ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
18 اگست 2018ء کے روز عمران خان نے ملک کے وزیر اعظم کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا اور 3 سال سے زائد برسر اقتدار رہے۔ 10 اپریل کو ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور ہوئی۔ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی منظوری کے ساتھ ہی عمران خان کا 1332 روزہ دور حکومت ختم ہوا جو 3 سال 7 ماہ 23 روز بنتا ہے۔ اگر مہینوں کے حساب سے دیکھا جائے تو عمران خان 43 ماہ 23 روز تک ملک کے وزیر اعظم رہے دیکھا جائے۔ تو عمران خان ریلیف دینے کے وعدے پر برسراقتدار آئے مگر عوام کو ریلیف نہیں مل سکا ۔ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی سیاسی بحران شروع ہوا۔ چھ ماہ گزرنے کے باوجود بحران اب بھی جاری ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ بحران کب ختم ہو گا؟ عمران خان کی حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی اُن کے دور حکومت کی ناکامی کا سارا ملبہ موجودہ حکومت پر آن پڑا ہے اور عمران خان ایک بار پھر عوامی سطح پر مقبول لیڈر بن کر ابھرے ہیں مگر عوام کی مشکلات نہ صرف یہ کہ ختم نہیں ہوئیں بلکہ اُن میں اضافہ ہو چکا ہے۔ عمران خان بڑے جلسے کر رہے ہیں۔ دوسری طرف ان کے خلاف فارن فنڈنگ کیس میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ۔ عمران خان نے لانگ مارچ کا بھی اعلان کر رکھا ہے دوسری طرف وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں لانگ مارچ سے نمٹنے کیلئے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ لانگ مارچ کو روکنے پر پچاس کروڑ روپے کے لگ بھگ اخراجات کا اندازہ ہے جس کا بوجھ غریبوں پر پڑے گا۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ کسی سیاسی جماعت یا مسلح جتھے کو وفاق پر حملہ آور ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔ دوسری طرف وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو چکے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی کرسی اور اقتدار کی اس لڑائی میں غریب لوگ بری طرح کچلے جا رہے ہیں۔ سیلاب متاثرین آج بھی فریاد کناں ہیں۔ بحالی کا عمل شروع نہیں ہوا۔ متاثرین تک امداد نہیں پہنچی حالانکہ دوست ممالک سے اربوں کی امداد حاصل ہوئی ہے مگر حکومت کو متاثرین تک امداد پہنچانے کا وقت نہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ مسئلے کا حل یہی ہے کہ بحران کا حل سوچا جائے اور عوام کو مشکلات کا شکار نہ کیا جائے۔ ملک میں مسائل کا حل نئے انتخابات ہیں مگر حکومت مدت پوری کرنا چاہتی ہے اگر دیکھا جائے تو تقریباً صرف ایک سال رہ گیا ہے۔ حکومت کو مدت پوری کرنی دی جائے۔ اس کا بھی اپوزیشن کو فائدہ ہے کہ بد ترین مہنگائی اور بیروزگاری سے ہونیوالی نفرت مقتدر جماعتوں کے حصے میں آرہی ہے۔ عجب بات یہ ہے کہ حکومت ضمنی الیکشن کو بھی ملتوی کرانا چاہتی ہے۔ الیکشن کمیشن نے وزارت داخلہ کی جانب سے 90 روز کیلئے الیکشن ملتوی کئے جانے کی درخواست رَد کرتے ہوئے کہا کہ ضمنی الیکشن معمول کے مطابق ہوں گے۔ الیکشن کمیشن نے کراچی ڈویژن کے تمام اضلاع میں بلدیاتی انتخاب بھی شیڈول کے مطابق کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ضمنی الیکشن کی تاریخ 16 اکتوبر اور بلدیاتی کی 23 اکتوبر ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کا گورنر مقرر کیا گیا ہے۔ یہ بدلتے ہوئے حالات کی نشاندہی ہے۔ سیاسی حالات بتا رہے ہیں کہ جس طرح نوازشریف کو ایک طرف کرنے کیلئے عمران خان کو لایا گیا تھا ا۔ پل پل میں حالات بدلتے رہتے ہیں۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا کیا؟ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار سمیت بارہ میجر جنرلز کو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی ہے۔ ترقی پانے والوں میں میجر جنرل نعمان زکریا، میجر جنرل ظفر اقبال، میجر جنرل ایمن بلال صفدر، میجر جنرل انعام حیدر ملک ، میجر جنرل فیاض حسین، میجر جنرل محمد منیر افسر، میجر جنرل یوسف جمال، میجر جنرل کاشف نذیر، میجر جنرل عاصم گلریز، میجر جنرل سید عمار رضا اور میجر جنرل شاہد امتیاز شامل ہیں۔ پاک فوج کے تمام افسران ملک و قوم کا سرمایہ ہیں۔ وسیب کے لوگ مبارکباد دینے کے ساتھ عرصہ سے استدعا کرتے آرہے ہیں کہ ملتان، ڈی جی خان اور خان پور کے منظور شدہ کیڈٹ کالجوں کو بلا تاخیر فنکشنل ہونا چاہئے۔ وسیب کے علاوہ سندھ اور بلوچستان میں بارشوں اور سیلاب سے ہونیوالی تباہی کے نتیجے میں کپاس اور چاول کی فصل ختم ہو چکی ہے۔ البتہ جو علاقے آفت سے محفوظ تھے وہاں دوسری آفت یہ آئی ہے کہ کپاس اور چاول کے نرخ ایک دم گر گئے ہیں۔ کپاس جو کہ بارہ سے پندرہ ہزار روپے من تک چلی گئی تھی وہ پانچ ہزار روپے من تک آگئی ہے۔ اس سے کاشتکاروں کو کھربوں روپے کے نقصان کا سامنا ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ کپاس سے بننے والی مصنوعات کے نرخ ایک فیصد بھی کم نہیں ہوئے بلکہ دیکھا جائے تو مہنگائی میں مزید اضافہ ہو چکا ہے اور تو اور غریب کی دسترس سے سبزیاں بھی باہر ہو چکی ہیں۔ آگے بھی غریبوں کیلئے بہتر حالات کی کوئی خوشخبری نہیں ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)نے کہا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی اور بیروزگاری مزید بڑھے گی۔ کرنٹ اکائونٹ خسارے کا شکار رہے گا۔ حکومت اور ہمارے سیاستدان بہتری کی طرف توجہ نہیں دے رہے۔ عوام مشکلات کا شکار ہیں خصوصاً سرائیکی وسیب میں صورتحال ابتر ہے کہ وسیب میں بیروزگاری کے خاتمے کیلئے آج تک ایک بھی ٹیکس فری انڈسٹریل زون نہیں بنایا گیا۔ صنعتی ترقی نہیں ہونے دی گئی۔ جاگیردار سیاستدانوں کی جہالت اور وسیب کا صوبہ نہ ہونے کی وجہ سے وسیب میں آج تک ترقی کا انفاسٹرکچر نہیں بن سکا۔ وسیب کے لوگوں کے روزگار کا دورمدار زرعی معیشت پر ہے جو کہ قدرتی آفت اور مافیاز کی شدید کرپشن سے تباہ ہو چکی ہے۔ وسیب کے لوگ کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔ کیا وسیب کے غریب عوام کی مشکلات کا ازالہ ہو گا؟
یہ بھی پڑھیے
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر