آفتاب احمد گورائیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاست کے علاوہ دوسرے موضوعات پر میں نے بہت کم لکھا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں خبروں اور واقعات کے برپا ہونے میں تیزی اتنی ہے کہ کبھی کسی اور موضوع پر لکھنے کا خیال ہی نہیں آیا۔ اس لئے بھی سوچا کہ جزائر فجی اور کریباٹی کے سفر کے بارےضرور لکھنا چاہئیے۔ میرا اپنے کسی سفر کے بارے لکھنے کا یہ پہلا موقع ہے اس لئے زیادہ تر توقع یہی ہے کہ تحریر کافی کمزور ہوسکتی ہے لیکن پڑھنے والے اپنا ارادہ مضبوط رکھیں اور کوشش کر کے پوری تحریر پڑھ لیں جس کے لئے راقم تہہ دل سے مشکور ہوگا۔ جن دوستوں کو نہیں معلوم ان کی توجہ کے لئے بتاتا چلوں کہ میں ایک انٹرنیشنل این جی او میں کام کرتا ہوں اور مجھے اکثر اپنےکام کے سلسلے میں مختلف ملکوں میں جہاں جہاں ہمارے پراجیکٹس ہیں وہاں جانے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشنز کے پراجیکٹس عام طور پر غریب یا ترقی پذیر ممالک میں ہی ہوتے ہیں، ان میں ایسے ممالک بھی ہوتے ہیں جن کا نام بھی عام لوگوں نے کم ہی سنا ہوتا ہے۔
حال ہی میں ایسے ہی ایک ملک (کریباٹی جزائر) میں اپنے کام کے سلسلے میں جانے کا اتفاق ہوا تو پہلی دفعہ یہ خیال آیا کہ کیوں نہ اس سفر کا احوال لکھا جائے اور دوستوں کو بھی اس سفر کی دلچسپیوں میں شامل کیا جائے۔ ریپبلک آف کریباٹی کل اکتیس جزائر پر مشتمل ایک ملک ہے جس کی کل آبادی ایک لاکھ اسی ہزار کے قریب ہے۔ کریباٹی کا دارالحکومت ٹراوا ہے۔ میری منزل بھی ٹراوا ہی تھی۔ ٹراوا کی آبادی لگ بھگ پچاس ہزار ہے اور دارالحکومت ہونے کے ناطے ٹراوا ہی کریباٹی کے باقی سارے جزائر میں سے سہولتوں کے حساب سے بہتر ہے۔ جنگ عظیم دوئم میں جاپان نے ٹراوا پر قبضہ کر لیا تھا اور اس جنگ میں کوئی ساڑھے سات سو کے قریب مقامی افراد بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ جاپان کے بعد کریباٹی جزائر سلطنت برطانیہ کی حاکمیت میں بھی رہے۔ سال انیس سو اناسی میں کریباٹی نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی اور اسے ریپبلک آف کریباٹی کا نام دیا گیا۔ یہاں صدارتی نظام رائج ہے اور تیس کے قریب اراکین پارلیمنٹ کا ہر چار سال کے بعد انتخاب کیا جاتا ہے۔ تین سیاسی جماعتیں یہاں کام کر رہی ہیں۔ انتخابات اورانتقال اقتدار کا مرحلہ نہایت پرامن اور شفاف ہوتا ہے۔ ان سارے مراحل میں کبھی کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا۔
یہاں زندگی کی رفتار خاصی آہستہ ہے۔ ماہی گیری اور زراعت یہاں عام لوگوں کا ذریعہ معاش ہے۔ زراعت بھی بہت چھوٹے لیول پر ہے۔ چھوٹی چھوٹی دوکانیں بھی اکثر گھروں میں کھلی نظر آتی ہیں جہاں روزمرہ زندگی کی ضروری اشیا مل جاتی ہیں۔ ٹراوا چونکہ دارالحکومت ہے اس لئے یہاں سرکاری ملازمت اور چھوٹے موٹے کاروبار کے ذرائع بھی میسر ہیں لیکن کریباٹی کے باقی جزائر پر ملازمت کے مواقع بھی نسبتا کم ہیں۔ اگر یہاں کچھ سہولیات مہیا کر دی جائیں تو سیاحت سے اچھی خاصی آمدنی ہو سکتی ہے۔
کریباٹی کی سب سے اہم بات اس کا انٹرنیشنل ڈیٹ لائن پر واقع ہونا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ایک طرف کریباٹی میں ایک تاریخ ہوتی ہے اور انٹرنیشنل ڈیٹ لائن کے دوسری طرف ایک دن پچھلی تاریخ ہوتی ہے۔ دنیا میں سب سے پہلے سورج کریباٹی میں ہی طلوع ہوتا ہے اس لحاظ سے کریباٹی کو صحیح معنوں میں دنیا کا کنارہ کہا جا سکتا ہے۔ کریباٹی کا موسم سارا سال گرم ہی رہتا ہے۔ گرمی کے ساتھ حبس بھی کافی ہوتا ہے۔
میرا واسطہ یہاں منسٹری آف فنانس اور منسٹری آف ہیلتھ کے ساتھ تھا لیکن یہاں کا کلچر کچھ ایسا ہے کہ لگتا ہے کام یہاں پہلی ترجیح نہیں ہے۔ کوئی بھی کام کروانے کے لئے بہت ڈپلومیسی سے کام لینا پڑتا ہے۔ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ میرا یہاں سات دن قیام رہا جس میں صرف تین دن کام ہو سکا۔ جمعرات والے دن میں صبح ساڑھے دس بجے یہاں پہنچا تو میرا خیال تھا کہ جمعرات کے روز سے ہی کام شروع کر دوں گا لیکن بار بار فون کرنے کے بعد شام چار بجے منسٹری آف ہیلتھ کی پراجیکٹ منیجر جو ہمارا پراجیکٹ بھی دیکھتی ہے اپنی اسسٹنٹ کے ساتھ ہوٹل پہنچی اور اس روز ہم لوگ صرف اپنا ایک ہفتے کے کام کا ایجنڈا ہی فائنل کر سکے جس میں کام کے دن صرف تین ہی نکلے یعنی جمعہ، سوموار اور منگل کیونکہ ہفتہ اتوار کو یہاں چھٹی ہوتی ہے جبکہ بدھ والے دن یہاں ٹیچرز ڈے کی وجہ سے پبلک ہالیڈے تھا۔ کریباٹی شائد واحد ملک ہی ہو گا جہاں ٹیچرز ڈے کو پبلک ہالیڈے قرار دیا گیا ہے۔ جمعرات کو میری واپسی کی فلائیٹ تھی یوں صرف تین دن ہی کام ہو سکا۔
منسٹری آف ہیلتھ اور منسٹری آف فنانس کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ کوئی بہت خوشگوار نہیں رہا، یہ ناخوشگواری ان کے کام کرنے کی سپیڈ کے حوالے سے ہے ورنہ عام زندگی میں تو یہاں کے لوگ بہت ملنسار اور خوش مزاج ہیں لیکن ان سے کام نکلوانا نہایت مشکل کام ہے۔ سرکاری دفاتر میں افسر شاہی کا راج ہے وقت پر اور وعدے کے مطابق کام نہ کرنے میں یہ لوگ ہم سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ ایک کام کے لئے آپ کو کئی کئی بار یاد دہانی کروانی پڑتی ہے۔ ایک تو زبان کا مسئلہ ہے دوسرا ہماری طرح ان کا بھی کام کرنے کو دل نہیں کرتا۔ شائد اس کی ایک وجہ یہاں بہت زیادہ سرگرمیاں نہ ہونا بھی ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ کام کرنے کے عادی نہیں ہو سکے۔ میری اس تحریر کا مقصد قطعی طور پر کسی کی دل آزاری کرنا نہیں بلکہ یہ میرا مشاہدہ ہے جو غلط بھی ہو سکتا ہے۔
ٹرانسپورٹ کے لئے ہم نے مقامی کار رینٹل کمپنی سے ایک ہفتے کے لئے کار ہائر کر رکھی تھی کیونکہ ٹیکسی وغیرہ کا یہاں رواج نہیں ہے۔ ویک اینڈ پر چونکہ ہم لوگ فارغ تھے اس لئے ایک دوسرے جزیرے پر جانے کا پروگرام بنا جس کا نام نارتھ ٹراوا ہے۔ ٹراوا اور نارتھ ٹراوا کے درمیان کوئی آدھ کلومیٹر کا سمندر حائل ہے جس میں اگر پانی کی سطح کم ہو تو آپ گھٹنے گھٹنے پانی میں پیدل چل کر بھی جا سکتے ہیں لیکن اگر پانی کی سطح زیادہ ہو تو کشتی کے ذریعے جانا پڑتا ہے۔ جس وقت ہم وہاں پہنچے تو پانی کی سطح خاصی کم تھی اس لئے ہم گھٹنے گھٹنے پانی میں پیدل چل کر ہی نارتھ ٹراوا پہنچ گئے۔ سمندر کا اتنا شفاف پانی میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھا کہ آپ پانی کے اندر پڑے ہوئے پتھر اور ریت بالکل صاف دیکھ سکتے ہیں۔ نارتھ ٹراوا میں کافی سارے ہٹ بنے ہوئے ہیں جن کو مقامی زبان میں منیبا کہا جاتا ہے۔ ہم نے بھی ایک ہٹ سلیکٹ کیا اور ایک مقامی ہوٹل سے ان کے مقامی بریڈ فروٹ چپس سے لطف اندوز ہوئے۔ بریڈ فروٹ ان کا مقامی پھل ہے جس کو چپس کی طرح کاٹ کر فرائی کر لیا جاتا ہے۔ واپسی پر پانی کی سطح زیادہ ہو چکی تھی اس لئے واپسی کا سفر کشتی کے ذریعے طے ہوا۔ اگلے روز اتوار کو ٹراوا کے ساتھ دو کلومیٹر لمبے سمندر کے اندر بنے ہوئے پل (اینڈرسن کاز وے) کے ذریعے جڑے ہوئے ایک دوسرے جزیرے بیسیو جانے کا اتفاق ہوا۔ بیسیو کے راستے میں جنگ عظیم دوئم کی یادگار ساحل سمندر پر نصب کچھ تباہ حال زنگ آلود جاپانی توپیں اور فوجی بیرکیں بھی نظر آتی ہیں۔
ٹراوا کو پرانی زنگ آلود گاڑیوں کا یارڈ بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ یہاں ہر قدم پر پرانی زنگ آلود گاڑیاں گھروں کے آس پاس پڑی نظر آتی ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ان پرانی گاڑیوں کے ڈسپوزل کا یہاں کوئی سسٹم نہیں ہے۔ جس ہوٹل میں ہمارا قیام تھا اسی ہوٹل میں نیوزی لینڈ کی ایک کمپنی کے کچھ لوگ بھی ٹھہرے ہوئے تھے جن کی کمپنی نے کریباٹی کی حکومت کے ساتھ ان پرانی گاڑیوں کو ٹراوا سے اٹھانے کا معاہدہ کیا ہوا ہے۔ یہ لوگ پچھلے آٹھ ماہ سے اس معاہدے پر کام کر رہے ہیں۔ پہلے ان گاڑیوں کا سروے کیا گیا ان پر نمبرز کی مارکنگ کی گئی اور اب ان گاڑیوں کو یہاں سے اٹھانے کا کام شروع ہو رہا ہے۔
آسٹریلیا سے چونکہ کریباٹی ڈائریکٹ کوئی فلائیٹ نہیں جاتی اس لئے مجھے بھی پہلے سڈنی سے فجی جانا پڑا جہاں فجی کے شہر نادی میں ایک رات میرا قیام تھا اور اگلے روز نادی سے ٹراوا کی فلائیٹ پکڑ کر میں ٹراوا پہنچا۔ فجی کے کسی شہر میں بھی میرا یہ پہلا قیام تھا۔ چونکہ میں رات کو نادی پہنچا اور صبح میری ٹراوا کی فلائیٹ تھی اس لئے نادی شہر میں گھومنے کا تو موقع نہیں ملا لیکن ائرپورٹ سے ہوٹل اور ہوٹل سے واپس ائرپورٹ آنے کے دوران مجھے نادی کافی بہتر شہر لگا۔ ساری بنیادی سہولیات بھی یہاں موجود ہیں۔ ائرپورٹ بھی ہمارے لاہور والے ائرپورٹ سے تو بڑا ہی ہے۔ فجی ایئرلائن کے جہاز بھی نئے اور سروس کافی اچھی ہے۔
ٹراوا سے واپسی پر میری فجی کے شہر نادی کے لئے فلائیٹ بارہ بجے تھی جس کے لئے میں تقریباً پونے دس بجے ائرپورٹ پہنچ گیا اور رینٹ اے کار کی گاڑی ائرپورٹ پر واپس کرنے کے بعد جب ڈیپارچر گیٹ پر پہنچا تو پتہ چلا کہ ائرپورٹ کا سکینر خراب ہے اس لئے بیگ کی مینول تلاشی ہو گی، اس مرحلے سے نبرد آزما ہونے کے بعد چونکہ میں نے انٹرنیٹ چیک ان کیا ہوا تھا اس لئے بورڈنگ پاس حاصل کرنے میں زیادہ ٹائم نہیں لگا۔ اس کے بعد جب امیگریشن چیک آوٹ کے لئے امیگریشن کے کاؤنٹر پر پہنچے تو پتہ چلا کہ امیگریشن آفیسر ابھی راستے میں ہے اور جلد ہی پہنچ جائے گا لیکن یہ جلد آنا تقریباً آدھے گھنٹے پر محیط تھا۔ گرمی اور حبس میں بغیر ائرکنڈیشن کے لائن میں کھڑا ہونا خاصا مشکل مرحلہ تھا۔ بہرحال تقریباً آدھے گھنٹے کے انتظار کے بعد امیگریشن آفیسر پہنچا اور امیگریشن کے مرحلے سے گزرنے کے بعد جب لاونج میں پہنچے تو حسب توقع یہاں بھی ائرکنڈیشن کی سہولت موجود نہیں تھی اورتقریباً ایک گھنٹہ اسی گرمی اور حبس میں اونچی دیوار پر لگے دو پنکھوں کے ساتھ ہی گزارا کرنا تھا۔ بہرحال اس وقت کو خوشگوار طریقے سے گزارنے کے لئے میں نے اردگرد کے ماحول کا مشاہدہ کرنا شروع کر دیا۔ لاونج کے شیشے کے پار دو چھوٹے جہاز پارک تھے جبکہ ہمیں فجی کے شہر نادی لے کر جانے والی فلائیٹ بھی پہنچ چکی تھی۔ شیشوں کے پار سے مسافروں کو اترتے ہوئے دیکھنا، آنے والے مسافروں کے سامان کا اتارا جانا اور ہمارے سامان کا جہاز میں لوڈ کیا جانا، یہ سارے مراحل دیکھنا کافی دلچسپ مرحلہ تھا جس میں وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا اور ہمارا جہاز میں سوار ہونے کا وقت ہو گیا۔ فلائیٹ وقت پر تھی اور مقررہ وقت پر تین بجے نادی پہنچ گئی۔ سڈنی کے لئے میری فلائیٹ سے پہلے نادی ائرپورٹ پر تین گھنٹے کا ٹرانزٹ تھا جس کے دوران بچوں کے لئے ڈیوٹی فری سے کچھ چیزیں خریدیں اور باقی وقت ٹوئیٹر پر پاکستانی سیاست کے نت نئے رنگ دیکھ کر سڈنی والی فلائیٹ میں سوار ہو کرمقررہ وقت پر رات پونے دس بجے سڈنی پہنچ گئے۔
خوش رہو اہل وطن ہم تو سفر کرتے ہیں۔
۰
Twitter: @GorayaAftab
یہ بھی پڑھیے:
پی ڈی ایم کا ملتان جلسہ ۔۔۔آفتاب احمد گورائیہ
تحریک کا فیصلہ کُن مرحلہ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ
چار سالہ پارلیمانی مدت، ایک سوچ ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر