محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فصاحت وبلاغت عربوں کی بڑی صفت رہی ہے۔جاہلی عرب کے بعض فصحا اور خطبا بڑے مشہور ہیں، ان میں سے بعض دراز عمر کی وجہ سے اسلام کے عہد تک جئے اور ان میں سے چند ایک نے اسلام قبول کیا اور صحابی رسول ﷺ کہلائے۔ جاہلی عرب کے ان فصحا میں سے ایک ذھیر بن جناب الحمیری ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ سردار تھا، اس کی قوم اس کی اطاعت کرتی تھی۔ یہ اپنی قوم میں سب سے صاحب شرف تھا، ایک سو سال سے زیاد ہ عمر پائی اور بے شمار جنگیں برپا کیں ، اس میں کئی ایسی خوبیاں تھیں جو اس کے معاصرین میں نہیں تھیں۔ یہ اپنی قوم کا طبیب اور قیافہ شناس(حازی)بھی تھا ۔کثیر الاولاد تھا۔ اس نے اپنے بیٹوں کو جمع کر کے وصیت کی : ’’بیٹو ، میری عمر بڑی ہوگئی ہے ، لہذا تجربے اور آزمائش کے اعتبار سے مجھے تجربوں اور معاملات نے عقلمند بنا دیا ہے۔ جو کہہ رہا ہوں اسے غور سے سنو اور محفوظ رکھو۔ ’’یاد رکھو کہ مصائب کے وقت کمزوری نہیں دکھانی ، آفات کے وقت معاملات دوسروں پر نہیں چھوڑنے کیونکہ یہ بات غم کا باعث ، دشمنوں کی خوشی کا سبب بنتی ہے۔ تم حادثات سے دھوکہ نہ کھانا، ان سے بے فکر نہ ہوجانا اور نہ ان کی ہنسی اڑانا کیونکہ جو قوم دوسروں کی ہنسی اڑاتی ہے، وہ خود اس میں مبتلا ہوجاتی ہے ۔ حوادث کی توقع رکھنا کیونکہ انسان دنیا میں حوادث کی آماجگا ہے ۔ تیر انداز باری باری اس پر تیر اندازی کرتے ہیں، مگر بعض اس تک نہیں پہنچ سکتے ، بعض اس سے آگے نکل جاتے ہیں اور بعض اس کے دائیں بائیں پڑتے ہیں ، پھر لازمی طور پر (کوئی نہ کوئی)تیر لگ ہی جائے گا۔ ‘‘ ان فصحا میں سے ایک الحرث بن کعب المذحجی ہے۔ اس کی خطابت اور فضیلت کو اس زمانے میں تسلیم کیا جاتا تھا۔ جب وفات کا وقت آگیا تو اس نے اپنے بچوں کو جمع کر کے وصیت کی ، کہتا ہے ـ : مجھے پر سو سال سے زائد گزر گئے، اس عرصے میں میرے دائیں ہاتھ نے کسی دھوکے باز سے مصافحہ نہیں کیااور نہ ہی میرے نفس نے کسی بدکار آدمی کی خصلتوں پر رضامندی ظاہر کی ہے ۔ میں نے چچا زاد بہن، بھاوج وغیرہ سے عشق نہیں لڑایا اور نہ ہی کسی بدکار عورت نے آ کر میرے پاس نقاب اٹھایا ہے۔ میں نے اپنا راز کسی دوست کو بتایا ہے اور نہ کسی دوست کا راز فاش کیا۔ ’’ خبر دار، اپنے رب سے ڈرتے رہو، وہ خود تمہارے اہم کاموں کو انجام دے گااور تمہارے اعمال کی اصلاح کرے گا۔خبردار اللہ کی نافرمانی نہ کرنا کہیں تم پر تباہی نازل نہ ہوجائے اور تمہارے گھر تم سے خالی نہ ہوجانا۔ بیٹا! متحد ہو کر رہنا، بکھر کر ٹولیاں نہ بن جانا۔ بیشتر اس کے کوئی تم پر غالب آجائے ۔ عزت کی موت ذلت اور عاجزی کی زندگی سے بہتر ہے ۔ جو کچھ ہونے والا ہے وہ ہو کر رہے گا، ہر جمعیت کا انجام جدائی ہے۔ ’’ یاد رکھو، زمانہ دو طرح کا ہے ۔ ایک آرام کا زمانہ اور دوسرا مصیبت کا۔ دن بھی دو طرح کے ہیں، ایک خوشی کا اور ایک آنسوئوں کا دن ۔ لوگ بھی دو طرح کے ہیں، ایک تمہارے ساتھ اور ایک تمہارے خلاف ۔ ’’برابر کے لوگوں میں رشتے ناتے کرو۔ بے وقوف عورت سے بچتے رہو، کیونکہ وہ بدترین بیماری ہے اور احمق عورت سے پرہیز کرو کیونکہ اس کی اولاد بھی احمق ہوتی ہے۔ خبردار رشتے داری کو منقطع کرنے والا کبھی آرام نہیں پاتا۔ نیک کام کی وجہ سے فضیلت کا دعویٰ کرنا برے کام سے بچا لیتا ہے اور بدی کا برا بدلہ لینا برائی میں داخل ہے۔ بد اعمالی اللہ کی نعمتوں کو زائل کر دیتی ہے۔ اللہ کی قابل احترام چیزوں کی بے حرمتی سے نعمتیں زائل ہوجاتی ہیں۔والدین کی نافرمانی سے تنگدستی پیدا ہوتی ہے۔ رسوائی اور کینہ امداد خداوندی کو روک دیتا ہے اور خطاکاری پر ڈٹے رہنے کا انجام مصیبت ہے۔‘‘ قیس بن زھیر العبسی بھی اس زمانے کے صاحب فصاحت، شیریں گفتار اور چرب زبان لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔ وہ ایک مشہور جنگ کے بعد اپنا علاقہ چھوڑ کرسردار نمر بن قاسط کے پڑوس میں آ گیا اور ان سے کہا کہ میں تمہارے پڑوس میں آ گیااور تم سے وابستہ ہوگیا ہوں، اس لئے میری شادی کسی ایسی عورت سے کر دو جسے مالداری نے بااخلاق بنا دیا ہو اور محتاجی نے کمزور ، جو حسب اور جمال والی ہو۔ اس کی شادی ایک ایسی ہی خاتون سے ہوگئی ، قیس نے ان خاتون سے کہا ، مجھ میں تین خصلتیں پائی جاتی ہیں ۔ میں غیرت مند ہوں ، بہت فخر کرنے والا ہوں، خود سر ہوں۔ میں اس وقت تک تفاخر نہیں کرتا جب تک کوئی پہل نہ کرے ۔ جب تک خود نہ دیکھ لوں، غیرت میں نہیں آتا، اور جب تک مجھ پر ظلم نہ کیا جائے میں تائو میں نہیں آتا۔ خاتون کو یہ باتیں پسند آئیں، وہ ساتھ رہے، اولاد بھی ہوئی۔ پھر جب ایک عرصے بعد وہ وہاں سے کوچ کرنے لگا تو چند باتیں بطور نصیحت کے کہیں :میں تمہیں چند باتیں اختیار کرنے اور چند سے منع کی وصیت کرتا ہوں۔ بردباری اختیار کر کیونکہ اسی کے ذریعے تم حاجت کو پا سکتے اور موقعہ حاصل کر سکتے ہو۔ ایسے آدمی کو سردار بنائوجس پر کوئی عیب نہ لگا سکے ۔ وفادار رہو کیونکہ اسی سے لوگ زندہ ہیں۔ سوال کرنے سے پہلے ہی اس شخص کو دے دو جسے تم دینا چاہتے ہواور اصرار سے پہلے ہی اس شخص کومحروم کر دو جسے تم محروم کرنا چاہتے ہو۔ جو شخص تمہارے پاس آ کر پناہ لے، اسے تمام زمانے کے خلاف پناہ دو۔ میں تمہیں بے وفائی سے منع کرتا ہوں کیونکہ یہ زمانے بھر کی عار (لعنت)ہے۔بازی لگا کر دوڑ میں مقابلہ کرنے سے منع کرتا ہوں۔ سرکشی سے منع کرتا ہوں کیونکہ اسی سے میرا بھائی قتل ہوا تھا۔ بے کار باتوں میں مال ودولت فنا کرنے سے روکتا ہوں کیونکہ اس طرح تم حقوق ادا نہیں کر سکو گے ۔‘‘ ایسے ہی نامور لوگوںمیں سے ایک الربیع بن ضبیع الفزاری بھی تھے، یہ جاہلی عرب کے بڑے خطیب تھے، اسلام کا زمانہ پایا ، کہا جاتا ہے کہ بنی امیہ کے عہد تک زندہ رہے۔ روایت ہے کہ ایک بار عبدالملک بن مروان کے پاس آئے تو عبدالملک نے ان سے چند سوالات پوچھے ۔عبدالملک نے کہا، مجھے قریش کے ان نوجوانوں کے بارے میں بتائو جو ہم نام تھے ۔ الربیع نے کہا پوچھو۔ عبدالملک نے کہا جناب عبداللہ بن عباس کے بارے میں بتائو۔ ربیع نے کہا، وہ تو ہمہ تن فہم وعلم ہیں، فوراً عطا کرنے والے، بہت بڑے برتن کی مانند وسعت والا علم۔ عبدالملک نے کہا جناب عبداللہ بن عمر ؟ ربیع نے کہا وہ حلم اور علم ہیں، دیر تک خاموش رہنے والے ، ظلم سے دور رہنے والے۔ عبدالملک نے کہاجناب عبداللہ بن جعفر کے بارے میں کہو۔ الربیع نے کہا، وہ ایک نیازبو ہیں جس کی عمدہ خوشبو ہیں۔ جو چھونے میں ملائم ہے، جس سے مسلمانوں کو کوئی ضرر نہیں پہنچتا۔ عبدالملک نے آخر میں سوال کیا، عبداللہ بن زبیر کے بارے میں بتائو۔ الربیع نے کہا وہ ایک دشوار گزار پہاڑ ہیں جس سے چٹانیں لڑھکتی ہیں ۔ عبدالملک بن مروان جو خود صاحب علم تھا، الربیع کی فصاحت وبلاغت سے متاثر ہوا۔ کہا، خدا تیرا بھلا کرے تجھے اتنی معلومات کیسے حاصل ہوئیں؟ الربیع نے جواب دیا: ’’اس کا سبب نزدیک کا پڑوس اور اکثر لوگوں سے پوچھتے رہنا۔ ‘‘ ان فصحا میں سے ایک اوس بن حارثہ تھے ، ان کا ایک بیٹا مالک تھا۔اوس بن حارثہ نے اپنے بیٹے مالک کووصیت کی : ’’ اے مالک مر جانا پسند کرنا مگر کمینہ پن نہ کرنا۔ سزا دینے میں کبھی جلدی نہ کرنا۔ صابر ومضبوط بننا، تردد میں نہ پڑنا۔ یاد رکھنا کہ مرجانا محتاج ہونے سے بہتر ہے اور بدترین پینے والا وہ جو آخری قطرہ تک پی جائے اور بدترین کھانے والا وہ جو جلدی جلدی کھائے۔ یاد رکھو کہ بہت سی نظریں ایسی ہیں جن سے بینائی کا جاتے رہنا بہتر ہے (یعنی بدنظری سے)۔شریف آدمی کی شرافت ہے کہ وہ ان امور کی حفاظت کرے ، جن کی حفاظت کرنا اس کے ذمے ہے ۔ قناعت بہترین سرمایہ ہے، بدترین محتاجی عاجزی وذلت ہے۔ ’’زمانہ میں دو قسم کے دن آتے ہیں۔ کبھی تمہارے حق میں اور کبھی تمہارے مخالف۔ اگر زمانہ تمہارے حق میں ہو تو اِترانا(غرور نہ)کرنا، اگر تمہارے خلاف ہوں تو صبر کرنا۔ دو نوں حالتیں زائل ہوجائیں گی۔ اگر موت خریدی جا سکتی تو اس سے اہل دنیا بچ سکتے تھے لیکن اس ضمن میں سب لوگ برابر ہیں ، خواہ کوئی روشن ودرخشندہ شریف ہو ، خواہ انتہائی کمینہ ۔ جس شخص میں پائیداری نہیں وہ کیسے سلامت رہ سکتا ہے ؟بری اولاد مصیبت سے بھی بدتر ہے۔ ‘‘ انہی فصحا میں سے ایک قس بن ساعدہ تھے ، یہ اس لحاظ سے زیادہ بلند مرتبہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اس کے کلام کی روایت کی ہے۔ آپ ﷺ نے اس کے خاکستری رنگ کے اونٹ پر کھڑے ہونے اور وعظ دینے کا ذکر کیا ہے، آپ ﷺ کو اس کا عمدہ کلام پسند آیا تھا۔قس بن ساعدہ اور اس کے قبیلے کے لئے یہ سب سے بڑا شرف ہے ۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس فصاحت اور خطبوں میں بذات خود کوئی برائی نہیں تھی۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر