ارشادرائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عوام میں رہنا ان کے نذدیک سیاست کی معراج تھی وہ ایک نڈر اور بے باک لیڈر تھیں ، دبئی سے فلائی کرتے وقت کئی رہنماؤں نے انہیں مشورہ دیا کہ بی بی آپ پاکستان نہ جائیں دہشت گردی عروج پر ہے اور دشمن آپ کی تاک میں ہے وہ یہ سن کر مسکرا تیں اور کہا کرتیں کہ میں دشمن کے ڈر سے عوام سے رشتہ چھوڑ دوں اُنہیں بھی اچھی طرح علم تھا کہ دشمن آج سے نہیں بلکہ ان کے باپ کی شہادت کے وقت سے انہیں نقصان پہنچانے کے در پے ہے مگر اس امن کی فاختہ نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب عوام کو اکیلا نہیں چھوڑا جاۓ گا وہ کراچی ائیرپورٹ پر جہاز کی سیڑھیوں سے نمودار ہوئیں تو سر زمین پاکستان کو دیکھ کر ان کی آنکھیں نم ہو گئیں پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ انہوں نے اپنے خون سے سر زمین پاکستان کو نم کرکے دھشت گردی اور آمریت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا اور آج پندرہ سالوں سے جو لولہی لنگڑی جمہوریت چل رہی ہے وہ بی بی شہید کی اسی قربانی کا نتیجہ ہے ، مگر آج بھی اکثر لوگ ہم سے سوال کرتے ہیں کہ جب بی بی کو معلوم تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے تو پھر وہ پاکستان کیوں آئیں ۔ میں بتانا چاہوں گا کہ وہ اس لیے آئیں کہ یہاں پر قابض مستقل مقتدر قوتوں کے چنگل سے اس ملک وقوم کو نجات دلائی جاۓ ، وہ اس لیے آئیں کہ اس ملک میں ڈی ریل جمہوریت کو اس کی پٹڑی پر دوبارہ مستقل بنیادوں پر ڈالا جا ۓ ، وہ اس لیے آئیں کہ ہمیں ہماری شخصی آزادی دلا سکیں ، وہ روشن خیالی ، اور ترقی پسند سوچ کو پروان چڑھانے کیلۓ آئیں ، وہ مُلا، ملٹری کی چھتری تلے پلنے والی آمریت سے مستقل آزادی کیلۓ آئیں ، وہ مزدوروں ، مجبوروں، مظلوموں ، اور کسانوں کے حقوق کیلۓ آئیں تھیں ، وہ آئین کی سر بلندی اور قانون کی بالادستی کیلۓ آئیں تھیں ، وہ عوام کے حق حکمرانی کیلۓ آئیں ، یعنی وہ میرے لیۓ آئیں آپ سب کیلۓ آئیں تھیں ، وہ یہاں کی بے رحم سیاست کی پیچیدہ راہداریوں سے واقف تھیں انہیں بخوبی ادراک تھا کہ پاکستان جیسے ملک میں دہشت گردوں اور آمروں سے لڑائی آسان نہیں ، وہ جانتی تھیں کے حریف نا صرف طاقتور ہے بلکہ بے رحم بھی ہے ، منافقت اور پروپیگنڈہ حریفوں کا خاص ہتھیار ہے وہ جب چاہتا ہے انہیں ہتھیاروں سے لیس ہوکر مذہب کا پیراہن اوڑھ کر عوام کے جذبات کو اپنے حق میں استعمال کرتا ہے ، چاہے اس کیلۓ اسے عدم برداشت ، اور مذہبی منافرت کی فصل کیوں نا اگانی پڑے ، اُن کا مقصد صرف اپنے اقتدار کو دوام بخشنا ہوتا ہے عوام چاہے جئیں یا مریں ان کی صیحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا
محترمہ شہید بی بی کو ان تمام باتوں کا ادراک تھا اس کے باوجود وہ وقت کے نمرود کے جلاۓ گۓ آتش دان میں کود گئیں
“ عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی “.
اسی عشق نے انہیں کراچی کیلۓ آنے والے جہاز میں بیٹھنے کا حوصلہ دیا کہ جس کی منزل موت کی وادی تھی مگر یہ کٹھن راستہ ان کا اپنا چنا ہوا تھا آپ مجبوراً نہیں بلکہ بارضا و رغبت اس وادئ پرخار میں قدم رکھنے کیلۓ تیار ہوئیں
کراچی ائیرپورٹ پر عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر آپ کی ایک جھلک دیکھنے کیلۓ مضطرب تھا جسے دیکھ کر آپ کا حوصلہ اور ہمت پہاڑوں سے بلند اور مضبوط ہو گیا مگر دشمن کو اسی عزم اور حوصلے سے تو کھٹکا تھا ، انہیں تو جھکے ہوۓ سر پسند تھے اٹھا ہوا سر تو ان کے نذدیک گردن زدنی جرم تھا
پھر پچیس سے تیس لاکھ عوام کا جم غفیر ڈرپوک حاکموں کے قلعوں کے درودیوار ہلانے اور دل دہلانے کیلۓ کافی تھا
بالآخر وہ منحوس لمحہ آپہنچا جب دشمن نے اپنی بزدلانہ چال چلی
اور اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کیلۓ بی بی کے ٹرک کے بالکل نذدیک دو خود کش دھماکے کروا دیے جس میں بی بی تو بال بال بچ گئیں مگر ان کے ایک سو اسی جانثار اور جیالے شہید ہو گۓ پانچ سو کے قریب زخمی ہوۓ
اس کے باوجود بھی دشمن اس باہمت اور بہادر خاتون کو جھکا نہ سکا ۔ اُن کا حوصلہ اور عزم دیدنی تھا ، جب دوسرے دن صبح سویرے آٹھ بجے بی بی ہسپتالوں میں اپنے زخمی کارکنان کے درمیان ان کی تیمار داری کے لیے بغیر سیکورٹی کے موجود تھیں
لیکن دوسری طرف ایک سو اسی جانیں بھی عیار دشمن کی پیاس نہ بجھا پائی تھیں اتنے بڑے سانحے کے بعد بھی اُن ڈرپوکوں کے کلیجے میں ٹھنڈ نہ پڑ سکی اور ٹھیک دو ماہ نو دن بعد شہید وزیر اعظم کے نام پر بنے لیاقت باغ کے پھولوں کو ایک اور امن کی فاختہ مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کے لہو سے سینچ دیا گیا
آپ سماج کی بد قسمتی سمجھیں یا سیاہ بختی اس پدر سری معاشرے میں مردانگی کو جرآت کا استعارہ سمجھا جاتا ہے
مگر مجھے یقین ہے کہ جب یہ سماج اور معاشرہ اپنی شعوری بلوغت کو پہنچے گا تو عورت یعنی بے نظیر کو جرآت کے استعارے کے طور پر استعمال کیا جاۓ گا بلاشبہ سانحہ کار ساز اور سانحہ لیاقت باغ پاکستان میں کی گئی جمہوری جدوجہد میں قربانیوں اور شہادتوں کی سب سے بڑی اور عظیم فرنود ہے ، مگر میں سمجھتا ہوں کہ اگر پاکستان کی تمام جماعتوں کی سیاسی جدوجہد ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیں اور دوسری طرف 18 اکتوبر کا سانحہ کار ساز اور 27 دسمبر کا سانحہ لیاقت باغ رکھ دیں تو دوسری طرف والا پلڑا کہیں بھاری رہے گا
آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ بے ضمیر معاشروں میں بے نظیر لوگ قتل کر دیے جاتے ہیں
اور اب میں اس امید واثق پر زندہ ہوں کہ سانحہ کاساز کے شہیدوں کا لہو اور بی بی شہید رانی کا لہو رائیگاں نہیں جاۓ گا اور ہم مستقبل میں اپنی آنے والی نسلوں کو ایک خوشحال اور روشن خیال جمہوری ملک دے پائیں گے ۔
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی