نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وہی خطرناک کھیل دوبارہ!||عاصمہ شیرازی

شیخ رشید کا آن دا ریکارڈ یہ اعتراف اُس خدشے کا اظہار تھا جو آج حقیقت بن کر سامنے آ چکا ہے۔ سوال پھر وہیں کہ اُس وقت کی حکومت اور ایجنسیاں کہاں مصروف تھیں؟ بجٹ منظور کروا رہی تھیں یا سیاسی جوڑ توڑ کو یقینی بنا رہی تھیں؟

عاصمہ شیرازی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گذشتہ چند ہفتوں سے سوات اور خیبر پختونخوا کے سرحدی علاقوں سے آنے والی اطلاعات نے پریشان کر رکھا ہے۔ چند دنوں میں مقامی سیاسی رہنماؤں، صحافیوں اور سماجی کارکنوں کے ذریعے ملنے والی اطلاعات حیران کُن ہیں۔

سوات میں ہونے والے دھماکے اور اُس کے نتیجے میں پڑنے والے گڑھے کے حجم اور بارود کی مقدار سے اندازہ ہو رہا ہے کہ بات حدود اور قیود سے باہر اور خدشات حقیقت کا روپ دھار چُکے ہیں۔

ہم دائروں کے سفر میں ہیں۔ موت کے کنویں میں بھی دائروں میں ہی گھوما جاتا ہے۔ مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ تماشائی بھی کھیل کا حصہ ہیں اور تالیاں بجانے والے ہاتھ اگر سنگ باری پر اُتر آئیں تو کھیل ختم ہو سکتا ہے۔

ہر دس سال بعد آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کھیل وہیں سے شروع ہو جاتا ہے جہاں پر ختم ہوا تھا؟ آخر کیوں ہم وہیں آ کھڑے ہوتے ہیں جہاں سے سفر کا آغاز ہوتا ہے؟ کبھی فرقہ ورانہ تصادم کی فلم چل پڑتی ہے، کبھی طالبانائزیشن کا ڈرامہ، اور کبھی لشکروں، داعشوں اور جیشوں کی کہانیاں۔۔۔ وقت بدل جاتا ہے لیکن یہ پُراسرار ہیولے نہ پیچھا چھوڑتے ہیں اور نہ ہی اپنا کام۔

پاکستان

کیا وجہ ہے کہ ہم بازگشت بن جاتے ہیں؟ ہر دس سال کے بعد یہ آوازیں لوٹ آتی ہیں، سائے گہرے ہو جاتے ہیں، ہیولے حقیقت بن کر واپس آتے ہیں۔ ہم جنگ لڑتے ہیں اور پھر جنگ ہم سے ہی لڑ پڑتی ہے۔ ہم پالیسیاں بناتے ہیں اور عملی تصویر کوئی اور پیش کر دیتا ہے۔ مجاہدین سے لے کر ’کی بورڈ واریئرز‘ تک ہر کام اُلٹا پڑتا ہے، پراجیکٹ افغانستان سے پراجیکٹ عمران تک سب تدبیریں الٹی پڑ جاتی ہیں؟

ضیا الحق کے دور کی پالیسیوں سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں تو فرقہ واریت روپ بدل کر سامنے آ جاتی ہے؟ مشرف کی بظاہر روشن خیالی یو ٹرن لیتی ہے تو طالبانائزیشن خوفناک بھوت بن کر سامنے آ کھڑی ہوتی ہے، غرض ہم ہر دس سال بعد خود کو گذشتہ دہائی کے سرے پر کھڑے ملتے ہیں۔

اسی ہفتے برسلز کے انٹرنیشنل کرائسس گروپ نے پاکستان میں خوفناک فرقہ ورانہ تصادم سے متعلق خدشات کا اظہار کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پنجاب کے سینے میں پلتی مذہبی تنظیمیں ایک جانب ہیں تو دوسری جانب پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان، کوہاٹ اور کرم میں فرقہ وارانہ تصادم کے لیے آستینوں میں چھپی نا جانے کون کون سی انتہا پسند تنظیمیں ریاست کو یرغمال بنانے پر تُلی ہیں۔

خیبر پختونخوا کے سیٹلڈ علاقوں میں ماضی میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے شکار عوام اب پھر خوف کا شکار ہیں، گذشتہ دور کے خونی واقعات آنکھوں میں واپس آ گئے ہیں، خدشات سر اُٹھا چکے ہیں اور سوالات، جوابات سے بے نیاز غصے میں بدل رہے ہیں۔

مذہبی تنظیمیں

کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد وجود میں آنے والی حکومت نے غلامی کی زنجیریں توڑیں یا نہ توڑیں مگر ہماری ریاست کے پاؤں میں بیڑیاں ضرور ڈال دی ہیں۔ گذشتہ برس سابق وزیر داخلہ شیخ رشید کا یہ اعتراف کہ امریکی انخلا اور کابل پر افغان طالبان کے قبضے کے بعد کئی کالعدم تنظیموں کے جنگجو پاکستان میں داخل ہو چکے ہیں شاید خبروں میں زیادہ جگہ نہ بنا سکا مگر چونکائے بغیر بھی نہ رہ سکا۔

شیخ رشید کا آن دا ریکارڈ یہ اعتراف اُس خدشے کا اظہار تھا جو آج حقیقت بن کر سامنے آ چکا ہے۔ سوال پھر وہیں کہ اُس وقت کی حکومت اور ایجنسیاں کہاں مصروف تھیں؟ بجٹ منظور کروا رہی تھیں یا سیاسی جوڑ توڑ کو یقینی بنا رہی تھیں؟

افغان طالبان کے ساتھ مزاکرات کا جو سلسلہ گذشتہ دور میں شروع ہوا اُس عمل میں کون کون شریک تھا اور یہ عمل کس کس کی یقین دہانی کے ساتھ چلتا رہا؟ امن معاہدے کیوں ٹوٹتے رہے اور زیتون کی شاخ کن ضمانتوں کے عوض پیش کی گئی؟

افغان طالبان نے تحریک طالبان پر اپنا اثرورسوخ کیوں استعمال نہ کیا اور کتنے لوگوں نے اسلحہ پھینک کر پاکستان کے آئین کے سامنے خود کو سرنڈر کیا؟ پارلیمان کے اجلاسوں میں سیاسی جماعتوں نے یہ سوال پوچھے مگر حکومت غائب رہی اور ریاست خاموش۔

سوات

خدانخواستہ 2007 والی صورتحال واپس آئی تو کیا ہو گا؟ انتہا پسند دہشت گرد اب کی بار بلاتعطل طویل لڑائی لڑنے کی بات کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب تین صوبوں بشمول گلگت بلتستان اور کشمیر میں حکمران جماعت انتخابات کے لیے کسی حد تک جانے کو تیار ہے۔ اہم تعیناتی ڈی کا وہ گول بن گئی ہے جسے ہر کوئی ڈی میں پھینک کر کامیاب ہونا چاہتا ہے، سیلاب میں ڈوبے کمزور پاکستان کے پاس کوئی معاشی منصوبہ نہیں اور ملک مسلسل محاذ آرائی کی جانب بڑھ رہا ہے۔

اس سارے کھیل میں مثبت پہلو صرف یہ ہے کہ سوات سمیت تمام علاقوں کے عوام اب تماشائی نہیں رہے بلکہ سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں، ان انتہا پسند تنظیموں سے کسی طور مذاکرات کے حامی نہیں بلکہ ان کی سرکوبی میں بے خوف ہو کر ریاست کے ساتھ کارروائی کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

عوام آُٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اُن کی وجہ سے ریاستی ادارے بھی پالیسی تبدیل کر رہے ہیں۔ اُمید ہے کہ موت کے کنویں کا یہ کھیل تماشائیوں کے بغیر زیادہ دن چل نہیں پائے گا۔

عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے

 بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام

About The Author