امجد قمر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح وقت پر صحیح شخص کے زریعے ایک صحیح پیغام جانیں بچا سکتا ہے۔ یہ کرائسس کمیونیکیشن کہلاتی ہے.
انسانی آفات دو طرح کی ہوتی ہیں ایسی آفات جو انسانوں کے اپنے کسی عمل سے پیدا ہوں وہ مین میڈ یا انسانی پیدا کردہ آفات ہوتی ہیں۔ جیسا کہ جنگیں، بم دھماکے ، مسلح لڑائیاں ، فوجی آپریشن وغیرہ۔
انسانی آفات کی دوسری قسم نیچرل ڈیزاسٹر یا قدرتی آفات کہلاتی ہیں۔ جیسا کہ سیلاب، طوفان، بارشیں اور زلزلے وغیرہ ۔ اسی طرح حالیہ ادوار میں صحت کے شعبے میں بھی انسان بہت سی وباوں سے گزرا ہے حال ہی میں کرونا کی وبا اس کی بڑی مثال ہے
کسی بھی انسانی آفت میں میڈیا اور میڈیا پر رپورٹ کرنے والے صحافی کا انتہائی اہم کردار ہوتا پے۔ اور وہ کردار صرف واقعات کو منظر عام پر لانے تک محدود نہیں ہوتا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر عام لوگوں کے لیے ایسی معلومات شئیر کرنا جس کو جاننے کے بعد وہ کسی بھی انسانی آفت کے مقابلے کے لیے تیار ہو سکیں۔
پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں شامل ہے جنہیں ہرطرح کی آفات کا سامنا رہتا ہے ۔ ایک طرف دہشت گردی اور اس سے جڑے خطرات موجود ہیں اور دوسری طرف موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ملک میں ہر سال قدرتی آفات آتی رہتی ہیں ۔ جن کے نتیجے میں ملکی معیشت کو شدید دھچکا لگتا ہے ۔ اسی طرح کرونا ، ڈینگی ، ملیریا اور پولیو جیسی بیماریاں بھی کسی نہ کسی کرائسس کو جنم دیتی رہتی ہیں ۔ اس سارے صورتحال میں میڈیا کا کیا کام ہے۔
حکومت اور عوام کو قدرتی آفت سے باخبر رکھنا
مین سٹریم میڈیا اور بلخصوص لوکل میڈٰیا کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ آفت آنے سے پہلے ہی لوگوں کو اس کے متعلق آگاہی فراہم کرتا رہے۔ تاکہ یہ انسانی آفات اچانک آ کر بڑے نقصان سے بچا سکیں۔ پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں میں تقریبا ہر سال جولائی اور اگست میں چھوٹے بڑے سیلاب آتے رہتے ہیں۔ یہ سیلاب تھوڑے ذٰیادہ فرق کے ساتھ ان ہی علاقوں سے گزرتے ہیں ۔ جہاں سے ہر سال ان کا گزر ہوتا ہے ۔
یہاں میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ مئی اور جون کے مہینے سے ہی ان علاقوں کے لوگوں کو سیلاب کی معلومات دینا شروع کر دیں۔ اور ساتھ ساتھ ماہرین کے ذرہعے انہیں آگاہ رکھیں کہ سیلاب آ جانے کی صورت میں انہیں کیا کرنا ہو گا۔ اسی طرح وہ لوکل حکومتوں کو بھی بار بار یاد دلاتے رہیں کہ سیلاب یا کسی اور آفت کے لیے کتنی تیاری کر رکھی ہے۔
اس حوالے سے زمہ دار اداروں کے افراد کو پروگرامز میں بلانا، انٹرویو کرنا اور انہیں باور کرواتے رہنا کہ کس طرح کے اقدامات نقصانات کو کم سے کم کر سکتے ہیں ۔ میڈیا کو یاد رکھنا چاہیے کہ پبلک کی یاداشت سانحات کے حوالے سے کافی کمزور ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں میڈیا تنظیموں اور صحافیوں کے لیے قدرتی آفات کی اطلاع دینے کے لیے مناسب تربیت کی بھی ضرورت ہے۔جیسا کہ ڈیزاسٹر کیلنڈر کیسے بنایا جائے۔ متعلقہ اداروں کی ڈائری بنانا، اور ایسی کمیونٹی تنظیمیں جن کا نیٹ ورک اپنے علاقے میں مضبوط ہے ان سے مستقل رابطے میں رہنا ایسے اقدامات ہیں ۔ جن کے ذریعے حادثات سے پہلے تیاری ہو سکتی ہے ۔
کرائسس کے مختلف فیز اور میڈیا کا کردار
کسی بھی انسانی آفت میں عمومی طور پر تین فیز گزرتے ہیں پہلا فیز ایمرجنسی حالات کا ہے ۔ ایسی صورتحال میں میڈیا کو لوگوں کے ان سوالات کے جوابات دینے چاہییں ۔کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور یہ آفت کس حد تک پھیل چکی ہے۔ اس صورتحال میں ہنگامی مدد کہاں سے مل سکتی ہے اور یہ حالات کب تک رہیں گے ۔
دوسرا فیز اس وقت ہوتا ہے جب حکومتیں ، ادارے یا لوکل تنظیمیں ایمرجنسی میں لوگوں کی مدد کر رہی ہوتی ہیں ۔ یہ بہت اہم فیز ہے۔ اس فیز میں لوکل میڈیا لوگوں کو یہ رہنمائی فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے کہ متاثرہ افراد کے لیے کھانا پینا ، ادویات اور شیلٹر کہاں دستیاب ہو گا ۔ حکومت کیا کچھ کر رہی ہے اور امدادی اداروں سے کیسے رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ سیلاب جیسی آفات کے بعد بہت سے بیماریاں پھیلنے کا خطرہ رہتا ہے ۔ میڈیا اس حوالے سے بھی لوگوں کو باخبر رکھ سکتا ہے .
تیسرا فیز بحالی کا ہے ۔ بحالی کے عمل میں سب سے اہم کام حکومت کا محاسبہ کر کے اس پر دباو ڈالنا ہے تا کہ جو امداد ملی ہے اس کا استعمال منصٖفانہ ہو ۔ لیکن یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ دباوٗ متاثرین کی بہری کے لیے استعمال ہو یہاں میڈیا رہنمائی سے ذیادہ ایک واچ ڈاگ کے طور پر کام کرتا ہے ۔ اس فیز میں لوگوں کو بحالی کے کام جیسا کہ گھروں کی تعمیر، سڑکوں اور پلوں کی تعمیر ، بچوں کے سکول اور صحت کی بنادی سہولیات کی بحالی جیسے اقدامات کے متعلق باخبر رکھنا ضروری ہے
ریڈیو اور سٹیزن جرنلزم
عام طور پر مین سٹریم میڈیا یہ کام نہیں کرتا ، کیونکہ ان کی ترجیحات محتلف ہیں۔ آج کے دور میں جہاں انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے ۔ وہاں پر سٹیزن جرنلسٹ یہ رول ادا کر سکتے ہیں ۔ لیکن پاکستان جیسے ممالک میں انٹرنیٹ کی تاریں زمین سے گزرتی ہیں اس لیے جہاں سیلاب تبا ہی پھیلاتا ہے وہاں ان تاروں کو بھی شدید نقصان پہنچتا ہے۔
حالیہ سیلاب میں کئی نیٹ ورک ایمرجنسی کے دوران معطل رہے ۔ جب کہ بلوچستان اور سندھ میں ایسے کئی علاقے ہیں جہاں سرے سے انٹرنیٹ موجود ہی نہیں ہے۔ اس صورتحال میں لوگوں سے رابطہ بحال رکھنے کے لیے ریڈیو ایک ایسا سستا ترین اور پورٹیبل میڈیم ہے جس کی رسائی بغیر بجلی کے گاوں اور دیہاتوں تک ہے ۔ لیکن پاکستان میں ابھی تک یہ میڈیم پنپ نہیں سکا۔
افواہوں سے بچاوٗ
میڈیا کا کام لوگوں کو تعلیم و آگاہی دینے کے ساتھ ساتھ خود بھی فیک نیوزاور ڈس انفارمیشن سے بچنا اور لوگوں کو بچانا ہے ۔ ایک غلط خبر بڑے نقصان کا باعث بن سکتی ہے ۔ کرائسس کے وقت خبروں کی تصدیق انتہائی مشکل عمل ہے۔ لیکن ایک صحافی کو اس عمل سے لازمی گزرنا چاہیے کیونکہ جہاں ایک صحیح خبر ہزاروں جانیں بچا سکتی ہے وہیں ایک غلط خبر تباہی بھی پھیلا سکتی ہے
یہ بھی پڑھیے:
ریڈیو پاکستان ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔۔ گلزار احمد
ہماری داخلہ و خارجہ پالیسی اور دو خواتین کے سمارٹ فون۔۔۔ امجد قمر
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر