اسلم اعوان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری مملکت اس وقت داخلی طور پر سیاسی و معاشی بحران کی سنگینی سے نبردآزما اور عالمی سطح پر پیراڈئم شفٹ کی نزاکتوں سے گزر رہی ہے، اس لیے قومی مستقبل پر غیریقینی کے سائے لہرانے کے علاوہ حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے مضمرات اور جنوبی ایشیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات بھی سیاسی و سماجی وظائف کو متاثر کر رہے ہیں۔ امسال غیرملکی قرض کی ادائیگی کا تخمینہ 17.09بلین ڈالر لگایا گیا، مقامی قرضہ مارچ 2022ء تک 4.44 ٹریلین روپے یعنی جی ڈی پی کا لگ بھگ 72.5 فیصد تھا۔ ٹیکس وصولی کا نظام کمزور ہونے کے باعث مالی سال 2022-23ء میں ہماری معاشی آزادی کا سکور 48.8 رہا تو پاکستان ایشیا پیسفک کے 39 ممالک میں 34 ویں نمبر پر رہ جائے گا۔ عالمی بینک کی رپوٹ کے مطابق پاکستانی معیشت کی سست روی اور تباہ کن سیلاب کی وجہ سے مہنگائی میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ جون 2023ء میں مکمل ہونے والے رواں مالی سال میں معیشت کی شرحِ نمو محض 2 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ اکتوبر 2022ء میں پاکستان ڈویلپمنٹ اَپ ڈیٹ کے مطابق تیزی سے بڑھتا افراطِ زر غربت میں اضافے اورشرحِ نمو کے ارتقا میں رکاوٹ کی عکاسی کر رہا ہے۔ سخت مالیاتی موقف، بلند افراطِ زر اور کم سازگار عالمی ماحول کی وجہ سے معیشت کی بحالی کا عمل اس سال بھی سست روی کا شکار رہے گا؛ تاہم مالی سال 2024ء میں جی ڈی پی کی شرحِ نمو 3.2 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔ ابتدائی تخمینے بتاتے ہیں اگر غریبوں کے لیے فیصلہ کن مدد اور بحالی کی مساعی مؤثر نہ ہوئیں تو ملک میں غربت کی شرح 2.5 سے بڑھ کر 4 فیصد تک ہو جائے گی جس سے کم و بیش 90 لاکھ افراد خطِ غربت سے نیچے گر سکتے ہیں۔
میکرو اکنامک خطرات اس سے بھی زیادہ مہیب ہیں کیونکہ مملکت کو کرنٹ اکائونٹ خسارے، بلند عوامی قرضوں اور روایتی برآمدی منڈیوں میں کم طلب کی وجہ سے عالمی نمو کے چیلنجز بھی درپیش ہیں۔ پاکستان کے لیے عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر کہتے ہیں ”حالیہ سیلابوں سے زرعی پیداوار میں خلل پڑنے سے قومی معیشت اور غریب طبقے پر نہایت منفی اثرات مرتب ہوئے؛ چنانچہ حکومت کو معاشی اصلاحات کے ساتھ وسیع ریلیف سرگرمیوں میں بھی توازن پیدا کرنا ہو گا تاکہ غریبوں کے لیے مختص ریلیف پیکیج ضرورت مند متاثرین تک پہنچ پائے۔ مالیاتی خسارے کو پائیدار حدود میں محدود رکھنا، اقتصادی پالیسی کے سخت موقف پہ قائم رہنا، شرحِ مبادلہ کی لچک کو جاری اور معاشی اور انتظامی ڈھانچے میں اہم اصلاحات کی پیش رفت، خاص طور پر توانائی کے شعبے میں ہونے والی اصلاحات پر پہلے سے کہیں زیادہ توجہ درکار ہوگی۔ یہ اقدامات بلند افراطِ زر کے اثرات کو کنٹرول کرنے کے لیے ممکنہ حکمت عملیوں کا خاکہ بھی پیش کرتے ہیں‘‘۔ ملک میں افراطِ زر مالی سال 23ء میں تقریباً 23.2 فیصد تک ہو سکتا ہے، جس سے خوراک اور روزمرہ استعمال کی چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ کے علاوہ توانائی کے بڑھتے ہوئے نرخوں کا بھی سامنا کرنا پڑے گا اور یہ حالات غریبوں کی کمر توڑنے کے علاوہ مشکل بیرونی حالات بشمول سخت عالمی مالیاتی صورتحال کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔
پی ٹی آئی حکومت نے توانائی کی قیمتوں پر سبسڈی دی تھی مگر اس طرح کے اقدامات غیر متناسب طور پر خوشحال گھرانوں کو فائدہ پہنچانے کا سبب بنے؛ چنانچہ موجودہ حکومت کو آگے بڑھنے کے لیے بہتر معاشی پالیسیوں کے ذریعے مہنگائی پر قابو پانے کو ترجیح اول بنا کر روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ سے زیادہ متاثر ہونے والے طبقات کو ریلیف دینے کے لیے جنگی بنیادوں پہ اقدامات کرنا ہوں گے‘ اس کے علاوہ تجارت اور پیداواری عمل کی حوصلہ شکنی کرنے والے بگاڑ کو دور کرنا پڑے گا۔ پاکستان اُس ڈویلپمنٹ اَپڈیٹ ساؤتھ ایشیا اکنامک فوکس کا حصہ ہے، جو جنوبی ایشیا میں اقتصادی ترقی اور اس کے امکانات کا سال میں دو بار جائزہ لینے کے علاوہ جنوبی ایشیائی ممالک کو درپیش پالیسی چیلنجوں کا تجزیہ بھی کرتا ہے۔ فورم کے موسم خزاں 2022ء کے ایڈیشن سے ظاہر ہوتا ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی سمیت حالیہ بڑے عالمی اور علاقائی معاشی جھٹکوں کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں معیشت کی شرحِ نمو کم رہی۔ سری لنکا کا اقتصادی بحران اور پاکستان میں تباہ کن سیلاب کے علاوہ کورونا لاک ڈائون کی وجہ سے مزدوروں کی نقل و حرکت محدود ہونے سے پیداواری عمل متاثر اور ترسیلاتِ زر میں کمی آئی۔ موجودہ معاشی صورتحال میں جب تک طویل المدتی چیلنجزسے فیصلہ کن طور پر نمٹنے کی پالیسی مرتب نہیں ہوتی اس وقت تک ملک کو سنگین معاشی مشکلات کا سامنا رہے گا۔
اس وقت عالمی منڈی میں تیل کی بتدریج کم ہوتی قیمتیں پاکستانی معیشت کے لیے نیک شگون ہیں۔ لیگی حکومت نے پچھلے دور میں آئی ایم ایف کے مقرر کردہ مالی استحکام کے اہداف حاصل کرنے کے لیے درکار مالیاتی گنجائش کو بڑھانے کے علاوہ ٹیکس کی بنیاد کو پھیلاکر محصولات کو بڑھایا، پٹرولیم مصنوعات کی کم قیمتوں کا ثمر عوام کی جانب منتقل کر کے کاشتکاروں اور شہری صارفین کو سانس لینے کا وقفہ دینے سمیت صنعتی صارفین کو بھی ریلیف دیا۔ اگرچہ تجزیہ کاروں کا خیال تھاکہ تیل کی قیمتیں گرنے سے ترسیلاتِ زر میں کمی آتی ہے لیکن 2013-14ء کے دوران ترسیلاتِ زر بڑھ کر 20 بلین ڈالر سالانہ تک پہنچ گئی تھیں۔ 2013ء سے 2016ء تک کے تین سالوں میں بجلی کی ترسیلی نظام میں بہتری لائی گئی، بجلی کی پیدوار بڑھنے سے لوڈشیڈنگ میں خاطر خواہ کمی آئی خاص طور پر صنعتی صارفین کو بغیر رکاوٹ کے پاور سپلائی ملنے سے پیداوار بڑھانے میں مدد ملی۔ 2018ء اور اس کے بعد نئے پاور پلانٹس فعال ہونے کا امکان تھا لیکن حکومت کی تبدیلی کے ساتھ سیاسی اشرافیہ کی ترجیحات بھی بدل گئیں۔ بجلی کی پیدوار کا عمل رک جانے کے علاوہ ترسیلی نیٹ ورک میں حسبِ ضرورت توسیع نہیں ہو سکی۔ سرکلر ڈیٹ کا مسئلہ لاینحل رہا جس سے معیشت کی شرحِ نمو منفی سطح تک آ پہنچی۔ نوازحکومت کے ابتدائی برسوں میں دہشت گردی کے واقعات گھٹے، جرائم کی وارداتوں میں نمایاں کمی آنے سے کاروباری سرگرمیاں ریگولیٹ ہونے لگیں۔ حکومت کی اقتصادی پالیسی میں نظم و ضبط کے باعث 2012-13ء کے مقابلے میں میکرو اکنامک صورتحال میں بھی بہتری دیکھنے کو ملی جس سے افراطِ زر میں کمی، زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور مالیاتی خسارہ کم ہوتا گیا۔ پچھلی دو دہائیوں سے زائد عرصے میں پہلی بار آئی ایم ایف کا تین سالہ پروگرام کامیابی سے مکمل کرکے اسے الودع کہا گیا،ملک کی کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری آئی جس سے وہ بین الاقوامی کیپٹل مارکیٹوں تک بہتر شرائط پر رسائی پانے کے قابل ہو گیا۔ سٹاک مارکیٹ بلند سطح پر پہنچ گئی اور اقتصادی ترقی کی شرح نمو 5 فیصد سے بڑھ گئی۔ 2015ء میں سی پیک منصوبے کے تحت چین کی تکنیکی اور مالی مدد سے توانائی اور بنیادی ڈھانچے میں آسان شرائط پہ سرمایہ کاری کا ایسا طویل اور قلیل المدتی مثبت اثر پڑا جس نے اگلے پندرہ سالوں میں 50 بلین ڈالر کی مزید سرمایہ کاری کا امکان پیدا کرد یالیکن شومیٔ قسمت سے 2018ء کے بعد کی اقتصادی پالیسی کے نتیجے میں سی پیک منصوبہ منجمد اور اس کے تحت چلنے والے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور پاور پروجیکٹس بتدریج منجمد ہوتے گئے۔
علاقائی موازنہ کرنے والے طویل المدتی نمو پر بات کرنے کے لیے وزیراعظم کے قریبی ماہرین اقتصادیات نے تین اہم عوامل پر توجہ مرکوز کرنے کا مشورہ دیا تھا، جن میں حقیقی سرمایہ، انسانی سرمایہ اور ادارہ جاتی تنظیم کو زیادہ فعال بنانے کی تجاویز شامل تھیں۔ بہرحال، ملک میں سرمایہ کاری کی شرح 1991ء سے اب تک جی ڈی پی کے 20 فیصد سے کم رہی ہے، پچھلے دس سالوں کے دوران اس میں تقریباً 15 فیصد تک اتار چڑھاؤ نوٹ کیا گیا۔ حالیہ برسوں میں سرکاری سرمایہ کاری تقریباً 4 فیصداور نجی سرمایہ کاری جی ڈی پی کے 11 فیصدکے قریب رہی؛ تاہم ترقی کی رفتار کو متوازن رکھنے والی دونوں شرحیں پاکستان کو روزگار اور غربت کے چیلنجوں سے نمٹنے کی ضرورت سے کم تھیں۔ مشرقی ایشیا کے ترقی یافتہ ممالک میں سرمایہ کاری کی شرح عام طور پر جی ڈی پی کے 30 سے 35 فیصد کے درمیان ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر پچھلے پچیس سالوں کے دوران بھارت میں سرمایہ کاری کی شرح اوسطاً 34 فیصد رہی ہے۔ یہ 1990ء کی دہائی کے اوائل میں 22 فیصد سے 2000ء کی دہائی کے وسط تک 42 فیصد کے مابین متغیر رہی۔ بھارت میں نجی اور سرکاری‘ دونوں طرح کی سرمایہ کاری کی شرحیں پاکستان کے مقابلے میں کافی زیادہ ہیں، اول الذکرکی شرح 24 فیصد اور ثانی الذکر کی تقریباً 8 فیصد ہے جوکم و بیش پاکستان سے دوگنا ہے۔ کم نجی سرمایہ کاری کی شرح اس بات کی غماز ہے کہ معیشت میں جی ڈی پی نمو کے کبھی کبھار بڑھ جانے کے باوجود نجی سرمایہ کار اس بات پر قائل نہیں کہ یہاں طویل المدتی سرمایہ کاری کے لیے کافی مضبوط جواز موجود ہیں۔ نجی سرمایہ کاری کی کم شرح اس بات کی بھی نشاندہی کرتی ہے کہ نجی سرمایہ کار بڑے پیمانے پر عالمی منڈیوں سے رابطہ قائم کرنے سے قاصر ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
کشمیریوں کا مستقبل۔۔۔اسلم اعوان
اپوزیشن جماعتوں کی آزمائش۔۔۔اسلم اعوان
پیراڈائم شفٹ میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟۔۔اسلم اعوان
افغانستان کا بحران عالمی ایشو نہیں رہا۔۔۔اسلم اعوان
عورتوں میں ہم جنس پرستی پر یہ مشہور کہانی لکھنے والی عصمت چغتائی۔۔۔اسلم ملک
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ