اپنی زندگی میں اچانک آئی ایس آئی کی دلچسپی سے میں سہما ہوا تھا۔ یہ بھی خیال آیا کہ انھوں نے پہلی دفعہ چپیڑیں نہ مارنے کا جتلایا ہے تو اگلی دفعہ ان کا موڈ بدل گیا تو کیا ہو گا؟ میں نے کھوکھر صاحب سے نیم دلانہ قسم کا بہانہ لگایا کہ بچوں کا سکول ہے، اسلام آباد نہیں آ سکتا۔
محمد حنیف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی میں شاید ہی کسی صاحب اقتدار کا فون آیا ہو، نہ ہی کبھی کوئی ایسی مصیبت پڑی کہ کسی کے دروازے پر حاضری دینی پڑی ہو۔
ایک دفعہ گاؤں سے ایک بزرگ دوست نے فون کر کے کہا تھا کہ اپنا رشتہ دار کور کمانڈر کراچی لگ گیا ہے کوئی کام ہو تو بتانا۔
میں نے بزرگوں سے کہا کہ بس آپ دعا کریں کہ زندگی میں کوئی کام ایسا نہ پڑے، جس کے لیے کور کمانڈر کو تکلیف دینی پڑے۔ لیکن مصیبت یہ پوچھ کر نہیں آتی کہ آج کل آپ کے واقف کا رشتہ دار کور کمانڈر ہے تو میں آ جاؤں۔ ڈھائی سال پہلے ایک ہلکی سی مصیبت آئی تو زندگی میں پہلی دفعہ کسی صاحب اقتدار سیاستدان کا فون آیا، وہ مصطفیٰ نواز کھوکھر تھے۔
میری ان سے جو گفتگو ہوئی اس سے واضح ہو جائے گا کہ ہمیں کھوکھر صاحب جیسے سیاستدان کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔ راقم صحافت کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی کوئی ناول نما کتاب بھی لکھ لیتا ہے۔
ایسی ہی ایک کتاب دس، بارہ سال سے انگریزی میں چھپ رہی تھی، بک رہی تھی، کئی سکولوں کالجوں میں پڑھائی جا رہی تھی۔
میں بھی دل ہی دل میں خوش ہوتا تھا کہ چلو پاکستان کی برگر کلاس مجھے ادیب سمجھتی ہے۔ کتاب کا اردو میں ترجمہ ہوا اوراس کے کچھ مہینے بعد ہی نصف شب کو میرے پبلشر کے دفتر پر چھاپا پڑا اور ساری کتابیں اٹھا کر لے گئے اور جن دکانوں پر کتاب بیچی جا رہی تھی ان پر بھی چھاپے مارے گئے۔
چھاپہ مارنے والوں نے بتایا کہ ان کا تعلق آئی ایس آئی سے ہے۔
،تصویر کا ذریعہ @MUSTAFA_NAWAZK
جیسا کہ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ندیم انجم نے اپنی تاریخی پریس کانفرنس میں فرمایا ہم اپنی عامیانہ سی زندگی میں نصف شب کو آئی ایس آئی کے کارندے دیکھ کر بجا طور پر حیران ہوئے اور انتہائی بجا طور پر کافی پریشان بھی۔ ہم نے اپنی سہمی آوازوں میں شور مچایا۔ آزادی اظہار رائے اور ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں والی بات کی، کچھ دھمکیاں کچھ منتیں کیں۔
اگلے دن کراچی میں آئی ایس آئی کے سویلین ہم منصب نے رابطہ کیا اور کہا وہ کہہ رہے ہیں کہ آپ شور کچھ زیادہ ہی کر رہے ہیں۔ ہم نے تو بہت شائستہ طریقے سے صرف کتابیں ہی اٹھائی ہیں، سٹاف سے پوچھ لیں کسی کو چپیڑ تک نہیں ماری۔ اور کیا ہمیں نہیں پتا کہ آپ کہاں رہتے ہیں وغیرہ وغیرہ، رات گئی بات گئی نہ ہم آپ کو تنگ کریں گے نہ آپ ہمیں تنگ کریں۔
ہم نے بھی سیانوں سے مشورہ کیا، تھوڑا شور اور مچایا اور پھر صلح حدیبیہ کر لی۔
اسی دوران ایک دوست نے کہا مصطفیٰ نوازکھوکھر سینیٹ کی ہیومن رائٹس کمیٹی کے چیئرمین ہیں آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا فون آیا، وقوعہ کی تفصیلات پوچھیں۔ کیونکہ سرکار نے پہلی بار فون کر کے حال دل پوچھا تھا تو میں نے بھی پورا واقعہ سُنا دیا۔
مصطفیٰ نواز کھوکھرنے اپنی سینیٹ کمیٹی کے بارے میں بتایا کہ قانون کے مطابق تو ہم کسی کو بھی بلا سکتے ہیں لیکن آپ بھی سمجھدار ہیں تو ہم آئی ایس آئی کو نہیں بلائیں گے لیکن سندھ کے چیف سیکریٹری اور آئی جی کو بلا لیتے ہیں، تھوڑا شور ہو گا، ہم ان کو ڈانٹیں گے، آپ کو تنگ کرنے والے تھوڑا پیچھے ہٹ جائیں گے۔ آپ کو تھوڑی سپیس مل جائے گی۔ تو آپ اسلام آباد آئیں گے ہماری کمیٹی کے سامنے بیان دینے۔
اپنی زندگی میں اچانک آئی ایس آئی کی دلچسپی سے میں سہما ہوا تھا۔ یہ بھی خیال آیا کہ انھوں نے پہلی دفعہ چپیڑیں نہ مارنے کا جتلایا ہے تو اگلی دفعہ ان کا موڈ بدل گیا تو کیا ہو گا؟ میں نے کھوکھر صاحب سے نیم دلانہ قسم کا بہانہ لگایا کہ بچوں کا سکول ہے، اسلام آباد نہیں آ سکتا۔
اب تک گفتگو پنجابی میں ہو رہی تھی اب کھوکھر صاحب گیئر بدل کر اُردو میں آئے اور فرمایا کہ آپ کے بغیر آپ کے حقوق کی بات کیسے ہو گی۔ یہ تو وہی ہوا کہ مدعی سست تو گواہ چست۔ میں دل ہی دل میں اپنی بزدلی پر شرمندہ ہوا لیکن چپیڑیں کھانے کا نہ تب حوصلہ تھا نہ اب ہے۔
مصطفیٰ نواز کھوکھر نے اور بھی کئی معاملات میں چستی دکھائی، سینیٹ کے الیکشن میں پارلیمنٹ سے کیمرے ڈھونڈ نکالے جن کا آج تک پتہ نہیں چلا کہ لگائے کس نے تھے۔ ایک دوست کی فلم سنسر سے پاس تھی لیکن ایک مذہبی جماعت والے بغیر فلم دیکھے اس پر فتوے لگا رہے تھے۔ کھوکھر صاحب نے سینیٹ کمیٹی کے ذریعے فیصلہ کروایا کہ فلم ریلیز ہو گی۔ یہ علیحدہ بات کہ ابھی تک کسی سنیما والے کو فلم دکھانے کا حوصلہ نہیں ہوا۔
تو سینیٹر ہوتے ہوئے مصطفی نواز کھوکھر جو سپیس ہم جیسوں کے لیے نکال لیا کرتے تھے اب وہ سپیس ان کے پاس بھی نہیں رہی۔ اب یہی کہہ سکتے ہیں کہ کھوکھر صاحب ہمارا سینیٹ میں، پیپلز پارٹی میں، آئی ایس آئی میں کوئی واقف نہیں ہے، لیکن کبھی کوئی کام پڑے تو ضرور بتائیے گا، اور کچھ نہیں تو دعا تو کر سکتے ہیں۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
About The Author Continue Reading
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر