نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیاپی پی پی اور ن لیگی قیادت کبھی سبق نہیں سیکھے گی؟ || راناابرارخالد

رانا ابرار سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے سینئیر صحافی ہیں ، وہ گزشتہ کئی برس سے وفاقی دارالحکومت اسلام آبادمیں مقیم ہیں اور مختلف اشاعتی اداروں سے وابستہ رہے ہیں، اکانومی کی بیٹ کور کرتے ہیں، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

رانا ابرار خالد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گزشتہ روز صوبہ پنجاب کی نگران کابینہ کی حلف برداری دیکھ کے قطعاً کوئی حیرانی نہیں ہوئی, کہ گیارہ رکنی صوبائی کابینہ میں سرائیکی وسیب سے ایک بھی وزیر شامل نہیں!
یہ منظر دیکھ کے مجھے پانچ سال پہلے کے واقعات یا دا آگئے۔ 2018 کے انتخابات کے اعلان سے قبل ہی سرائیکی وسیب کے اضلاع راجن پور, ڈیرہ غازیخاں, مظفرگڑھ, رحیم یارخاں اور ملتان میں دھرتی پرست اور سوجھل سوچ رکھنے والے نوجوانوں نے وسیب سے "ن لیگ بھگاؤ” تحریک شروع کردی تھی, جگہ جگہ کیمپ لگ چکے تھے اور گاؤں دیہات,شہروں میں ن لیگی حکومت کے تعصب اور امتیازی سلوک کیخلاف ریلیاں و جلسے جلوس ہونے لگے تھے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ چوٹی زیریں کے ایک پڑھے لکھے نوجوان کو سرائیکی عوام نے کمانڈو کاخطاب دیا تھا جس نے تخت لہور کے دلال جمال لغاری کی گاڑی روک کے دوٹوک سوالات کی بوچھاڑ کردی تھی کہ آپ لوگ ڈیڑھ صدی سے حکومت میں ہو بتاؤ ڈیرہ غازیخان اور سرائیکی وسیب کیلئے کیا کیا۔ بلاشبہ یہ نوجوان وسیب سے "ن لیگ بھگاؤ” تحریک چلانے میں حق بجانب تھے کیونکہ جسطرح صوبے میں ن لیگ کی دس سالہ اور مرکز میں پانچ سالہ حکومت نے سرائیکی عوام کا بدترین استحصال کیااور سرائیکیوں سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا اس کے سامنے مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کی مثالیں ہیچ ہیں۔ میری اپنی ریسرچ کے مطابق 2008 سے 2018 کے دوران ن لیگ کی صوبائی حکومت نے سرائیکی وسیب میں صوبائی بجٹ کا (ترقیاتی وغیرترقیاتی اخراجات کی مد میں)صرف 14فیصد خرچ کیا جبکہ اس میں 3 فیصد fund laps بھی شامل ہے۔ اس کے برعکس صوبائی حکومت کی جانب سے سالانہ 86فیصد ترقیاتی و غیرترقیاتی بجٹ اپرپنجاب میں خرچ کیا جاتارہا۔ اسی طرح ن لیگ کی وفاقی حکومت جہاں فخرسے یہ کریڈٹ لیتی ہے کہ اس نے وفاقی ترقیاتی بجٹ بڑھاکر 1000 ارب روپے سالانہ تک پہنچایا وہیں اس کا تاریک پہلو یہ ہے کہ ن لیگی حکومت نے ترقیاتی بجٹ (PSDP) میں سرائیکی وسیب (بشمول ڈیرہ اسمعیل خاں,ٹانک) کا حصہ 18% سے گھٹا کر 8.5% کردیا تھا۔ اس کے برعکس انہوں نے وفاقی PSDP میں اپرپنجاب کاحصہ 12 فیصد سے بڑھا کر 20 تک پہنچایا۔
مذکورہ بالا صورتحال کو دیکھتے ہوۓ بآسانی کہاجاسکتا ہے کہ سرائیکی وسیب دراصل پنجاب کا مفتوحہ و مقبوضہ علاقہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے روشن دماغ پروگریسیو دانشور, صحافی, شعرا, لکھاری اور سیاسی کارکن وسیب سے "ن لیگ بھگاؤ” تحریک کی حمایت کرنے پر مجبور تھے حالانکہ سب کو معلوم تھا کہ عام انتخابات2018 میں اس کا سیاسی فائدہ pti اٹھاۓ گی۔
دراصل محکوم و محروم علاقے کے لوگوں کو اس بات سے قطعاًکوئی سروکار نہیں ہوتا کہ کون کس کیخلاف سازش کررہا ہے, سازش کے ڈانڈے کہاں تک جاتے ہیں اور کون کون سی عالمی یا ملکی طاقتیں ملکر پاکستان میں جمہوریت کا قتلام کرناچاہتی ہیں۔ کیونکہ محکوم ومحروم علاقوں کے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اعلیٰ آدرشوں سے بھوکا پیٹ نہیں بھرا جاسکتا۔
پھر 2018 کے عام انتخابات کا اعلان ہوتے ہی خاکیوں کے ایک اشارے پر اچانک جنوبی پنجاب صوبہ محاذ بن گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے تخت لہور کے سارے دلال الیکٹیبلز جو کل تک ن لیگ کے تلوے چاٹتے تھے اچانک "اپناصوبہ اپنااختیار” مانگنے لگے, مگر یہ ڈرامہ چند ہفتوں کے اندرہی منتقی انجام کو پہنچا اور اچانک پتہ چلا کہ صوبہ محاظ تو pti کو پیارا ہوگیا ہے۔۔۔اور لے دکے سامنے آیا سٹام پیپر پہ لکھا ہوا ایک معاہدہ کہ pti حکومت میں آنے کے بعد 100دنوں میں جنوبی پنجاب کے نام سےالگ صوبہ بناۓ گی۔
دوسری جانب سرائیکی وسیب کے ترقی پسنددانشور, صحافی, شعرا,لکھاری اور سیاسی کارکن توقع کر رہے تھے کہ پی پی پی جس کو سرائیکی عوام نے ہرالیکشن میں سرخرو کیا, سرائیکیوں کی شناخت مٹانے کی اس سوچی سمجھی سازش کو ناکام بنانے کیلئے انتخابی مہم میں دوقدم آگے بڑھ کر صوبہ سرائیکستان کا نعرہ لگاۓ گی, مگر پی پی پی لیڈرشپ نے 2018 کے الیکشن میں جس مجرمانہ خاموشی کا مظاہرہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔
نتیجتاً pti نے 100دن میں صوبہ بنانے کا معاہدہ دکھا کے 2018 کاالیکشن سرائیکی وسیب میں پیپلزپارٹی سے چھین لیا جبکہ وسیب سے "ن لیگ بھگاؤ” تحریک چلانے والے نوجوانوں نے خوب جشن منایا۔ مگریہ ان کی زندگی کا پہلا اور آخری جشن ثابت ہوا کیونکہ pti اور اس کے لیڈر عمران خان نے ٹھیک وہی کیا جیسے کسی محلے میں کوئی نیا کرایہ دار لوگوں کو امریکہ و یورپ بھجوانے کے خواب دکھاکے ویزوں کے پیسے لیکر اچانک ایک دن رفوچکر ہوجاتاہے۔ الیکشن2018 کے بعد صوبہ بنانے کیلئے pti کی واحد کوشش یہ سامنے آئی کہ تخت لہور کے ایک بھڑوے محسن لغاری نے صوبائی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جنوبی پنجاب صوبے کی قرارداد جمع کروائی جبکہ مقابلتاً ppp ایم پی اے مخدوم عثمان نے بھی سرائیکی صوبے کی قرارداد جمع کروادی۔ نتیجتاً عمران خان نے سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے ایک اینٹی سرائیکی شخص کو وزیراعلی بنادیا جس نے چار سال کے دوران سرائیکی شناخت کو kill کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کازور لگایا اور بے تحاشہ فنڈز خرچ کیے۔ جبکہ اس شخص کی بطور وزیراعلیٰ نااہلیت کو سرائیکی وسیب کیخلاف چارسال تک بطور گالی استعمال کیاگیا۔
یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ pti کے پونے چارسالہ دور میں جب ن لیگ کیخلاف کریک ڈاؤن بڑھا اور دھڑادھڑ گرفتاریاں ہورہی تھیں تو ن لیگ کے ایک دھڑے کا ذہن بنا کہ کیوں نہ سرائیکی صوبہ بنادیا جاۓ تو پنجاب میں واپس ان کی حکومت قائم ہوجاۓ گی۔ اس دوران کچھ ن لیگی پارلیمنٹیرینز نے اس خاکسار سے رابطہ کرکے سرائیکی وسیب اور پنجاب میں پارٹی پوزیشن کے حوالے سے سٹڈی رپورٹ تیار کرنے کی فرمائش کی جبکہ میں نے اکک ہفتے کے اندرکافی عرق ریزی کے بعد دونوں خطوں میں پارٹی پوزیشن کے حوالے سے ایک جامع رپورٹ تیار کرکے ان کے حوالے کردی۔ مگر اس موقع پر ن لیگ کی پنجابی شاونسٹ قیادت آڑے آگئی اور انہوں نے سٹیبلشمنٹ سے ڈیل کرکے بھگوڑا کہلوانا تو قبول کرلیا مگر سرائیکی وسیب سے پنجاب کا قبضہ چھوڑنا گوارہ نہ کیا۔
بعض دانشوروں کا خیال تھا کہ pti حکومت کے دوران رگڑا کھانے کے بعد شاید ن لیگ کے ساتھ ساتھ پی پی پی لیڈرشپ بھی اب سبق سیکھے گی اور اس بات کا ٹھنڈے دماغ سے جائزہ لیں گے کہ 2018 میں pti کو سرائیکی عوام کی حمایت کیوں اور کیسے ملی جبکہ وہ سپورٹ ابھی تک کیونکرقائم ہے۔ مگر گزشتہ روز پنجاب کی نگران کابینہ نے حلف لیا تو 11رکنی نگران کابینہ میں سرائیکی وسیب سے ایک بھی وزیر نہ پاکر پختہ یقین ہوگیا ہے کہ شاید ن لیگ اور پی پی پی لیڈرشپ نے کبھی ماضی سے سبق نہیں سیکھنا بلکہ اپنے تعصبات اور چھوٹے چھوٹے petti مفادات کی شکار ہوکر انہوں نے اگلے الیکشن کیلئے بھی سرائیکی وسیب کو پی ٹی آئی اور عمران خان کی طرف دھکیل دیا ہے!!

About The Author