یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ تیس سال کے دوران سماجی گراوٹ، معاشی بدحالی، سیاسی بے راہروی نے نوجوان پاکستانیوں کو متعدد چیزوں سے محروم کیا۔ ان کے لیے ذلت کی تربیت کا عملی اہتمام میٹرک سے ہی کیا جانے لگا۔ داخلہ فارم کے لیے تصاویر کھنچوانا بھی ایک مرحلہ ہوا کرتا تھا۔ پھر دو پیچھے سے اور ایک سامنے سے attest کروانے کی لعنت۔ اور attest کرنے والا سترھویں گریڈ کا افسر آپ کی شکل بھی نہ دیکھتا۔
داخلہ فارم جمع کروانا، پیپر دینے سے پہلے تلاشی دینا، ٹوٹی کرسی پر بیٹھنا، پچھلے طالب علم کو پیسے دے کر چیٹنگ کرتے دیکھنا، شلوار کے نالے سے موٹے دھاگے توڑنا اور جوابی کاپیوں کو باندھنا، امتحانی ہال سے باہر نکل کر اپنے گیس پیپرز اور گائیڈیں ڈھونڈنا، بس میں لٹک کر یا چھت پہ بیٹھ کر واپس آنا، وغیرہ، یہ سب کچھ ذلت کی ٹریننگ تھی۔
پھر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بلوما کے نمائندوں کے ہاتھوں ذلت، دھوپ میں بیٹھ کر کنو کھاتے ہوئے کند ذہن اور نوٹس پرور اساتذہ، گھٹیا اور فرسودہ نصاب، پاکستان زندہ باد، این سی سی کے بیس نمبر۔
ذرا حساب لگائیں کہ گزشتہ تیس چالیس سال میں طلبا سے کیا کچھ چھینا گیا! نصاب، سستی تعلیم، ٹرانسپورٹ، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت، غیرت اور وقار کا احساس، سیاسی سرگرمی، بولنے کی ہمت، قابل اساتذہ، لیبارٹریاں، لائبریریاں، کھلے میدان…………
مجھے لگتا ہے کہ اب اگر فوڈ پانڈا، پیپسی، برگر، lays، فیشن والے کپڑے چھینے گئے تو وہ ایسی جدوجہد اور لڑائی کریں گے کہ آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ آخر کوئی حد ہوتی ہے۔
اب سکولوں میں بچوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اِس بارے میں تجربات مرتب کرنا پڑیں گے تاکہ آئندہ کی بے ذہنی کا اندازہ ہو سکے۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر