نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گاندھی جی اور دہلی کے مسلم سبزی فروش…….|| وجاہت مسعود

گاندھی جی کا احوال موجودہ سیلاب اور امدادی سرگرمیوں کی صورت حال سے یاد آیا۔ اس وقت 2005 ءکے زلزلے اور 2010 کے سیلاب کی نسبت غیر ملکی امداد کا حجم کم ہے۔

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد حسن عسکری کا تنقیدی مجموعہ ’انسان اور آدمی‘ 1953ء میں شائع ہوا۔ یہ عنوان ’آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا‘ سے ماخوذ نہیں تھا بلکہ عسکری صاحب کی فکر اس زمانے میں غالب کے برعکس ’آدمی‘ کو ’انسان’ سے برتر سمجھتی تھی۔ ان کے نزدیک آدمی وہ تھا جو کچھ حیاتیاتی ضروریات اور نفسیاتی تقاضوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اور پھر مر جاتا ہے۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی روشن خیالی او ر ’انسان دوستی’ کے رجحانات سے عسکری صاحب کو سیاست کی بو آتی تھی۔ ان کی رائے تھی کہ فرد سے ’اخلاقی اور سیاسی توقعات’ باندھنے سے انسان بھلے پیدا ہو، نہ ہو، گوشت پوست سے بنا آدمی مسخ ہو جائے گا۔ سیدھے لفظوں میں عسکری صاحب بودلیئر، جیمز جوائس اور ڈی ایچ لارنس وغیرہ سے متاثر تھے اور ’مارکسی تصور انسانیت’ کے ناقد تھے۔ ان مباحث پر ایک صدی گزر چکی۔ تاریخ اب ’جفائیں دیکھ لیاں، کج ادائیاں دیکھیں‘ کی منزلوں میں ہے۔ فاشزم مسترد ہو چکا، مارکسزم منہدم ہو گیا۔ اب جمہوریت سرمائے اور مقبولیت پسند تعصب کے گٹھ جوڑ سے دوچار ہے۔ کھلی منڈی اور معاشی انصاف میں توازن کا سوال ہے۔ سیاسی چرب زبانی کی یلغار میں فرد کی بنیادی آزادیوں کا تحفظ کیسے یقینی بنایا جائے؟ جنگ، مذہبی تعصب، صنفی امتیاز، معاشی استحصال اور نسلی تفرقے جیسی برائیاں بدستور موجود ہیں۔ آدمی اور انسان کی اس کشمکش میں ایک کردار ’رہنما‘ کا بھی ملتا ہے۔ نیند آتی ہے مگر جاگ رہا ہوں سرخواب۔ رہنما سے مراد محض حکمران نہیں، بلکہ ایسا فرد جو خاک کے پتلوں کی قسمت میں بنیادی اور دیرپا بہتری لاتا ہے۔ محض حکمران ہونا اس معرکے میں کام نہیں آتا۔ کس کمبخت کو یاد ہے کہ سکندر اعظم کون سی صدی قبل مسیح میں زندہ تھا؟ درویش کی رائے میں بیسویں صدی نے کم از کم تین عظیم سیاسی رہنما پیدا کیے، مہاتما گاندھی، مارٹن لوتھر کنگ اور نیلسن مینڈیلا۔ آج گاندھی جی کا کچھ ذکر رہے۔ یاد رہے کہ 30 جنوری 1948 کو گاندھی جی کے قتل کے بعد پاکستان میں سرکاری طور پر سوگ منایا گیا تھا، سرکاری دفاتر بند اور قومی پرچم سرنگوں رہا تھا۔

جنوری 1948 میں کراچی اور دہلی میں ہندو مسلم فسادات ہو رہے تھے، ادھر سردار پٹیل نے پاکستان کے 55 کروڑ روپے نیز فوجی سامان روکنے کا اعلان کر دیا۔ گاندھی جی یہ اطلاع ملتے ہی 13 جنوری کو مرن برت پر چلے گئے۔ یہ گاندھی جی کا سردار پٹیل سے براہ راست تصادم تھا۔ ان کی عمر 78 برس اور وزن صرف 107 پاﺅنڈ تھا۔ بھارتی حکومت نے گھبرا کر 16 جنوری کو متعلقہ رقم پاکستان دینے کا اعلان کر دیا لیکن گاندھی جی مطمئن نہیں ہوئے۔ مولانا آزاد نے گاندھی جی سے مل کر مرن برت ختم کرنے کی شرائط دریافت کیں۔ مولانا نے اپنی خود نوشت میں اس ملاقات کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ گاندھی جی کی شرائط دیکھیے : 25 جنوری کو خواجہ بختیار کاکی کا سالانہ عرس حسب معمول منعقد ہو۔ دہلی کی سینکڑوں مساجد میں قائم پناہ گزین کیمپ ختم کیے جائیں۔ پرانی دہلی اور ریلوے ٹرینوں میں مسلمانوں کی نقل و حرکت کو تحفظ دیا جائے۔ پاکستان سے واپس آنے والے مسلمانوں سے تعرض نہ کیا جائے۔ مسلمانوں کا معاشی مقاطعہ نہ کیا جائے۔ مسلم آبادیوں میں ہندو پناہ گزینوں کی آبادکاری مسلمانوں کی اجازت سے ہو گی۔ ان شرائظ کی تکمیل کا یقین ہونے کے بعد 18 جنوری کو گاندھی جی نے مولانا آزاد کے ہاتھ سے جوس کا گلاس پیا۔ دہلی میں سبزیوں کی قلت پیدا ہو چکی تھی۔ 25 جنوری کو اپنی پرارتھنا میں گاندھی جی نے فرمایا، ’لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ دلی میں سبزی نہیں ملتی۔ میں کہتا ہوں، دلی میں سبزی مسلمان بیچتے تھے۔ تم نے ان کو مار بھگایا۔ ان کی دکانیں لوٹ لیں۔ تو اب سبزی کہاں سے ملے گی۔ مسلمان چلے گئے تو سبزی کا کال تو پڑنا ہی تھا، سبزی مانگتے ہو تو مسلمانوں کو پھر ان کے گھروں میں لے آﺅ‘۔ ایسا کیسے ہوتا؟ گاندھی جی نتھورام گاڈسے کا نشانہ بن گئے۔ سیاست کے دو رخ ہیں۔ مانو اسے عبادت سمجھو اور چاہو تو مفادات کا گھناﺅنا کھیل۔

گاندھی جی کا احوال موجودہ سیلاب اور امدادی سرگرمیوں کی صورت حال سے یاد آیا۔ اس وقت 2005 ءکے زلزلے اور 2010 کے سیلاب کی نسبت غیر ملکی امداد کا حجم کم ہے۔ سیاسی بحران کے باعث حکومتی ردعمل کمزور ہے۔ ہم وطنوں کے امدادی جذبے میں بھی پہلے جیسی گرم جوشی نہیں۔ پاکستانی عوام اپنے ہم وطنوں کی مدد میں 107 ویں نمبر پر ہیں۔ تاہم پاکستان اس رینکنگ میں 2011 ءمیں 34 اور 2013 ءمیں 53 نمبر پر تھا۔ اس زوال کا تعلق عوام کی معاشی بدحالی اور سیاسی عدم استحکام سے ہے۔ کہیں کہیں سے سول سوسائٹی کے اوجھل ہونے کی آواز بھی سنائی دیتی ہے۔ سول سوسائٹی کا تصور محض فلاحی اور خیراتی کاموں تک محدود نہیں۔ جمہوری بندوبست میں سول سوسائٹی سرکاری تائید سے بے نیاز وہ طبقہ ہے جو محض شہری ہونے کے ناتے غیر مقبول سوال اٹھاتا ہے۔ سیاست دان کو عوامی تائید کے لئے سمجھوتے کرنا پڑتے ہیں۔ سول سوسائٹی اپنے تمدنی شعور کے اظہار، عوامی مفاد اور حقوق کے لئے صرف اپنے ضمیر کی روشنی میں چلتی ہے۔ اس لئے تحکمانہ حکومتیں سول سوسائٹی کو پسند نہیں کرتیں۔ ہمارے ہاں سول سوسائٹی ضیا آمریت میں نمودار ہوئی۔ ایم آر ڈی کے قیام سے بہت پہلے عورتیں اور صحافی اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر نکلے تھے۔ سول سوسائٹی اقلیتوں کے حقوق، امتیازی قوانیں، شہری مسائل اور ریاستی پالیسیوں پر تنقید کرتی تھی لہٰذا اسے ملک دشمن، بیرونی ایجنٹ، مذہب بیزار وغیرہ کہا جاتا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف اقدامات کی آڑ میں ہم نے درجنوں غیرملکی ڈونر ادارے بند کر دیے۔ ہزاروں غیرسرکاری تنظیمیں عضو معطل ہو گئیں۔ ای اے ڈی نامی ایک عکسی بندوبست کی مدد سے سول سوسائٹی تباہ کر ڈالی۔ کروڑوں ڈالر کی سالانہ یافت قصہ کہانی ہو گئی۔ غیر جمہوری قوتوں اور نیم خواندہ ہجوم نے این جی او کو گالی قرار دے دیا تو سول سوسائٹی کی عدم موجودگی کا شکوہ کیسا؟ مصیبت کی گھڑی میں قومی یکجہتی کا حقیقی جذبہ واپس لانا ہے تو جان لیجیے کہ سیاسی اور تمدنی شعور سے لیس سول سوسائٹی کے بغیر قوم کا جمہوری چہرہ ادھورا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

وجاہت مسعود کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author