نومبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

محبت اور جُدائیاں۔۔۔||گلزار احمد

گلزار احمد سرائیکی وسیب کے تاریخی شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ براڈ کاسٹر ہیں، وہ ایک عرصے سے مقامی اخبارات اور سوشل میڈیا پر تاریخ ، تہذیب و تمدن اور طرز معاشرت پر لکھتے چلے آرہے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محبت اور جُدائیاں
ہمارے سامنے کی بات ہے کہ جب گاوں کے ایک گھر تنور گرم کیا جاتا تو گھر والی خاتون اپنی بچی کو پڑوس کے گھر بھجواتی کہ آ کے روٹیاں لگا لیں۔اور خواتین اپنا آٹا لے کر پہنچ جاتیں۔ ایک تو سب کا بھلا ہو جاتا دوسرا تنور میں جو آگ جلائی جاتی وہ ایندھن ضائع ہونے سے بچ جاتا کیونکہ ایک دفعہ آپ تنور گرم کر لیں تو پانچ گھروں کی روٹیاں پکا سکتے ہیں۔پھر تنور کے اندر بینگن سیخ میں پرو کر ڈالے جاتے اور بھونے جاتے اس کے بعد بھی آگ اتنی ہوتی کہ بڑے پتیلے میں پانی بھر کر چنے۔گندم۔باجرہ بمع گڑ ڈال دیتے اور کچھ دیر میں گھگھنیاں تیار ہو جاتیں۔ ہماری مائیں گھگھنیاں خیرات کے طور پر پکاتی تھیں۔جس خاتون نے قران کا اس دن ختم کیا ہوتا وہ گھنگنیاں پکا کے خیرات کرتی۔ صبح جب مکھن کے لیے دودھ بلویا جاتا تو
بچے اس گھر لسی لینے پہنچ جاتے اور ایک ایک لیٹر لسی سب کو فری ملتی۔ گاٶں والی ماسیاں چھوٹا سا مکھن کا پیڑا بھی ڈال دیتیں۔ اگرچہ غریبی کا زمانہ تھا مگر لوگوں کے دل بہت بڑے تھے۔ گاوں کے گھروں میں بچے ایک دوسرے کے گھر سے نمک۔مرچ۔لہسن۔پیاز۔ مانگنے آتے تو پیار محبت سے دے دئیے جاتے اور یکجہتی میں اضافہ ہوتا۔ پکے ہوے سالن کی مُنگری تو ساتھ کے ایک دو گھر ضرور جاتی اب فریج میں سب کچھ جمع رہتا ہے ۔ شروع میں جب میں لاھور سے ایک الارم والی گھڑی جو تین انچ گولائی میں ہوتی لے آیا۔ گاوں والے نہر کا پانی اپنی باری کے حساب سے لگاتے تو بہت خوش ہوۓ کہ چلو اب ٹایم دیکھ کے پانی لگایا کریں گے۔گاوں کے کارپینٹر سے اس کا شیشم کی لکڑی کا ڈبے نما فریم بنایا گیا پالش ہوئی اس کو پکڑنے کے لیے اوپر ہینڈل لگا دیا۔ گاٶں کے کسان ایک ہاتھ میں گھڑی اور دوسرے میں کہی اٹھاے خوشی خوشی پھرتے اور اپنے نمبر پر کھیت کو پانی دیتے۔ بعض تو اتنا سادہ تھے کہ پہلے ان کو سمجھانا پڑتا کہ بڑی سوئی جب 12 بجے پہنچے گی تمھاری پانی لگانے کی باری شروع ہو گی۔ یہ گھڑی 24 گھنٹے میں ایک دفعہ ہمارے گھر اس لیے واپس آتی کہ ہم اس کو چابی دے دیں۔اب ویسی گھڑیاں کہیں نظر نہیں آتیں۔جب گاوں میں شادی کی تقریب ہوتی ہر گھر سے لڑکے ایک ایک چارپائی جمع کرتے رنگدار پانی کے ساتھ گھر والے کا نام لکھا جاتا اور شادی مکمل ہونے پر واپس کرتے۔سردیوں میں ایک ایک بستر بھی جمع کیا جاتا۔ شروع میں جب ریڈیو اور پھر ٹی وی ہمارے گھر آیا تو شام کو بچوں کی پوری کلاس بیٹھ کے ریڈیو سنتی اور ٹی وی دیکھتے کیونکہ پورے گاوں میں ٹی وی ایک دو گھر تھا۔اس کے لیے زمین پر دریاں بچھائی جاتیں۔ ہمارے مکان کچے تھے ہر سال ساون کے مہینے سے پہلے لپائی کرنی ہوتی۔اس کے لیے گاوں کے پندرہ بیس آدمی بلاۓ جاتے جس کو وِنگار کہتے۔ یہ سب بلا معاوضہ گھر کی لپائی کر دیتے صرف کھانا اور چاے ان کو مہیا کی جاتی۔ اسی طرح عورتیں پنگھٹ پر یا کنویں سے گھڑوں میں پانی بھرنے اکٹھی ہوتیں تو یہ ایک قسم کی کیمونٹی میٹنگ ہوتی۔ایک دوسرے کے دکھ درد۔بیماری خوشی۔کا پتہ چلتا اور لوگ ایک دوسرے کی مدد کو تیار رہتے۔ یہ سب پیار سب یکجہتی اس وقت ختم ہونا شروع ہوئی جب باھر کے لوگ ہمارے گاوں پہنچے۔پہلے پہل ہمیں قومی اور نسلی تفاخر کا سبق پڑھایا گیا کہ یہ تورانی۔یہ افغانی یہ فلاں یہ فلاں ہم سے کمتر اور ہم بہتر ہیں۔ جب یہ فارمولا پورا کامیاب نہ ہوا تو جمھوریت نے حملہ کر دیا۔ گاوں میں گروپ بن گئیے کون کونسلر بنے گا کس کے ووٹ زیادہ ہیں۔ بس اب ہم جدا ہونا شروع ہوۓ۔ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ باہر سے کچھ پڑھے لکھے عالم تشریف لاے ۔انہوں نے ہمیں واضع کیا کہ آپ کا باپ بریلوی ۔بھائی دیوبندی۔کزن شیعہ۔ماموں وہابی۔چچا پتھری۔ خالو ض صحیح نہیں پڑھتا۔ پھوپھا تبلیغی ہے۔بس پھر تو وہ گرد اڑی کی خدا کی پناہ ہم نے مسجدیں جدا جدا بنا کر اپنا مسلک لکھ دیا ۔میناروں پر چار پانچ لاوڈسپیکرز لگا لیے ۔امام صاحب علیحدہ۔نمازیں الگ۔جنازے الگ۔عیدیں الگ۔ پھر فرقہ واریت کا جو نتیجہ نکلا اور خون کی ہولی کھیلی گئی سب کے سامنے ہے۔ ابھی کچھ کسر باقی تھی کہ سیاسی پارٹیاں نمودار ہو گئیں پھر ایک بار ہم فلاں زندہ باد فلاں مردہ باد نعرے لگاتے باہم ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو گیے۔ ہمارے لیڈر ہم سے ووٹ لے کر پانچ سال کے لیے غائیب ہو جاتے ہیں مگر ہم ووٹر روز لڑتے رہتے ہیں۔ان تمام عوامل کا اثر یہ ہوا کہ آج ہمارے گاوں میں بھائی اپنے بھائی سے جدا ہے اور جمھوریت ۔ فرقہ بندی ۔ نااتفاقی۔لڑائی جھگڑوں۔ نسلی فخر اور غرور کے جہنم کے گڑھے میں جل رہا ہے اور یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اس آگ کو بھڑکانے والے ہاتھ کہاں سے آتے ہیں اور کہاں غائیب ہو جاتے ہیں؟

About The Author