نومبر 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں ملتان قلعے کا انہدام اور اندرونِ شہر کا ہولناک منظر (8)||امجد نذیر

امجد نذیر سرائیکی وسیب کے قدیم شہر ملتان سے تعلق رکھتے ہیں ،مصنف سماجی اور ترقیاتی تجزیہ کار ہیں ـ وہ اسلام آباد کے ادارہ برائے تحقیق و ترقی (ادراک) سے وابستہ ہیں

امجد نذیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(مآخذات : جاہن جونز کولے، مرزا ابن حنیف، احمد رضوان اور دوسرے ذرائع )

تعارف : ریاست ملتان کی قدامت، دریائے سندھ اور چناب کی عطا کردہ خوشحالی اور اہم ترین محل وقوع کیوجہ ریاست ملتان کے ایک نہیں کئی محاصرے ھوئے اور ھوئے ھونگے، کچھ معلوم اور کچھ نا معلوم ۔ مثلاً 325 قبل مسیح میں مقدونیہ کے سکندر کا محاصرہ، 1296 میں علاوالدین خلجی کا محاصرہ مگر تاریخ میں جسقدر جُزیاتی تفصیل برطانوی محا صرے کی موجود ھے کِسی اور محاصرے یا حملے کی موجود نہیں ھے ۔ کسی بھی ڈرامائی بیانیے میں واقعات، کردار اور تنازعات ڈرامائی ایکشن کی جان ھوتے ھیں، اور 1848 میں کئیے گئے برطانوی محاصرے میں یہ تمام خوبیاں موجود ہیں اِسی لئے برطانوی محاصرہ شاید واحد محاصرہ ھے جسے اپنی مکمل ڈرامائی خوبیوں سمیت دوبارہ بیان کیا جا سکتا ھے ۔ اور زیر نظر تحریر اسی نوعیت کی ایک کوشش ہے ـ

آخری درشن

قلعہ اب مکمل طور پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضے میں جا چکا تھا مگر اس محاذ پر جان گنوانے والے افسروں اور دیگر بھاری نقصان کا قلق انگریزوں کو بھی کھائے جا رہا تھا۔ ملتان کا قلعہ پکے ہوئے پھل کی مانند انگریزوں کی جھولی میں نہیں آن گرا تھا بلکہ تاریخی مزاحمت اور یادگار جانی خسارے کے بعد ان کے ہاتھ لگا تھا۔

توپچوں کی فرسودگی، بندوقوں کی بے مائیگی اور تلواروں کی نارسائی سپوتانِ مُولتان کی توانائیاں ڈبونے لگی تھی جبکہ فنی اور تکنیکی لحاظ سے کئی گُنا ترقی یافتہ اور آدم کُش مشینری سے منظم آباد کار نے اندر ہی اندر قبضہ گیر کٹاؤ جاری رکھا اور دو ہفتوں کے اندر ہی قلعے سے خطر ناک حد تک قریب بھی کئی اور مورچے بنا ڈالے، ناگ صفت سُرنگ نُما خندقیں کھود ڈالیں اور بندوق بردار جتھوں کے جتھے دوزخ بپا کرنے کے لیے اندر جمع کر لیے۔ جب دیکھا کہ ملتانی دستوں کی گولہ باری اور گولی بازی ذرا تھم گئی ہیں تو اپنے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حرم گیٹ اور دلی گیٹ کے اطراف میں بھاری بھرکم گولے برسانے شروع کر دیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے قلعے کی آہنی چھاتی کِرچی کِرچی ہو کر مُنہدم ہونے لگی۔ پہلے کچھ پتھر گرے، پھر کچھ اور، اور پھر در و دیوار پر اِدھر، اُدھر اِکا، دُکا بارُودی شعلے بھرک اٹھے تاہم جلد ہی یخ بستہ ہوا نے اُنہیں ٹھنڈا کر ڈالا۔ مگر شیروں کی طرح دھاڑتی اور ہاتھیوں کی طرح چنگھاڑتی توپیں اب کہاں تھمنے والی تھیں۔ دشمن کا بس ایک ہی اشارا ہوا اور وہ ایک بار پھر قیامت خیز آگ برسانے لگیں۔ شمس دربار کے اطراف سے بھی دشمن کی آرٹلری نے قدم آگے بڑھائے اور ملتانی سپاہ کے مورچے کچے گھروندوں کی مانند اُکھاڑ پھینکے، اور اپنے ہوزروں کے شعلہ و شرر سے چند ایک دفاعی بندوقیں، جو ملتانی سپاہ کے پاس باقی رہ گئی تھیں، خاموش کرا ڈالیں۔

قلعے کے جنوب مشرق میں خونی بُرج پر اور گِردا گِرد مہذب درندوں نے خوب بمباری کی جس کا مقابلہ کرنے کی سکت پرانی توپوں میں تھی اور نہ ہی روایتی بندوقوں میں۔ نتیجتاً دو مقامات پر قلعے کی تنومند دیواریں بُھر بُھرا کر ڈھیر ہو گئیں۔ کنگریاں اپنی بادبانی بلندیوں سے اوندھے مُنہ گر پڑیں۔ قلعے سے باہر راستے میں آنے والے معصوم لوگوں کے کئی مکانات لگاتار فائرنگ اور گولہ بارود کی گرج اور کڑک سے آگ کی زد میں آ گئے۔ بعض کِھڑکیوں سے شُعلے اژدہوں کی طرح باہر لپک رہے تھے اور درجنوں دروازوں سے دھوئیں کی چادریں ہوا میں پھڑ پھڑا رہی تھیں۔ خالی میگزین اور خولوں کے ٹڈی دَل حویلیوں، برآمدوں اور گلیوں میں رینگ رہے تھے۔ بیچوں بیچ چمکتے دمکتے میناروں والی نہایت دیدہ زیب ایک چھوٹی سی مسجد پڑتی تھی جسے نُصرانیوں کی ہوسِ ملک گیری نے روند ڈالا۔ ہَرا گنبد مسلسل فائرنگ کی زد و کوب سے کالا نسواری ہو گیا تھا۔ دیواروں میں پڑی بڑی بڑی دراڑیں کُھلے مونہوں سی بے آسرا فریاد کر رہی تھیں۔ چھت میں پڑے گڑھے ہل چلائے ہوئے کھیت کا منظر پیش کر رہے تھے اور مسجد کے اندر باہر ہندوستان بھر میں معروُف ملتانی معماروں کی محنت اور محبت سے کی گئی کاشی کاری، زیب و زینت، پھول بوٹے اور خطاطی پپڑیاں بن کر اُکھڑ چکی تھی۔ قریب تھا کہ ساری مسجد دھڑام سے گر کر ملبے کا ڈھیر بن جائے۔

مُلتانی سپاہ کی بتدریج کم ہوتی قوت اور مزاحمت کو دیکھ کر دشمن کے خونی دستے خونی بُرج کے شمال مشرق میں ایک اونچے ٹیلے ‘مُندیاوہ’ پر چڑھ گئے، چوٹی پر ہوزرز پلانٹ کئے اور بُرج کی داہنی اور باہنی دیواروں پر بلا تعطل کچوکے لگانے لگے۔ قلعے کے رفتہ رفتہ کمزور پڑتے دست و بازو پر کمپنی کی چھ توپوں نے پے در پے مزید نشانے داغے۔ کئی روز کی مسلسل بمباری سے قلعہ کہنہ کے قدم لرزنے کے باوجود فی الحال اپنی جگہ پر قائم دائم تھے۔ دُشمن کے انجینیئرز نے تھک ہار کر یہ اِختراع کی کہ جہاں جہاں سے قلعے کی منڈیریں بُھربھرا گئی تھیں، انہی مقامات پر اپنے توپچیوں کو ہدف پر جا کر پھٹ جانے والے فیوز ڈالنے اور شیل پھینکنے کو کہا۔ اس قدر سفاکی اور تباہ کُن تکنیک کی وجہ سے منڈیروں کی خستگی اور دراڑیں شِگافوں میں بدلنے لگیں اور پھر شگافوں کا رخ اُوپر سے نیچے کی طرف بڑھنے اور پھیلنے لگا۔

جب بھی کوئی شیل النگ پر گرتا، دھماکے سے پھٹ جاتا اور کئی فٹ نیچے تک دیواروں کے تودے روئی کے گالوں کی طرح اُڑا ڈالتا۔ اِس پر مُستزاد یہ کہ دشمن کے چیرہ دست ٹیکنیشنز نے ساڑھے دس انچ کے ایک سے زیادہ ہوزرز دلی دروازے کے سامنے اور بائیں جانب فِکس کر کے یکے بعد دیگرے گولے مارنا شروع کر دیے۔ تھوڑی ہی دیر میں قلعے کی دیوار میں پڑے شگاف اتنے بڑھ گئے کہ سنگدل دشمن کی افواج اب آسانی سے اندر داخل ہو سکتی تھیں۔ مگر قلعے کی ڈھلوان اور بیرونی زمین کے درمیان بہادرانِ ملتان نے تحفظ کے پیش نظر خندقیں کھود رکھی تھیں جس کا اندازہ دشمن کو نہیں تھا۔ ایک دستہ آگے بڑھ کر پیچھے ہٹ گیا کیونکہ خندق گہری اور پاٹ چوڑا تھا جس کا حل ایک بار پھر اُن کے زیرک انجینیئرز نے ڈھلان کو دھماکے سے اڑا کر نکال لیا۔ مِٹی کے بڑے بڑے تودے مُردہ سپاہیوں کی مانند خندقوں میں گر پڑے۔ مگر پھر بھی بہت خلا ابھی باقی تھا۔ بالآخر 19 جنوری 1848 کو انہوں نے اپنے رنگروٹوں کے ذریعے خندقوں میں بھروائی کروا کے قلعے میں داخل ہونے کا راستہ بنا لیا۔

تاہم اِس شگاف سے داخل ہونے کے لیے راہ میں قلعے کی بنیاد سے تھوڑے اوپر بھاری بھرکم پتھروں کی ایک اور ترتیب وار اور انتہائی ڈھلوانی بُنیاد بنائی گئی تھی اور شاید یہ اس قدیم اور عظیم الجثہ قلعے کے پاؤں تھامنے والے آخری دستِ سنگ و آہن تھے، جِن کو توڑنے کے لیے دشمن نے ایک اور بیٹری تیار کی، جس میں شامل ہوزر اور شیل پھینکنے والی 10 پاؤنڈر گنیں شامل تھیں۔ کچھ مزید بڑی بندوقوں کو بھی سامنے والی خندق کے کنارے پر نصب کر دیا گیا۔ اور پھر ایک کے بعد ایک دھماکے دار وار کر کے قلعے کی ناف چاک کر دی گئی۔ شگاف دیوتا کے گُھٹنوں تلک بڑھ گیا۔

اب یہ بات حیرت انگیز نہیں رہی تھی کہ اس دوران قلعے سے کوئی گولا یا کوئی گولی فائر نہیں کی جا رہی تھی۔ قلعہ بند مزاحمت کاروں کی مزاحمت دم توڑ چکی تھی۔ شاید اب ان کا اسلحہ اور ہمت دونوں جواب دے چُکے تھے۔ دشمن کے ٹیکنیشن، فوجی اور انجینیئر مِلتا جلتا عمل پاک گیٹ والی سمت سے بھی دہُرا رہے تھے جہاں پر انھوں نے تقریباً سو گز کے فاصلے پر بیٹریاں اور پاونڈر گنز نصب کیں اور دِلی گیٹ کے سامنے کی طرح یہاں بھی آگ اور ایمونیشن سے قلعے کے دہانے کھول دیے اور ایک دو دنوں میں ہی یہاں سے بھی قلعہ کے شانوں سے لے کر قدموں تک بیرونی دیواروں کو بھنبھوڑ ڈالا۔ اور یہاں باہر سے ہی اُنہیں اندرونی بازار اور گلیاں صاف نظر آنے لگیں۔ درانداز دشمن اب دونوں شگافوں سے بڑی آسانی سے قلعہ کے اندر داخل ہو سکتا تھا۔

بالآخر 22 جنوری کو وہ وحشی گھوڑوں کی طرح مُلتان شہر کے اندر داخل ہو گئے اور کچھ رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے اندرونی ڈھلوان کی طرف چلتے ہوئے شہر کی گلیوں اور مکانوں کے اطراف میں پھیل گئے۔ یہاں اِنسانوں کے ہوتے ہوئے بھی ہُو کا عالم اور قیامت کا منظرتھا۔ نہ کسی طرف سے کوئی گولی آئی نہ کوئی نیزا لہرایا۔ نہ کوئی تلوار سنسنائی، نہ کوئی سنگین لے کر آگے بڑھا۔ نہ کوئی یساول نہ کوئی جسول، نہ کوئی چوبدار نہ داروغہ۔ پھر بھی غاصب کمپنی کے افسران پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے تھے۔ اُنہیں خوف تھا کہ اچانک ملتان کا کوئی بھی سپاہی کسی بھی غیر متوقع جگہ سے کُود کر اُن کی گردن اُڑا سکتا تھا۔ لیکن جیسے جیسے وہ آگے بڑھتے گئے، اُن کے اعتماد اور تفاخر میں اضافہ ہوتا گیا۔ در و دیوار اور بازار و مساکن کا قریبی نظارا کر کے ان کو اندازہ ہونے لگا کہ ملتانی سپاہ اور مقامی مزاحمت کاروں کی کمر ٹوٹ چُکی ہے۔ چند افسران جو اندر داخل ہوئے، اُنہوں نے اعتماد پا کر باہر منتظر برطانوی افسران اور حملہ آوروں کو اندر بلا لیا۔ دائیں بائیں بِچھی ہوئی مردوں، بچوں اور عورتوں کی لاشوں کے درمیان ایک دوسرے پر توصیف و تعریف کے ڈونگرے برسائے گئے اور تالیاں پیٹی گئیں جبکہ پس منظر میں قلعے کی حالت ہولناک منظر پیش کر رہی تھی۔

گلیاں اور محلے، صحن اور دالان، چھتیں اور النگ انسانی لاشوں سے پِٹے پڑے تھے۔ تعفن دماغوں کی چُولیں ہلا رہا تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ زخموں سے بے حال تڑپ اور کراہ رہے تھے۔ کسی کا زخم معمولی نہیں دکھائی دیتا تھا۔ عورتیں اور بچے یا پھر کمسن اور کمزور مرد جو بچ رہے تھے، بھوک یا بیماری سے بِلک رہے تھے۔ بندوقیں اور بھالے، تیر و تفنگ اور منجنیقیں اور اِس کے علاوہ جو بھی چھوٹے بڑے ہتھیار مزاحمت کار استعمال کرتے رہے تھے سب بے ہنگم، بے ترتیب اِدھراُدھر، یہاں وہاں بے بس اور بے کار پڑے تھے۔ بندوقوں اور مَسکیٹوں کی گولیوں اور بم شیلوں نے شاید کسی چیز کو زندہ سلامت نہیں چھوڑا تھا، کئی مقامات پر شیلوں نے سپاہِ ملتان کی توپوں کو ناکارہ بنا دیا تھا اور کئی ایک جگہوں کو راکھ اور خاک کے ہیولوں میں بدل کر رکھ دیا تھا۔ زیادہ تر مکانات ملبے کا ڈھیر بن چُکے تھے۔ کہیں کہیں گولیاں درختوں اور شہتیروں کے بدن میں گہرے چھید کرتی ہوئی ذرا آگے جا کر رُک گئی تھیں جیسے کِسی لہو رِستے ہوئے جسم کو جراح بِن جراحی کے چھوڑ کر آگے بڑھ گیا ہو۔ استعمال شدہ گولیاں اور شَیل گلیوں اور دالانوں اور مکانوں کی چھتوں پر ایسے بکھرے پڑے تھے جیسے معمولی اینٹ پتھر اور روڑے جا بجا پھینک دیے گئے ہوں۔

ملتانی مُنجنیقوں کے اپنے پھنکے ہوئے بڑے بڑے ایسے گولے بھی ادھر ادھر پڑے تھے جو اپنے ہدف تک پہنچنے میں ناکام رہے تھے۔ قلعے کے اندر کا باغ بھی جھاڑ جھنکار کی تمثیل بن کر رہ گیا تھا۔ یہاں داغی گئی گولیوں اور شَیلوں نے یہ حال کر دیا تھا جیسے دریا کنارے جنگلی سوروں نے آپس میں لڑ لڑ کر بیلے کی ساری زمین اُوپر تلے کر ڈالی ہو۔ حرم دروازے کے شگاف کے نزدیک ایک توپ، ہر چند کہ مضمحل، مگر تھکے ہارے انداز میں اپنے بازوُ پیچھے کو پھیلائے اور مَزل آگے کو بڑھائے ایسے کھڑی تھی جیسے ابھی ابھی فاتحانہ چال چلتے ہوئے برطانوی افسران کا تعاقب کر کے اُنہیں اپنے شعلہ اوصاف دھماکوں سے بھُون کر رکھ دے گی۔ اکثر گھروں کی چھتیں اور منڈیریں گِر چکی تھیں اور کئی گھر گھٹنوں کے بل پڑے تھے۔ گلیوں، بازاروں اور دُکانوں کے راستے اینٹ پتھر اور گارا مٹی گرنے کی وجہ سے مَسدود ہو چُکے تھے۔ نکاسی آب کی روانی بند ہونے کی وجہ سے بلند ہوا پانی نئی راہیں تلاش کرنے کی کوشش میں رکاوٹوں سے سر پھوڑ رہا تھا۔

کمپنی افواج کے جدید اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحے نے انسان حیوان، چرند پرند، کسی چیز کو سانس لینے جوگا نہیں چھوڑا تھا۔ میدانوں، گلیوں اور النگ پر سینکڑوں کی تعداد میں گائیں، گھوڑے، بکریاں اور بھیڑیں مردہ پڑے تھے۔ بہت سے پالتو کُتے بھی بارود کی زد میں آ کر مر چکے تھے۔ جو باقی بچے تھے وہ انسانی اور حیوانی لاشوں کا سڑاند زدہ گوشت کھا کھا کر اپنی بقا کی جِدوجہد کر رہے تھے۔ گلیوں اور گھروں کے اندر معدودے چند لنگڑاتے، لڑکھراتے لوگ ہی باقی رہ گئے تھے اور جتنے بھی باقی تھے،عورتیں، مرد، بچے اور بچیاں سب کی حالت نہ گفتہ بہ تھی۔ گویا سب کے سب جزوی یا مکمل طور پر زخمی تھے یا پھر بھوک سے نڈھال آخری سانسیں گِن رہے تھے۔

نہ کوئی طبیب باقی بچا تھا، نہ کوئی نان بائی اور نہ ہی کوئی سبزی اور پھلوں والا خوانچہ فروش۔ گندم، چاول، دالیں، مکئی اور دوسری اجناس کے ذخیرے جَل چُکے تھے یا ناقابلِ خوردنی حد تک زہر آلود ہو چکے تھے۔ گھروں میں یا تو پکانے والے باقی نہیں بچے تھے یا پھر کھانے والے۔ آنکھ اٹھانے پر ہر طرف بِکھری ہوئی چھوٹی بڑی بندوقیں، اسلحہ، خالی کارتوس، داغے گئے شیل اور بارود کی دبیز راکھ دکھائی دیتی تھی۔ کانوں کے اندر وقفے وقفے سے کُچھ انسانوں کی فریاد بھری روہانسی آوازیں پڑ رہی تھیں یا پھر بچ رہے کتوں کی غرغراہٹ سنائی دیتی تھی جبکہ ناک میں طرح طرح کے بد بُو دار بھبکے سمائے چلے جا رہے تھے۔

جوہن رائیڈر کی کتاب ‘چار سال ہندوستان میں کمپنی کی ملازمت’ (1853، ص: 182) کے مطابق قلعے کے باہر بھی صورت حال کوئی زیادہ مختلف نہیں تھی۔ ہر طرف عام شہریوں اور سپاہیوں کی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ لاشیں کیا تھیں، یا تو وہ ہڈیوں کے ڈھانچے تھے یا پھر کُچھ اعضا اِدھر اُدھر ایسے بکھرے پڑے تھے جیسے وہ انسان نہ ہوں بلکہ لاوارث جانوروں کے چیتھڑے ہوں۔ کہیں بازو، کہیں سر، کہیں ٹانگیں، کہیں دھڑ، اور پھر کُچھ تازہ اور کچھ باسی انسانی گوشت کی سڑاند الگ۔ آوارہ کُتے اور گیدڑ کئی دن سے اُن کی بوٹیاں نوچتے، لاشیں بھنبھوڑتے اور ایک دوسرے سے چھینا جھپٹی کرتے پھر رہے تھے جبکہ قلعے کے ارد گرد چیلیں، کوّے اور گدِھ ماس خوری میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں بازو تولے منڈلاتے پھرتے تھے۔

اندرون شہر کا کوئی کنواں ایسا نہیں تھا جو لہو کی دلدل میں دھنسی انسانی لاشوں کا منظر نہ پیش کر رہا ہو۔ کوئی بچ رہتا تو اُن کی تکفین و تدفین بھی کرتا اور اگر کچھ لوگ بچ بھی رہے تھے تو ان میں بیش تر خواتین جو ہوش و ہواس گنوائے دیوانہ وار گھومتی تھیں اور پھر ایسی ہولناک تباہی کے بعد کس کے حواس میں دم تھا کہ وہ میّتوں کو ٹھکانے لگاتا۔ میل ہا میل کھیت کَھلیان بارود کی زہرناکیوں سے سیاہ ہو چکے تھے اور آبپاشی کے لیے بنائے گئے کنوؤں میں پانی کے بَجائے اب خون اور مردگیاں تیرتی تھیں۔ ہر طرف تباہی اور انسانیت کی تذلیل چیختی تھی اور بس۔

اب کیا تھا، تمام کا تمام قلعہ کمپنی ‘بہادر’ کے نرغے اور قبضے میں جا پڑا تھا۔ کیا سنگ و خشت، کیا محل مُنارے، کیا بُرجیاں چوبارے اور کیا انسان و حیوان یا ان کا تنفس، کچھ باقی نہیں بچا تھا۔ بس ہر طرف لہو کی تحریر گوروں کی سفاکیت کی داستان سُنا رہی تھی۔ مگر اب بھی وہ شکاری کتوں کی طرح قلعے کے کون و مکان کو کُرید کُرید کر اپنی تسلی کر رہے تھے کہ کہیں کوئی اسلحہ بردار مجاہد یا ہمت براں سپاہی اُن کی تاک میں تو نہیں بیٹھا۔ آخر کار ‘پیٹرک’ اور ‘اینڈرسن’ کو بھی تو اِسی قلعے کے دروازے میں مولراج کے حکم اور خواہش کے خلاف ملتانی جوانوں نے اشتعال میں آ کر ہلاک کر دیا تھا۔

بالآخر مُولراج بھی اپنے تباہ شدہ مکان سے ایک چھوٹے سے دستے کے ہمراہ برآمد ہوا۔ اُس نے اور اس کے محافظوں نے بلا مزاحمت اور بلا تاخیر اپنا اسلحہ زمین پر دھر دیا۔ یہ 22 جنوری کی صبح تھی جب مولراج نے خود کو جنرل وہش کے حوالے کر دیا۔ کمپنی نے گورے سپاہیوں کو علامتی طور پر النگ اور برجیوں کے اُوپر کھڑا کیا اور پانچوں دروازوں پر جیک یونین (برطانوی جھنڈا) لہرا دیا۔ پھر بڑے اہتمام سے چند ایک گولے فضا میں داغے جو اس بات کا اعلان تھے کہ قلعوں کا قلعہ، یعنی دیوتا نُما ملتان کا قلعہ فتح کر لیا گیا ہے۔ گولے داغے جانے کی فاتحانہ صدا ابھی فضا ہی میں گونج رہی تھی کہ باہر مُنتظر کمپنی کے دستے اپنے بوٹ ایک ردم سے زمین پر پٹختے ہوئے دلی دروازے سے داخل ہونا شروع ہو گئے۔

یہی وہ دروازہ اور اس کی پُلی تھی جس پر پہلی کوشش میں ملتانی سپاہ نے کمپنی کے کئی جوانوں کو ٹھکانے لگا دیا تھا اور اب بھی کئی تلواریں، ڈھالیں، خنجر، برچھیاں، بندوقیں، مسکیٹیں اور پستول نیچے اور دائیں بائیں گزرنے والی خندق میں اوپر تلے بے خود، بے سُدھ پڑے تھے اور اوپر گزرنے والے سپاہیوں کے دلوں میں ماضی کا خوف اور مستقبل کی ہوس مُرتعش کر رہے تھے۔ یہی صورت حال شاید اُن سپاہیوں کی بھی تھی جو ان دو شگافوں سے گزر کر آئے تھے جہاں سے پہلے کچھ دستے داخل ہوئے تھے۔ قلعہ اب مکمل طور پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضے میں جا چکا تھا مگر اس محاذ میں جان سے جانے والے افسروں اور اپنے بھاری نقصان کا قلق ان کو بھی کھائے جا رہا تھا کیوںکہ ملتان کا قلعہ پکے ہوئے پھل کی مانند انگریزوں کی جھولی میں نہیں آن گرا تھا بلکہ تاریخی مزاحمت اور یادگار جانی خسارے کے بعد ان کے ہاتھ لگا تھا۔

 

***

اے وی پڑھو:

تریجھا (سرائیکی افسانہ)۔۔۔امجد نذیر

چِتکَبرا ( نَنڈھی کتھا )۔۔۔امجد نذیر

گاندھی جی اتیں ٹیگور دا فکری موازنہ ۔۔۔امجد نذیر

گامݨ ماشکی (لُنڈی کتھا) ۔۔۔امجد نذیر

سرائیکی وسیع تر ایکے اتیں ڈائنامکس دی اڄوکی بحث ۔۔۔امجد نذیر

امجد نذیر کی دیگر تحریریں پڑھیے

About The Author