منیر غنی شیخ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ژونگ اپنی کتاب “In Search of modern Soul” میں اعتراف کرتا ہے کہ ہمارا مغربی کلچر ابھی طفل مکتب ہے ۔ ابھی ہم نے انسان کو سدھارنے کے طریقے نہیں سیکھے ۔ جبکہ ہم نے ترقی بہت کرلی ہے ۔ تین چار سو سال کے اس دورانیہ میں ہم ابھی مہذب نہیں ہوئے۔ ہمیں یہ تہذیب مشرق سے سیکھنی چاہیے کیونکہ انسان کو سدھارنے میں ان کی تاریخ کم ازکم 5 ہزار سال پر محیط ہے ۔
میرے خیال میں مشرقی تہذیب کا مرکز وادی سندھ ہے اور سرائیکی تہذیب اس کا دل ہے ۔ مشرقی تہذیب و ثقافت کی ساری روایات یہاں اعلیٰ ترین شکل میں موجود ہیں ۔ سرائیکی تہذیب کا عمومی مزاج فیسٹول کلچر کا ہے ۔ جس میں خوشی سے لیکر مونجھ تک کومل کے منانے کا عمومی مزاج پایا جاتا ہے ۔ سندھ وادی کے اس زرعی سماج میں جہاں اجناس کے پک جانے پر مختلف قسم کے ثقافتی تہوار اور میلے ٹھیلوں کا انعقاد یہاں کے باسیوں کو تہذیبی و ثقافتی بے چینی دور کرنے کے مواقع مہیا کرتا ہے ۔ وہاں اس کے صوفیاء اور درباروں مزاروں نے بھی اس بے چینی کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انسان کی تہذیبی اور ثقافتی بے چینی کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ اس لیے ہر عہد میں صوفیاء نے اسے ختم کرنے کے لیے مختلف طریقے وضع کیے جن میں سماع اور رقص و موسیقی کی محفلیں اہم ہیں ۔ جو انسان کو ورلنگ (whirling)کے ذریعے بے چینی اور اضطراب کی کیفیت سے نکالنے میں معاون ثابت ہوتی تھیں۔ دوسری طرف موسمی و ثقافتی تہوار نہ صرف مقامی آبادی کی معیشت میں اضافے کاباعث بنتے بلکہ مسلسل کام کاج کی مشقت اور ذہنی دباؤ میں کمی اور سماجی میل جول میں بھی بہتری کا سبب بنتے تھے ۔
ضلع لیہ کا لینڈ سکیپ ریگستان (تھل ) اور دریا (کچہ نشیب ) کا حسین امتزاج ہے۔ تھل کے لوگوں کا زیادہ تر ذریعہ معاش لائیو سٹاک کے ساتھ وابستہ ہے ۔ چنانچہ اس علاقہ میں اونٹ اور بھیڑ بکریاں پالنے والے قبائل صدیوں سے آباد ہیں ۔ لٰہذا ان کے ثقافتی اکٹھ بھی انہی جانوروں کی خریدوفروخت کے سلسلہ میں منعقد ہوتے ہیں۔ صدیوں کے اس تسلسل کے بعد اب یہ میلوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں ۔ یہ میلے نہ صرف مقامیوں کی معاشی بہتری میں معاون ہیں۔ بلکہ اس کی ثقافتی بے چینی میں کمی کا باعث بھی ہیں۔
بے مہابا ترقی اور تمدنی یلغار نے اب دریائے سندھ کو ایک لکیر بنا دیا ہے ۔ اور تھل آباد کاری و قبضہ گیری کے ھاتوں اپنے فلورا اینڈ گانا کو بچانے کی کوشش میں آخری سانس لے تھا ہے۔ تیز رفتار ترقی اور مقابلے کے اس رحجان نے انسان کو شدید ذہنی دباؤ کا شکار کردیا ہے ۔ وہ ثقافتی تہوار اور میلے ٹھیلے جو اس کی بے چینی کو ختم کرنے میں معاون ہوتے تھے ،بیرونی ثقافت اور تمدنی یلغار نے تقریباً ختم کردیے ہیں یا پھر دہشت گردی کے خوف کی وجہ سے بند ہوچکے ہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ اس علاقہ میں سرکاری سر پرستی میں جیپ ریلی جیسے متبادل تہوار بھی ان کی بندش کا ایک سبب ہیں۔ اسی وجہ سے موجودہ مقامی نسل کا نوجوان نہ صرف اپنے ثقافتی ورثہ سے ناواقف ہے بلکہ بیرونی ثقافتی و تمدنی یلغار کے لیے ترنوالہ بھی ہے۔ اب اُس کے دماغ کو چوری کرنا آسان ہوگیا ہے ۔ کالونیل تربیت کا یہی نصاب دراصل دماغ کو چوری کرنے کا نصاب ہے ۔ ایک ایسا نصاب جو محض قبضہ گیر ترقی کے تصور کو آگے بڑھاتا ہے۔ جس کے اندر مقامیت اور اسکی عالی شان ثقافت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ۔ یہ نصاب کا لونیل ازم کا خوفناک ہتھیار ہے جسکی طاقت ہمارے بچوں کو اپنی مقامیت اور ثقافت سے بیگانہ کرتی ہے ۔
ایڈورڈ سیڈ کا خیال بالکل درست ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ
"ہماری نئی نسل اپنی مقامیت اور ثقافت سے زیادہ فرانس ، جرمنی ، امریکہ اور برطانیہ کے بارے جانتی ہے ۔ کوئی بھی جگہ یا وسوں جسکا دماغ چور ی کر لیا گیا ہو ایمپائر اور اسکی گماشتہ ریاست کے لیے مفید اور فرمانبردار ثابت ہوتی ہے "
اصل میں قبضہ گیر ترقی کا یہ ماڈرن نصاب سامری کے سوداگرانہ کلچر کا دست و بازو ہوتا ہے ۔ ہم تل وطنی (مقامی ) یہ سمجھتے ہیں کہ سوداگرانہ کلچر کا یہ نصاب مقامی لوگوں کو فتح کرنے اور غلام بنانے کا نصاب ہے ۔ جہاں انسان اور اسکی تہذیب و ثقافت سے بڑھ کر صرف تمدن کی ترقی ہی اسکا بنیادی مقصد ہوتا ہے ۔ قبضہ گیر ترقی کا یہ کانا اور بھینگا نصاب ہمیں اس کے نیچے میں پیدا ہونے والے تہذیبی و ثقافتی خلا بارے آگاہ ہی نہیں کرتا۔
اوشو نے ایک خوبصورت بات کہی ہے کہ
"ہمیں مادی جدلیت اور اسکے تمدن کی ترقی کے نقائص اور مغالطوں کو سمجھنے اور باربار اپنی نئی نسل کو سمجھانے کی ضرورت ہے جو ہماری متبادل تربیت کے نظام میں مددگار ہوسکتی ہے "
- چنانچہ مقامیت کو صاف صاف جان لینا چاہیے کہ مروجہ کا لونیل اورجبری جہالت کا یہ نصاب ہماری مقامیت کے دماغ کو چوری کرنے کا باعث ہے تاکہ بندہ صرف مفید شہر ی کا ہی اعزاز پا سکے ۔ ان خدشات کے پیش نظر ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے کلچرل ہیرٹیج(ثقافتی ورثہ ) کے بچاؤ کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں اور قبضہ گیر کلچر کے گماشتوں پرنظر رکھیں اور ساتھ یہاں کے صاحب اقتدار طبقہ کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مقامی ثقافت کی ترویج و ترقی کے لیے مواقع پیدا کریں ۔ باوثوق ذرائع کے مطابق اس جیپ ریلی پر تقریبا ایک کروڑ روپے کے اخراجات کا تخمینہ ہے۔جبک آسکے مقابلہ میں یہ جانبدار انتظامیہ مقامی ثقافتی میلوں کے لئے پانچ دس لاکھ کے اخراجات کی رقم کی فراہمی کے لئے بھی تیار نہیں ہوتی بلکہ حیلوں بہانوں اور سیکورٹی رسک کا سہارا لے کر حوصلہ شکنی کے لئے تیار رہتی ہے۔ مختلف اداروں اور پٹرول پمپوں سے حاصل کیا گیا یہ جگا ٹیکس اہل ارباب کے من پسند احباب میں بندر بانٹ کی نظر ہو جاتا ہے۔ کلچر ل پروگراموں میں مخصوص من پسند فنکاروں کو بلایا جاتا ے جن کی پرفارمنس بارھا مختلف چینلز اور فنگشنز میں دیکھ چکے ہوتے ھیں اور وہ صرف لپسنگ کے لاکھوں روپے بٹور جاتے ہیں۔جبکہ اس معاوضہ میں بہت سے مقامی فنکاروں کی حوصلہ افزائی اور فن کو زندہ رکھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ ہمارے دانشور اور اہل بصیرت لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ وہ مقامی سیاسی نما یندوں سے اس مسئلہ پر ڈائیلاگ کریں اور مسئلہ کے مضمرات سے آگاہ
- کریں۔
ڈاکٹر اشو لال کی نظم (کتھا شینہہ) بھی مقامی بندے کو ایسی ہی ذمہ داریاں تفویض کرتی ہے کہ اپنی جگہ اور ثقافت کو بیرونی یلغار سے بچانے کے لیے کیسے اُسے اپنی آنکھیں کھُلی رکھنی ہوں گی ۔ کہتے ہیں کہ
وَٹے وَٹے پچھوں بھانی بھانی پچھوں
اکھیں بن باہوں کن بَن باہوں
جیویں مشکی چیتا نال اپنے
اکھیں بال کے اپنیا ں راھندا ھے۔
مہاتما گاندھی کے مطابق "کسی بھی قوم کی ثقافت اس کے لوگوں کی روحانیت اور دلچسپیوں کا عکس ہوتی ہے "
پس اگر کسی بھی قوم کا تنقیدی جائزہ مقصود ہوتو سب سے پہلے اس کے ثقافتی اور تہذیبی اقدار کا مطالعہ ضروری ہوگا
"کسی بھی قوم کی اخلاقی ، تہذیبی وثقافتی اقدار اس کے آئین و قانون سے کہیں بہتر ہوتی ہیں "
اس لیے یہی اخلاقی و ثقافتی اقدار ہیں جو لوگوں میں ہم آہنگی پیدا کرتے ہیں۔ انہیں مہذب بناتے ہیں ۔ اور طاقت مہیا کرتے ہیں ۔ ان اقدار کی پیروی سے مقصد یت حاصل ہوتی ہے ۔ اور ایک مخصوص پہچان عطا ہوتی ہے ۔
تہذیب و ثقافت کی ترویج کے پیرائے میں رابرٹ ایلن (Robert Ellen) نے ایک خوبصور ت بات کہی ہے کہ "ثقافتی رنگا رنگی ہمیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کرتی بلکہ یہ ہمیں مجموعی طور پر قریب لاتی ہے ۔ یہ ہمیں اجتماعی شعور عطا کرتی ہے اور تمام لوگوں کی فلاح کا باعث بنتی ہے "
فی زمانہ ہم جسطرح دہشت گردی کے عفریت کا شکار ہیں اور مذہبی تفرقہ بازی کے نتائج لوگوں میں دوری کا موجب بنے ہیں۔ وہاں ثقافتی تہواروں کا انعقاد اور سرپرستی ہی ایک واحد ذریعہ ہے جو ہمیں اس دلدل سے نکالنے میں معاون ہوسکتا ہے ۔
اس کے ذریعے نہ صرف لوگوں کی ثقافتی بے چینی اور دماغی اضطراب کا مداوا ممکن ہے ۔ بلکہ انہیں قریب لانے میں بھی معاونت کا ذریعہ ثابت ہوگا۔
ان ثقافتی تہواروں میں اتنی وسعت اور گہرائی موجو د ہے ۔ جو ہر رنگ ونسل کے لوگوں کو کشادہ قلبی اور کھلے بازوں سے سینہ سے لگاتے ہیں اور اپنی پنا ہ میں لے لیتے ہیں۔
چنانچہ بحیثیت سرائیکی تہذیب وثقافت کے امین ہونے کے ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہےکہ اس کی ثقافتی اقدار کی ترویج کا باعث بنیں اور کشادہ قلبی سے نو آباد قوموں کو بھی اس کا حصہ بنائیں تاکہ معاشرتی ہم آہنگی کا قیام ممکن ہوا ور معاشرے میں دوری کا خاتمہ ممکن ہو۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر