نذیر ڈھوکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرکٹ میں بال ٹمپرنگ متعارف کرانے والے کو جب سیاست کے میدان میں زبردستی گھسایا بس وہ دن آج کا دن ملک پاگل بیل کیلئے کھلونا بنا ہوا ہے ۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دشمن پر عکاب جیسی نظر رکھنے والوں نے اپنے لاڈلے کو ہونے والی فارن فنڈنگ کیسے نظر نہیں آئی تھی ؟ سیاست پر گھری نظر رکھنے والے اسلام آباد کے صحافی بخوبی جانتے ہیں کہ اپنی ہیچری میں پلے بوائے کو محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا مقابلہ کرنے کے لیے پالا تھا بنیادی طور پر یہ سنگین جرم جنرل حمید گل کا تھا اس حوالے سے درویش صفت انسان عبدالستار ایدھی کا ویڈیو بیان ریکارڈ پر ہے ۔
شہید حکیم سعید اور مجید نظامی تو عمران خان کے بارے اپنے خدشات ریکارڈ پر لائے مگر مگر اسٹیبلشمنٹ بہری بن کر اندھے گھوڑے پر سوار تھی ۔ یہ کہنا بھی ہر گز غلط نہیں ہے کہ ہمارے میڈیا ہاوسز کا کردار اسٹیبلشمنٹ کی داشتہ کا رہا ہے اس کا آزادی صحافت کا بیانیہ ایک ڈھونگ اور مگر مچھ کے آنسوؤں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔
عمران خان نے 2002 کے انتخابات میں حصہ لیا پرویز مشرف نے انہیں وزیراعظم نہیں بنایا حالانکہ وہ ریفرنڈم میں ان کے چیف پولنگ ایجنٹ تھے ، 2007 کے انتخابات میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید میدان میں تھیں ان انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو ایک کارڈ کے طور اپنے سینے سے لگا کر رکھا ، 2013 میں انہیں انتخابی میدان میں اتارا کیا مگر جسٹس افتخار چوہدری رکاوٹ بن گئے تاہم خیبر پختونخوا انہیں بخشش میں دیدیا گیا ، عمران خان 2014 میں کسی پاشا کی مدد اور سہولت کاری سے جمہوریت پر حملہ آور ہوئے مگر صدر آصف علی زرداری ان کے راستے میں رکاوٹ بن گئے۔
ہمارے میڈیا ہاوسز پاشا کی آشا کی بھرپور مارکیٹنگ کرتے رہے اس دوران چاچا رحمتے نے انہیں صادق اور امین کا سرٹیفکیٹ دے دیا ۔ 2018 کے انتخابات حقیقت میں انتخابی عمل پر ڈاکا تھا اس ڈاکے کے سہولت کاروں اور منصوبہ سازوں کو عمران نےخواب دکھائے تھے کہ جس دن انہیں وزیراعظم بنایا گیا اس دن شام تک 200 ارب ڈالر قومی خزانے میں آئین گے ایک سو ارب ڈالر آئی ایم ایف کے منہ پر مارے جائیں گے اور ایک سو ارب ڈالر آپ کی قدموں میں ہوگا ۔ وہ خواب اس وقت عذاب بن گیا جب ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچا۔ پاگل بیل نے ملک کی معیشت کو تباہ اور خارجہ امور کو بد حالی کا شکار کرکے عالمی دنیا میں تنہائی کا شکار کر دیا ۔
صاحبو میں عدل کے ایوانوں کی بات کیا کروں جب جج صاحبان اپنے منصب کی لاج رکھنے کی بجائے یہ اقرار کرنےمیں عار محسوس نہیں کریں کہ ہاں ان کی فیملیز عمران خان کے جلسوں میں جاتی ہیں تو عمران خان کو ملنے والا ریلیف سوالیہ نشان بن جاتا ہے، منگل کی صبح عمران خان کی طرف اسلام آباد ہاٸی کورٹ میں درخواست دائر ہوتی ہے دو پہر کو اس کی سماعت ہوتی ہے اور سورج غروب ہونے سے پہلے انہیں ریلیف دیا جاتا ہے ہم نے اتنی تیز رفتاری تو ایف 16 کے طیارے میں بھی نہیں دیکھی ہے ۔ میری رائے یہ ہے کہ اگر انصاف کا پیمانہ یہ ہے تو 2050 تک لاڈلا ریلیف کی آڑ میں انصاف کو تماشا بناتا رہے گا وہ ہجوم کے ساتھ عدالت میں رعونت کے ساتھ آئے گا اور اپنا درشن کروا کر چلا جائے گا۔ مگر عدل کے ایوانوں میں جو روایات رکھی جا رہی ہیں طاقتور کیلئے ایک حوالہ بن جائیں گی ، کسی پاشا کی آشا پاگل بیل بن کر کانچ کے گھر کا حشر نشر کردیگا۔
۔یہ بھی پڑھیں:
لیڈر جنم لیتے ہیں ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
شاعر اور انقلابی کا جنم۔۔۔ نذیر ڈھوکی
نیب یا اغوا برائے تاوان کا گینگ ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
ڈر گئے، ہل گئے، رُل گئے، جعلی کپتان ۔۔۔نذیر ڈھوکی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ