوں نے دستور کے عمرانی معاہدے میں اپنے تحفظ کے لئے ریاست کو رضاکارانہ طور پر جو اختیارات سونپے تھے، انہیں شہریوں کے خلاف مورچوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ عام شہری انصاف کے لئے عدلیہ ہی سے رجوع کر سکتا ہے کیونکہ عدالت کا حکم قوت نافذہ رکھتا ہے۔ عشرہ در عشرہ اس اعتماد کو بار بار ٹھیس پہنچائی گئی لیکن شہری یہ سوچ کر چپ ہو رہے کہ عدالت کا غیرمشروط احترام عوام کی حفاظت کے لئے ناگزیر فصیل ہے۔ اب اس فصیل کی برجیاں اور کنگرے ایک ایک کر کے منہدم ہو رہے ہیں۔
پولیس کا ادارہ عوام کا محافظ ہے لیکن اگر ان محافظوں کو ان دیکھے اشاروں پر مجبور مہروں کی طرح حرکت میں لایا جائے گا تو طاقتور افراد اور طبقات عوام پر چڑھ دوڑیں گے۔ عوام کے ووٹوں سے حکومت منتخب کرنے کا عمل عوام کی حاکمیت کا معتبر ترین ذریعہ ہے۔ گن جائیے کہ ہم نے اس عمل کو کب کب غبار آلود کیا۔ کبھی حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ نکال کر آپریشن بلٹز (Blitz) کی کچھ تفصیل بھی دیکھ لیجیے۔ یہ منصوبہ 7 دسمبر 1970 کے انتخابات کے چند روز بعد تیار کیا گیا تھا اور اس کا واحد مقصد عوامی لیگ کو اقتدار سے محروم رکھنا تھا۔ اگر ہم جولائی 2018ء کے انتخابات میں کھلی مداخلت نظر انداز بھی کر دیں تو یہ سوال پھر بھی دستک دیتا رہے گا کہ اسی انتخاب سے قائم ہونے والی پارلیمنٹ اس وقت عضو معطل کیوں ہے؟ آئی ایم ایف کے مطالبات بالآخر ہمارے دفاعی اثاثوں تک آن پہنچے۔ اسی کا مدت سے اندیشہ تھا۔ معاشی طور پر وجودی خطرے سے دوچار ریاست اپنی سلامتی کے تقاضے کیسے پورے کرے گی۔ ہم ایسے قلم گھسیٹ صحافی جو ’معاشی ترجیحات پر نظر ثانی‘ جیسی ملفوف تراکیب کی مدد سے کچھ عرض و معروض کرتے رہے، انہیں دریدہ دہن قرار دیا گیا۔ اب زلمے خلیل زاد ہمارے داخلی معاملات پر سرعام رائے زنی کر رہا ہے۔ حکومت تو سوشل میڈیا کے پوسٹ ٹروتھ بیان کے مطابق ’درآمدہ‘ ہے۔ کیا Absolutely Not کا نعرہ لگانے والے بھی ثقل سماعت کا شکار ہو گئے ہیں۔ محمد ادریس حیات ہوتے تو درویش ان سے عرض کرتا کہ ہماری رات چاند اور محبت ہی سے محروم نہیں ہوئی، ہماری رات طویل، سرد اور تلخ ہو گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر