نذیر ڈھوکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اقتدار کے لالچی ٹولے نے خوف اور دہشت کی فضا قائم کرکے ملک میں قبرستان جیسی خاموشی برپا کر رکھی تھی ،ایسے لگ رہا تھا جیسے ہم بزدلوں کے معاشرے میں جی رہے ہیں ایسی صورتحال کی عکاسی کرتے ہوئے شاعر نے کہا تھا:
اس دور تشدد میں ہیں انصاف کے در بند
لب بند زباں بند قلم بند نظربند
مگر ایسے حالات میں ایک بہادر لڑکی کی آواز گونجی اس بہادر لڑکی کا نام بینظیر تھا ۔ وقت کے آمروں نے سمجھا کہ ایک نازک اور کمزور لڑکی اپنے والد کی پھانسی سے ڈر جائے گی اور قید ان کا حوصلہ توڑ دیگا مگر محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے وقت کے سفاک آمروں کی حسرتیں خاک میں ملا دیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے جیل کی تاریک کوٹھڑی کو اپنا مسکن بنالیا اور جمہوریت پسند سیاسی کارکنوں کے ذہنوں سے جیل کا خوف مٹا دیا، جیالوں کیلئے جیل جانا قابل فخر بن دیا ۔ ایک بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ اگر محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو اپنے والد کے قاتلوں سے حساب لینا ہوتا تو ان کے پاس ایسے جیالے تھے جو بھٹو شہید کے قاتلوں کیلئے زمین تنگ کر دیتے مگر محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا انتقام جمہوریت کی بحالی تھی ۔ 18 اکتوبر 2007 کو وطن واپسی سے قبل محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے اپنے مضمون میں لکھا اس زندگی کا میں نے انتخاب نہیں کیا تھا اس زندگی نے میرا انتخاب کیا ہے ۔ زندگی بھی ایسی جس میں ناقابل برداشت صدمے ، بے پناہ مشکلات اور کٹھن جدوجہد تھی ، وہ سفاک اور وحشی آمروں سے خالی ہاتھ لڑتی رہی ۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی بہادرانہ جدوجہد نے دنیا بھر ,میں جاری آزادی کی تحریکوں کو حوصلہ بخشا آزادی کے جدوجہد کرنے والوں کیلئے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا کردار مشعل راہ بن گیا ۔ در اصل قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید نے اپنی شہادت سے کچھ عرصہ قبل یعنی 21 جون 1978 کو ان کے جنم دن کے موقع پر ایک خط لکھا تھا وہ خط اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے وہ خط کال کوٹھڑی قید پھانسی کے منتظر والد کا اپنی بیٹی جو خود بھی قیدی تھیں کو ان کی سالگرہ کا تحفہ تھا ، اگر وقت کا پیہ الٹی سمت چلنے لگے اور میری ملاقات قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید سے ہو جائے تو میں ان سے یہ عاجزانہ سوال ضرور کروں گا کہ ہر والد اپنی نازوں پلی بیٹی کو سکھی زندگی کی دعائیں دیتا ہے مگر آپ نے اپ نے اپنی لاڈلی بیٹی سے ناقابل برداشت دکھ سخت مشکلات کا سامنا کرنے کا تقاضا کیسے کیا تھا ۔ جنہوں نے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کا محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے نام خط،، میری پیاری بیٹی،، نہیں پڑھا ایک بار ضرور پڑھیں تاکہ انہیں اندازہ ہو کہ لیڈر جنم لیتے ،قدرت ان کے کردار کا تعین کرتی ہے اور تاریخ ان کی رہنمائی کرتی ہے۔ میرے لیئے اعزاز کی بات ہے کہ میں نے محترمہ بینظیر شہید کے سائے میں اپنی زندگی کے 29 برس گزارے جو میری ماں جیسی شفیق بہن تھیں۔
شہید محترمہ نے جمہوریت سے نفرت کرنے والوں سے جنگ لڑی اور بہت خوب لڑی ۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے جمہوری کے ذریعے دو فوجی آمروں کو شکست دی ،آمروں سے لڑتے لڑتے ان کا واسطہ ان شدت پسندوں سے پڑا جو دہشت گردی کرکے ملک پر اپنی سوچ مسلط کرنا چاہتے تھے ۔ ایک بہادر خاتون نے وحشی جانوروں جیسے شدت پسندوں کو للکارا ،دنیا حیران تھی کہ ایک خالی ہاتھ خاتون ایسے بھیڑیوں سے ٹکر لے رہیں تھیں جنہوں نے ملک کے کونے کونے میں بارود کی آگ جلا کر رکھی تھی ، 18 اکتوبر 2007 کو جب طویل جلاوطنی کے بعد وطن واپس آئیں تو انہیں معلوم تھا کہ وہ جو جنگ لڑنے آ رہی ہیں اس میں ان کی زندگی کو سخت خطرات ہیں مگر عوام کی قائد عوام کی خاطر واپس آئی اور بارودی سرنگوں پر چلتی رہیں اپنی شہادت سے چند لمحے قبل بھی انہوں نے ان وطن دشمنوں کو انتہائی بہادری سے للکارا جنہوں نے سوات سے پاکستان کا پرچم اتار کر پھینک دیا تھا ۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے عوام کے خاطر جمہوریت کی جنگ لڑی اور ملک کے خاطر دہشت گردوں سے لڑائی کی۔
شہید محترمہ اپنے نام کی طرح بینظیر تھیں، کردار میں بھی بینظیر، شہید محترمہ بینظیر بھٹو دنیا کی وہ واحد لیڈر ہیں جو شہادت کے ساتھ غیر متنازعہ لیڈر بن گئیں آج جب بھی کہیں بھی محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا ذکر ہوتا ہے تو ذکر کرنے والے اور سننے والوں کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔
۔
۔یہ بھی پڑھیں:
لیڈر جنم لیتے ہیں ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
شاعر اور انقلابی کا جنم۔۔۔ نذیر ڈھوکی
نیب یا اغوا برائے تاوان کا گینگ ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
ڈر گئے، ہل گئے، رُل گئے، جعلی کپتان ۔۔۔نذیر ڈھوکی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ