نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاکستان کا ایٹمی پروگرام !!!۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کا ایٹمی پروگرام نہایت اہمیت کا حامل ہے، یہ حقیقت ہے کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے، پاکستان کئی مرتبہ جارحیت کا شکار ہوا مگر پاکستان نے آج تک نہ تو کوئی جارحیت کی اور نہ ہی کسی ملک پر حملہ آوار ہوا۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام جو کہ ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کیا صرف امن و دفاع کیلئے ہے۔ یہ نصف صدی کا قصہ ہے پل دو پل کی بات نہیں! پاکستان اپنے ایٹمی پروگرام کا دفاع کرتا آ رہا ہے اور ایٹمی پروگرام کی حفاظت بھی کی ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ناقدین کا یہ بھی اعتراض سامنے آیا کہ پاکستان کی حفاظت ایٹم بم نہیں کر رہا بلکہ پاکستان ایٹم بم کی حفاظت کر رہا ہے۔ پاکستان بد ترین معاشی بدحالی کا شکار ہوا تو آئی ایم ایف نے دیگر پابندیوں کے علاوہ مبینہ طور پر ایٹمی صلاحیت پر بھی اعتراض کیا ہے مگر وزیراعظم آفس نے پاکستان کے جوہری اور میزائل پروگرام کے حوالے سے سوشل اور پرنٹ میڈیا میں گردش کرنے والے حالیہ تمام بیانات کو مسترد کر دیا جبکہ وزیراعظم شہباز شریف نے قیاس آرائیوں کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ریاست پاکستان ہر طرح سے اس پروگرام کی حفاظت کی ذمہ دار ہے، یہ پروگرام مکمل طور پر محفوظ، فول پروف اور کسی بھی دبائوسے ماورا اور آزاد ہے۔ وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کا کہنا ہے ہم پاکستان کے عوام کے نمائندے اور قومی مفادات کے محافظ ہیں، کسی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ پاکستان کے میزائل پروگرام پر ڈکٹیشن دے، آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہونے کے ساتھ ہی تمام تفصیلات وزارت خزانہ کی ویب سائٹ پر ڈال دی جائیں گی۔لیکن ایک بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت پر وہ ممالک اعتراض کرتے ہیں جو خود بہت بڑی ایٹمی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کے پاس ایک تو کیا سینکڑوں کی تعداد میں ایٹم بم موجود ہیں، اسرائیل پاکستان کے مقابلے میں بہت چھوٹا ملک ہے اس کی ایٹمی صلاحیت پر کیوں اعتراض نہیں کیا جاتا؟گزشتہ سال اکتوبر میںامریکی صدر جو بائیڈن نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بے قاعدہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے جوہری ہتھیار غیر منظم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان جوہری ہتھیار غیر منظم ہیں تو کیا اسرائیل اور دیگر ممالک کے پاس جو ایٹمی ہتھیار ہیں کیا وہ منظم ہیں؟ عالمی برادری کو دوہرے معیار ختم کرنا ہوں گے ، عالمی برادری کے دوہرے معیار پر تنقید کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار تک پہنچا دیا گیا۔ اب عمران خان بھی کہہ رہے ہیں کہ مجھے عالمی طاقتوں کی نا فرمانی کی سزا مل رہی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اور بھارت کا تنازعہ روز اول سے ہی چلا آ رہا ہے، پاکستان نے پہل نہیں کی۔ تاریخ پر نظر ڈالنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ1974ء کو جب انڈیا نے پوکھران میں تین ایٹمی دھماکے کیے تو اس کے فوراً بعد دبائو پاکستانی حکومت اورفیصلہ سازوں پر آ گیا،پاکستانی عوام بھی ایٹمی دھماکوںکا فوری جواب چاہتے تھے مگر دنیا کی بڑی طاقتیں پاکستان کو کسی بھی قیمت پرایسا کرنے سے باز رکھنا چاہتی تھیں۔حکمران اسی شش و پنج میں تھے کہ انڈیا نے دو مزید دھماکے کر دیے۔ اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ بھارت نے کشمیر میں ظلم کا بازار گرم کر رکھا تھا جو آج تک جاری ہے ، اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے برعکس کشمیری عوام کی خواہشات کے برعکس کشمیر پر قبضہ کیا ،یہی وجہ تھی کہ پاکستان نے خود کو خطرات سے بچانے کیلئے ایٹمی پروگرام شروع کیا اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے فرانس کے ساتھ ایٹمی پروگرام کا معاہدہ کر کے اسے عملی شکل دی۔ ان دنوں ٹی وی چینلز کی بھر مار نہیں تھی لیکن اخبارات بالخصوص دوپہراور شام کے اخبارات میں ہرچند گھنٹوں بعد دھماکے ہونے یا نہ ہونے کی شہ سرخیوں کے ساتھ نئے ضمیمے گلیوں اور بازاروں میں پھیل رہے تھے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پاکستانی حکام نے یہ سوچنا شروع کر دیا تھا کہ انڈیا سے مقابلے کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کا حصول ضروری ہے۔ جب 1974 ء میں انڈیا نے ایٹمی دھماکہ کیا تو اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے کہا کہ پاکستان ہر صورت ایٹم بم بنائے گا، چاہے گھاس ہی کیوں نہ کھانا پڑے۔ 1974 ء میں کینیڈا نے جوہری عدم پھیلائو تنازع کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ ایٹمی تعاون ختم کر دیا۔ اسی سال پاکستان نے یورینیم کی افزودگی کے لیے کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز قائم کیں اور ڈاکٹرعبدالقدیرخان نے یورینیم افزودگی پر کام شروع کیا۔بھارت نے 1996 ء میں ایٹمی وار ہیڈ لے جانے والے پرتھوی میزائل کا تجربہ کیا، اس کے جواب میں پاکستان نے اپریل 1998 ء میں ایٹمی میزائل غوری کا کامیاب تجربہ کیا۔ انڈیا نے 11 اور 13 مئی 1998 ء کو یکے بعد دیگرے ایٹمی دھماکے کر دیے، دھماکوں کے بعد انڈیا کی جانب سے پاکستان کو دھمکی آمیز بیانات دیے جانے لگے۔ پاکستان کے سیاسی اور عوامی حلقوں کی جانب سے بھارت کو جواب دیے جانے کا مطالبہ ہوا، صورت حال کو دیکھتے ہوئے پاکستان کی حکومت نے بھی ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ کیا، جس پر متعدد ممالک پاکستان کو ایٹمی دھماکوں سے روکنے کے لیے آگے بڑھے۔ پاکستان نے بیرونی دبائو مسترد کرتے ہوئے 28 مئی 1998ء کی صبح تمام عسکری تنصیبات کو ہائی الرٹ کر دیا ، چاغی کے مقام سے دس کلومیٹر دور آبزرویشن پوسٹ پر اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر اشفاق، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر ثمر مبارک، کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کے چار سائنس دانوں کے ساتھ پاک فوج کی ٹیم کے قائد جنرل ذوالفقار کی قیادت میں تین بج کر 16 منٹ پر فائرنگ بٹن دبا دیا گیا جس کے بعد چھ مراحل میں دھماکوں کا خود کار عمل شروع ہوا اور یوںپاکستان ایٹمی قوت بن گیا۔ اب یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم مل کر اس ایٹمی قوت کو نہ صرف قائم رکھیں بلکہ اسے مزید کامیابیوں کی طرف لے جائیں، پاکستانی قوم امن، محبت اور اخوت پر یقین رکھتی ہے۔ دُنیا کی کوئی طاقت اسے چیلنج نہیں کرسکتی، ایٹمی پاکستان نعمت الٰہیہ ہے، ایٹمی پاکستان محافظ عالم اسلام بھی ہے،اس نعمت ِ الٰہیہ کی قدر کرنی چاہیے۔

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author