ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے کے مصداق تحریک آزادی کیلئے قربانیاں دینے والے مشاہیر کا نام آج بھی نصاب کی کتابوں میں نہیں ہے جبکہ حریت پسندوں کے قاتلوں کی اولادیں ایوانوں میں مسلسل موجود نظر آ رہی ہیں۔ جھوک سرائیکی ملتان کی طرف سے منعقد کی گئی رائے احمد خان کھرل کانفرنس میں پروفیسر ڈاکٹر مقبول حسن گیلانی نے کہا کہ آج عمران خان سمیت سب لوگ آزادی کی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم عوام کو حقیقی آزادی دلائیں گے جبکہ ان تمام جماعتوں میں ان لوگوں کی اولادیں موجود ہیں جنہوں نے آزادی کیلئے لڑنے والوں کو قتل کیا۔ رائے احمد خان کھرل کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو یہ بات حقیقت کے طو رپر سامنے آتی ہے۔ بزرگ دانشور اور سینئر صحافی مسیح اللہ خان جام پوری نے کہا کہ تحریک آزادی کی تاریخ کو نئے سرے سے ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ اگر آج ہم اپنی نسل کو رائے احمد خان کھرل کے بارے میں نہیں بتا سکتے اور ان کی قربانیوں کا تذکرہ نہیں کر سکتے تو نصاب میں یہ بھی نہیں بتا سکتے کہ رائے احمد خان کھرل کی جدوجہد کیا تھی اور رائے احمد خان کھرل کو قتل کرانے والے کون تھے اور ان کو غداری کے صلے میں کتنی جاگیریں ملیں ؟ تو پھر بچوں کو تاریخ اور نصاب پڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ قوم کے ہیروز کو یاد رکھنا ضروری ہے اور اس طرح کی تقاریب کا انعقاد نئی نسل کے علم و آگاہی کیلئے نہایت ہی سود مند ہے۔ سرائیکی رہنما ملک جاوید چنڑ اور شریف خان لاشاری نے بجا اور درست کہا کہ ثبات صرف تغیر کو ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ چیزیں بدلتی رہتی ہیں۔ رائے احمد خان کھرل کی قربانی کے نتیجے میں انگریزوں نے وسیب کے تمام لوگوں کیلئے جانگلی کا لفظ استعمال کیا حالانکہ وہ خود جانگلی تھا کہ کسی کے گھر پر قبضہ کرنا کسی مہذب انسان کا شیوہ نہیں۔ انگریزوں نے قبضہ کے بعد جغرافیہ بھی بدل دیا۔ جنگ آزادی 1857ء میں ملتان ڈویژن کے تین ضلعے ہیں ایک ضلع ملتان دوسرا ضلع جھنگ اور تیسرا گوگیرا ‘ اس وقت لائل پور جھنگ کی تحصیل اور ملتان کمشنری کاحصہ تھی جسے انگریزوں نے وسیب سے چھین کر آبادکاری کے نام پر اپنے وفاداروں کو دے دیا اور مقامی لوگوں کو دوسرے درجے کا شہری بنا دیا۔گوگیرہ کا علاقہ اوکاڑہ سے آگے تک کا ہے۔ انگریز حملہ آور نے صرف جغرافیہ ہی تبدیل نہ کئے بلکہ مقامی زبان و ثقافت کو بھی بری طریقے سے مسمار کیا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جو بھی حملہ آور آیا اس نے سب سے پہلا حملہ خطے میں بسنے والے لوگوں کی زبان و ثقافت پر کیا اور دھرتی کے وارثوں کو دوسرے درجے کا شہری بنایا ۔ اگر ہم زیادہ دور نہ جائیں تو انگریز دور کو ہی لے لیں ، انہوں نے بھی خطہ کی صوبائی حد بندیاں غیر فطری کھینچیں ۔ انگریز کا ساتھ جاگیرداروں ، سول بیورو کریسی اور ملٹری بیورو کریسی نے دیا ۔ یہ آخر وقت تک انگریزوں کے وفادار رہے ۔ جن لوگوں نے انگریزوں کی مزاحمت کی اور ان سے جنگ کرتے ہوئے شہید ہوئے ، آج ان کی قبریں نظر نہیں آتیں جبکہ زیادہ دور نہ جائیں اور ملتان ہی کو دیکھ لیں تو وہاں حملہ آور انگریزوں کی بڑی بڑی قبریں موجود ہیں اور حکومت کی طرف سے ان کی دیکھ بھال کیلئے سالانہ فنڈ مہیا کیا جاتا ہے۔ ان قبروں کے ساتھ ساتھ قلعہ کہنہ قاسم باغ پر ایک توپ بھی رکھی گئی ہے جس کی یہ تعریف لکھی گئی ہے کہ یہ توپ فتح ملتان پر کام آئی ۔ انگریز کے وفادار سرداروں ‘ جاگیرداروں ‘ تمنداروں ‘ گدی نشینوں اور انگریز میں شامل ’’ غلاموں‘‘ کے اس کردار کو ظاہر کرنے کی ضرورت ہے جو کہ وسیب کے زمین زادوں اور حریت پسندوں کے خلاف ادا کیا گیا ۔ انگریز دور سے پہلے ملتان کی طرح پشاور بھی الگ صوبہ تھا ‘ سکھوں نے صوبہ ملتان اور صوبہ پشاور پر بھی قبضہ کیا اور اسے پنجاب میں شامل کیا ۔ 1857ء کے پنجاب میں پشاور ڈویژن کا ایک ضلع پشاور ‘ دوسرا ضلع کوہاٹ اور تیسرا ضلع ہزارہ شامل ہے۔ 9نومبر 1901ء وائسرئے لارڈ کرزن نے وسیب کی بہشت جیسی سر زمین جس میں ڈیرہ اسماعیل خان ‘ کوہاٹ اور ٹانک ریاست وغیرہ شامل تھی، پشتونوں کے حوالے کر دی اور ان کیلئے ایک نیا صوبہ سرحد بنا دیا اسی طرح وسیب کو صوبہ ملتان بھی واپس ملنا چاہئے تھا۔ یہاں یہ سوال ہے کہ انگریز سامراج نے پشتونوں کو وہ صوبہ دینے کی بات کی جو ان کی ملکیت ہی نہ تھا جبکہ ویسب کا صوبہ ملتان محض اس وجہ سے واپس نہ کیا کہ وسیب کے غدار جاگیرداروں اور گدی نشینوں کو چھوڑ کر باقی کسی نے انگریز کو پسند نہ کیا ۔ اس کی سزا سرائیکی قوم آج تک بھگت رہی ہے ‘ انگریز کے وفادار کچھ جاگیردار آج بھی کہتے ہیں کہ انگریز کے ہاں بہت انصاف تھا ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر انگریز منصف مزاج ہوتا تو دوسرے ملکوں پرقبضہ کیوں کرتا؟ آج کل حقیقی تبدیلی کا نعرہ بہت سننے میں آ رہا ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی روٹی ، کپڑا اور مکان کے حوالے سے تبدیلی کی بات کی ، عمران خان بھی تبدیلی کی بات کرتے ہیں اور میاں نواز شریف بھی ترقی کے حوالے سے تبدیلی کے دعوے کرتے ہیں لیکن عملی طور پر دیکھتے ہیں تو تمام جدوجہد عنانِ اقتدارپر چہروں کی تبدیلی کے سوا کچھ نہیں۔ آج اگر ضرورت چہروں کی نہیں بلکہ سوچ بدلنے کی ہے۔ آج موبائل فون کی ایک چوٹی سی سم میں پوری کائنات سما چکی ہے۔ آج لوگوں کو بے وقوف بنانے کی بجائے انہیں حقیقی ترقی میں شریک کیا جائے۔ پاکستان کے اصل مسائل کی طرف توجہ دی جائے ، پاکستان میں ربورٹ نہیں انسان بستے ہیں ، انسانوں کی سوچ بھی ہوتی ہے، تہذیب بھی ہوتی ہے، ثقافت بھی ہوتی ہے ، زبان بھی ہوتی ہے ان کے احترام کی ضرورت ہے۔ پاکستان مختلف زبانوں و ثقافتوں پر مشتمل قوموں کا خوبصورت گلدستہ ہے آج اس مصنوعی اور فرسودہ سوچ کو دفن کرنے کی ضرورت ہے، جس میں قوموں اور ان کی ثقافتوں کی نفی کی گئی ، آج سرائیکی وسیب کو شناخت اور صوبہ دینے کے ساتھ تہذیبی و ثقافتی حقوق دینے کی بھی ضرورت ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر