ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے کوپ 27 کانفرنس مصر کے ساحلی سیاحتی مقام شرم الشیخ میں شروع ہے، وزیر اعظم شہباز شریف کانفرنس کے شریک صدر ہیں اور پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں ، یہ حقیقت ہے کہ موسم اور زراعت کا ایک دوسرے سے چولی دامن کا ساتھ ہے، پیداوار کا دار و مدار موسمی حالات پر منحصر ہوتا ہے، حالیہ موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والی شدید بارشوںاور سیلاب نے پاکستان کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے، ان حالات میں مصر کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس پر پوری دنیا کی نظریں ہیں ، شرکاء کو وہاں سے بہتر فیصلے کرنے چاہئیں اور خصوصی طور پر سیلاب سے جو نقصان ہوا ہے اس کا ازالہ ضروری ہے۔ دوسری طرف وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی طرف سے انائونس کئے گئے کسان پیکیج کا بہت چرچا ہو رہا ہے۔کسان پیکیج کے تحت 18سو ارب روپے کے زرعی قرضے، بجلی کی 13 روپے فکسڈ یونٹ فراہمی ، ڈی اے پی کھاد کی فی بوری قیمت میں 25 سو روپے کمی ، یوریا کی مد میں 30 ارب روپے کی سبسڈی، دیہی علاقوں کے نوجوانوں کے لئے 50 ارب روپے کے آسان قرضے، استعمال شدہ ٹریکٹر کی درآمدی ڈیوٹی پر چھوٹ، ٹریکٹر کے پارٹس پر ڈیوٹی کم کر کے 15 فیصد کرنے، 3 لاکھ ٹیوب ویلز کو سولر سسٹم پر منتقل کرنے کیلئے بلا سود قرضوں کی فراہمی ، کھاد بنانے والی فیکٹریوں کو سستی گیس کی فراہمی کے اعلانات کئے گئے ہیں۔ پی ڈی ایم کی حمایت یافتہ مختلف کسان تنظیموں کی جانب سے وفاقی حکومت کے کسان پیکیج کو سراہا جا رہا ہے جبکہ چھوٹے کاشتکاروں نے اس زرعی پیکیج کو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف قرار دیا ہے۔ سیلاب سے جو تباہی آئی ہے وہ اپنی جگہ مگر جہاں سیلاب نہیں آیا وہاں حالت یہ ہے کہ کپاس کی قیمت پندرہ ہزار روپے فی من سے گر کر پانچ ہزار روپے فی من تک آئی اور اب تین سے چار ہزار روپے فی من لینے کیلئے بھی کوئی تیار نہیں ہے،قیمت کی اس کمی سے کاشتکاروں کو کھربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے ، زراعت میں استعمال ہونے والی اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ پیدواری لاگت اتنی زیادہ ہے کہ پندرہ ہزار روپے فی من کپاس کے ریٹ سے بھی بامشکل اخراجات پورے ہو نے تھے مگر کپاس کی قیمتوں کی کمی سے کاشتکار کو جو نقصان ہوا ہے اس کے ازالے کا کسان پیکیج میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ کپاس کے علاوہ چاول کی قیمتیں بھی کم ہوئی ہیں، ایک مسئلہ یہ ہے کہ زراعت میں استعمال ہونے والی تمام چیزوں کے ریٹ اس کے بنانے والے سرمایہ دار اور صنعت کار خود مقرر کرتے ہیں، وہ اپنی مرضی سے ایک روپے میں بننے والی چیز کی قیمت دس روپے مقرر کر سکتے ہیں ،کسان چیزیں خریدنے کیلئے مجبور و بے بس ہوتا ہے۔ زرعی پالیسی بنانے والوں کو ایسے قوانین اور اصول وضع کرنے چاہئیں جس سے کسان کو نقصان سے بچایا جا سکے، یہ نقصان دراصل کسان کا نہیں بلکہ پاکستان کا ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اگر کسانوں کیلئے فوری اقدامات نہ کئے گئے تو ملک قرضوں کے مزید بوجھ تلے دبتا جائے گا، غذائی اشیاء کی کمی سے درآمدات پر کثیر سرمایہ خرچ ہوتا ہے اور پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک یہ بوجھ اُٹھانے کی سکت نہیں رکھتا۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ پاکستان جیسا زرعی ملک ہمیشہ خوراک کی کمی کا شکار رہتا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ کسانوں کو سبسڈی کی فراہمی کی بجائے زرعی ایمرجنسی نافذ کی جائے، کیونکہ اس سبسڈی کا فائدہ ہمیشہ مافیا اٹھاتے ہیں ۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ زراعت میں کام آنے والی تمام چیزیں بہت مہنگی ہیں، ان میں زرعی آلات ٹریکٹر، ٹرالی، تھریشر وغیرہ سب کچھ مہنگا ہے،یہی وجہ ہے کہ کسان روز بروز بدحالی کا شکار ہے اور زرعی پیداوار میں اضافے کی بجائے کمی ہو رہی ہے اور پاکستان کو گندم و دیگر زرعی اجناس برآمد کرنے کی بجائے درآمد کرنا پڑتی ہے، زراعت کا شعبہ حکومت کی بے توجہی کا شکار ہے۔ اگر ہمارے حکمرانوں میں سمجھ ہوتی تو میٹرو اور اورنج ٹرینوں کی بجائے زراعت پر توجہ دیتے۔ زرعی پیداوار بڑھے گی تو معاشی بہتری آئے گی۔ انڈسٹری بھی چلے گی اور معیشت مستحکم ہو گی،کیا کبھی ایسا ہو گا؟۔ پاکستان کسان اتحاد کے رہنما جام ایم ڈی گانگا کا یہ مطالبہ درست اور بجا ہے کہ کاشتکاروں کو کسان پیکیج کے نام پر دھوکہ نہ دیا جائے بلکہ سہولتیں دی جائیں، ان کا کہنا ہے کہ کسان پیکیج دراصل کاشتکاروں کو مزید مقروض کرنے کا پیکیج ہے، اصل مسئلہ ایک جامع زرعی پالیسی مرتب کرنے اور کاشتکار کو براہ راست سہولت دینے سے حل ہو سکتا ہے۔ اب تو ہر کاشتکار کی زبان پر یہ سوال ہے کہ کیا وزیر اعظم کے کسان پیکیج سے کاشتکاروں کے مسئلے حل ہوں گے؟۔ میرا دیہی زندگی سے تعلق ہے اور کاشتکار گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں، تمام مسائل میری آنکھوں کے سامنے ہیں، توانائی صرف انڈسٹری کیلئے نہیں زراعت کیلئے بھی ضروری ہے، یہ حقیقت ہے کہ کاشتکاروں کو سہولت دی جائے تو وہ خود بھی بائیو گیس پلانٹ لگا سکتے ہیں، نہری پانی کی چوری ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، بڑے زمیندار اور چودھری پانی چوری کراتے ہیں۔ غریب کاشتکار کو اس کے حصے کا پورا پانی نہیں ملتا، ٹیل کا غریب کاشتکار تو بالکل ہی تباہ ہو جاتا ہے، با اثر لوگ پانی چوری افسران کی آشیر باد سے کرتے ہیں، عام آدمی سے لیکر ایوان وزیر اعظم تک سب کو اس بات کا علم ہے کہ پانی چوری کون کرتا ہے اور کون کراتا ہے، اس کے باوجود کارروائی نہیں ہوتی۔ وزیر اعظم چین کے دورے پر ہیں، چین سے نئے معاہدے ہو رہے ہیں، چین کی بنیادی ترقی خام مال اور افرادی قوت کے حوالے سے ہے، زراعت بیس صنعتوں کے حوالے سے چین ایک ماڈل کے طور پر ہمارے سامنے ہے ، وزیر اعظم شہباز شریف کو سرائیکی وسیب کیلئے صنعتی منصوبے چین سے حاصل کرنے چاہئیں کہ سرائیکی وسیب خام مال اور افرادی قوت کا سب سے بڑا مرکز ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر