نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جسٹس وقار سیٹھ ایوینیو||مطیع اللہ جان

مطیع اللہ جان پاکستان کے نامور صحافی ہیں ، نوائے وقت سمیت مختلف اشاعتی و نشریاتی اداروں سے وابستہ رہے ہیں، وہ مختلف موضوعات پر لکھتے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

مطیع اللہ جان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان کی اہم ترین شاہراہ دستور پر دستور پر عمل کے علاوہ سب کچھ ہوتا ہے، یہاں آئینی اداروں کی عمارتیں واقع ہیں جن میں ایوانِ صدر، دستور ساز پارلیمنٹ ہاؤس، دستور کی تشریح کرنیوالی سپریم کورٹ، اسکا نفاذ کرنیوالے وزیر اعظم کا سیکریٹریٹ، اسلام آباد ہائی کورٹ، اور چند دیگر اہم ترین قومی ادارے شامل ہیں، نجانے اس شاہراہ کا نام رکھنے والوں نے کیا سوچا تھا، شاید یہ کہ یہاں پر واقع یہ ادارے اور ان کے عہدیداران دستور کے مطابق کام کرنے اور اس کا دفاع کرنے میں فخر محسوس کرینگے، مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ دستور کی شاہی مسجد کے پہلو میں واقع سیاست کی اس ہیرا منڈی کے دھندے باز حکومتی ڈھول کی تھاپ، پارلیمنٹ کے ساز اور عدلیہ کی جھنکار پر اتنے زور سے ناچیں گے کہ گھنگھرو ٹوٹ جائیں گے، فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل یحییٰ، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف جیسے فوجی آمر جیسے تماش بینوں کے بوٹوں کی دھمک، ڈھول کی تھاپ، ساز اور آواز نے ہر دور میں ایک سما باندھ دیا، آج انہی حکمرانوں، قانون سازوں اور منصفوں کی ایک نئی نسل نے وہی دھندا سنبھال لیا ہے، ان دھندے بازوں نے آئین اور جمہوریت کو بطور فیشن اپنا رکھا ہے، شاہراہِ دستور بھی اب ایک کمرشل برانڈ بن چکا ہے جس کا مالک وہ بنا بیٹھا ہے جسے اسی دستورکے مطابق سیاسی و کاروباری سرگرمیوں کی اجازت نہیں، اس دستوری محلے کے مہمان تماشبینوں نے شاہراہ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک یعنی سر تا پا ایسی ”حفاظت“ کی ہے کہ بیچ میں کہیں رکے بھی نہیں، سپریم کورٹ ہو یا پارلیمنٹ یہاں کسی بوٹ سے نکلے پاؤں اور اس سے اتری جرابوں کی ایسی بدبو ہے کہ جانے کا نام نہیں لے رہی، شاہراہ کے سر سے آغاز کریں تو راول جھیل کا منظر پیش کرتی ایک پچیس منزلہ عمارت نے بھی اپنے قانونی ننگے پن کو دستور کے چادر سے ڈھانپنے کی کوشش کی ہے، کانسٹیٹیوشن ون نامی اس عمارت کو ہائی کورٹ نے غیر قانونی قرار دیا کیونکہ یہاں رہائشی فلیٹ نہیں بلکہ ریاستی سربراہان اور ان کے وفود کے لئے ایک عالمی معیار کا ھوٹل اور کنونشن سینٹر بننا تھا، مگر اسی شاہراہ پر دھندہ جمائے سفید پوش عمارت کے ایک ثاقب اس پر نثار ہو گئے اور اپنی ریٹائرمنٹ کے وقت اسکو ”ریگولرائز“ یعنی جائز قرار دے دیا، اس عمارت میں ججوں اور عمران خان جیسے سیاستدانوں کے رہائشی فلیٹ ہیں۔ اب آتے ہیں شاہراہ کے خوبصورت پیروں کی طرف یعنی مارگلہ روڈ کے دامن پر جہاں دستور کو نوچنے والوں کا قبضہ ہے، تقریباً تین کلومیٹر سے زائد طوالت کی شاہراہ نام نہاد ریڈ زون کہلاتی ہے، عجوبہ کہیں یا قومی یا تاریخی المیہ کہ ہماری یہ شاہراہ دستور شاہراہ عام نہیں ہے یعنی عام آدمی اگر دستور کے راستے پر چلنا چاہے تو اسے اجازت نہیں، یہاں آنے کےْلئے پبلک ٹرانسپورٹ بھی نہیں، پیدل چلنے والوں کے راستے بھی جگہ جگہ بند ہیں، دوسری طرف جو لوگ دستور کو بوٹ کی نوک پر لکھتے ہیں وہ یہاں دندناتے پھرتے ہیں، گزشتہ چھ سال میں ہمارے دستور کے ساتھ جنرل باجوہ اور جنرل فیض جیسوں نے جو کچھ بھی کیا وہ اپنے ناپاک قدموں کے ساتھ اسی شاہراہ دستور سے آتے جاتے رہے، اس بے زبان شاہراہ دستور کے ساتھ جب کربلا کے شہیدوں والا سلوک کیا گیا تو اِسی دستور پر جھوٹی قسمیں کھا کر حرام کھانے اور اپنے بچوں کو کھلانے والے اس شاہراہ کے مکینوں نے کوفیوں کی مانند نظریں پھیر لی، نیلے اور سفید رنگ کے سرکاری بورڈوں پر بڑے الفاظ میں لکھا شاہراہِ دستور پڑھ کر وہ عالی شان نجی عمارتیں یاد آ جاتی ہیں جن کے بارے میں اہل محلہ کہتے ہیں سمگلروں کی ہیں مگر ان کی پیشانی پر لکھا ہوتا ہے ھذا من فضلِ ربیّ، لفظ دستور کا استعمال فوجی آمروں نے بھی خوب کیا اور ان کے دلال ان منصفوں نے بھی جو ان کی بغاوت کو جائز قرار دیتے رہے، ہمارے معاشرے میں اچھے نام کے لئے جتنی سوچ بچار کی جاتی ہے اتنی اچھے کام کے لئے نہیں، ایک وہ لوگ ہوتے ہیں جو اچھے کام کی وجہ سے نام کماتے ہیں اور ایک وہ جو بڑے نام رکھ کر اپنا کام نکالتے عمر گزار دیتے ہیں۔ یہ بھی بس نام کی ہی شاہراہِ دستور رہ گئی ہے۔
پاکستان جیسے ملک میں ایک وزیر اعظم کا عدالتی قتل ہوا اور باقی وزرااعظموں کے ساتھ عدالتی نگرانی میں بلادکار، مگر پھر بھی سیاستدانوں کی غیرت نے جوش نہیں مارا، آج تک ایک بھی سیاستدان ایسا نہیں جس کو اختیار ملا ہو اور اس نے اس شاہراہ دستور کو ناپاک کرنے پر کسی آمر کو سزا دلوانے کا اعلان بھی کیا ہو، مگر ایک شخص ایسا تھا جس نے بطور جج ایک ایسا فیصلہ سنایا جس کی سیاہی خشک ہونے سے پہلے پاکستان میں نئی تاریخ رقم ہو چکی تھی، پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ نے بطور سربراہ خصوصی عدالت اپنے فیصلے میں جنرل مشرف کو آئین سے غداری کے جرم میں پانچ مرتبہ سزائے موت سنائی جو 57 سالہ ملکی تاریخ میں پہلا فیصلہ تھا، مگر اپنے اسی فیصلے میں انھوں نے دنیا کی تاریخ میں بھی ایک نئے باب کا اضافہ کیا، انھوں نے اپنے فیصلے میں جنرل مشرف کو زندہ یا مردہ شاہراہ دستور اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے عین سامنے ڈی چوک پر پھانسی پر لٹکانے کا حکم بھی دیا اور کہا کہ ان کی رحلت کی صورت میں ان کی لاش کو گھسیٹ کر ڈی چوک لائی جائے اور وہاں تین دن تک لٹکائی جائے، تقریباً چھ سو سال پہلے برطانوی ڈکٹیٹر جنرل اولیور کرومویل اور اس وقت کے چیف جسٹس کی لاش کو پارلیمنٹ نے قبر سے نکال کر اس کے ڈھانچے کو پھانسی پر لٹکانے کی سزا سنائی تھی، جسٹس وقار سیٹھ کے فیصلے پر عمل درآمد ہوا تو نہیں مگر جب تاریخ لکھی جائیگی تو جنرل مشرف اور اس کے آمریتی وارثوں کے گھناؤنے جرائم کا اندازہ نئی نسل کو اسی فیصلے سے ہی ہو سکے گا، جب سپریم کورٹ نے 1993ء میں نواز شریف کی برطرف حکومت کو بحال کیا تو میاں صاحب نے اس فیصلے کو سنہری حروف میں سنہری پلیٹوں پر لکھوا کر پارلیمنٹ کے داخلی دروازے پر لگائی تھی مگر ایسا کرنے سے بھی وہ آج تک اتنی ہمت پیدا نہیں کر سکے جو انہیں سیاسی طور پر بعد کے بزدلانہ فیصلوں سے روک سکتی، تاریخ کے کباڑیے کے نزدیک اس سنہری پلیٹ کی کوئی قیمت نہیں کیونکہ 1993 کے بعد نواز شریف نے بہت سے باعث شرم سمجھوتے بھی کئے، اْن سنہری پلیٹوں کو اب باہر نکال پھینکنے کا وقت آ گیا ہے، آئین اور جمہوریت کے مرثیہ خواں چند پارلیمنٹیرینز جنہوں نے تھوڑی ہمت کر کے پارلیمنٹ کے اندر گلیِ دستور اور صحن میں یادگارِ جمہوریت بنا دی تھی ان کو اب جرأت دکھا کر جسٹس وقار سیٹھ کے جنرل مشرف بارے فیصلے کو بھی سنہری حروف میں پارلیمنٹ میں آویزاں کرنے کے لئے آواز بلند کرنا ہو گی اور خاص کر شاہراہ دستور کو وہ نام دینا ہو گا جس نام نے دستور کا حقیقی معنوں میں دفاع کیا اور اسی دوران جان بھی دے دی، شاہراہ دستور کو ”جسٹس وقار سیٹھ ایوینو“ کا نام دینے کے بعد ان کے فیصلے کو تعلیمی اداروں کے نصاب میں بھی شامل کیا جانا چاہئیے، ان کے نام کی ڈیپارٹمنٹس اور سکالرشپس ہونی چاہئیں، اس شاہراہ پر جو لوہے سے بنا دْنیا کا نقشہ ہے وہاں جسٹس وقار سیٹھ کی یادگار تعمیر کی جائے جس پر قومی پرچم لہرا رہا ہو اور ہر گزرنے والا باوردی افسر اسے سلیوٹ کرے، اگر شاہراہ دستور پر جسٹس وقار سیٹھ کے نام کی تختی نہیں لگ سکتی تو ہمارے جمہوریت کے چیمپئین کم از کم راولپنڈی میں بھٹو کے عدالتی قتل کی جائے واردات پر بنے پارک کے باہر ”بھٹو پارک“ کے نام کی تختی ہی لگا کر دکھا دیں، کچھ لوگ وہاں آ کر دعا ہی کر دیا کرینگے۔ یاد رہے کہ جسٹس وقار نے دستور کے وقار کی لاج رکھی ہے اور کوئی بزدل سیاستدان یا حکمران شاہراہ دستور کا نام بدلے نہ بدلے آج کے بعد پاکستانی عوام اس شاہراہ کو جسٹس وقار سیٹھ ایوینیو کے طور ہی لکھے گی اور پکارے گی، وقار سیٹھ کا لکھا پتھر پر لکیر ہے اور شاہراہ دستور پر لکھا ”جسٹس وقار سیٹھ ایوینیو“ بھی۔

بشکریہ نئی بات

مطیع اللہ جان کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author