نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بابل وے، اساں اُڈ جانا!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

ایک پرائیویٹ کلینک کا ویٹنگ روم، مریضوں سے کھچا کچھ بھرا ہوا، ہم بھی اماں کے ساتھ موجود۔ ہمیں لگا کہ دور بیٹھی ایک خاتون ہمیں دیکھ کر مسکراتی ہے اور ساتھ میں بیٹھے نوجوان کو کچھ کہتی ہے۔ نوجوان بار بار نفی میں سر ہلاتا ہے۔ کچھ حیران ہوئے ہم، پھر یہ سوچتے ہوئے کہ یہ ہمارا وہم ہے، اماں سے باتیں کرنے میں مگن ہو گئے۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”پرسوں نا میری خالہ آئیں اور شام کو پاس بٹھا کر میرے ہاتھ میں انگوٹھی ڈال دی۔ میری امی نے شکر ادا کیا“
”کل تائی اماں ہمارے گھر آئیں اور میرے سر پہ دوپٹہ ڈالا۔ امی ابا اتنے فکر مند تھے کہ وہ اتنی دیر کیوں کر رہی ہیں؟“

”پھوپھی نے ہاتھ پہ پیسے رکھے اور ساتھ میں مٹھائی کا ٹوکرا۔ امی کے وظیفے کام آ ہی گئے“
”آج کل روزانہ ماسی آتی ہے ہمارے گھر، ہاتھ میں ڈھیروں تصویریں لے کر۔ امی کا تو پریشانی سے برا حال ہے“
” ہاں میری امی نے بھی کل ہی دو ماسیوں کو میری تصویریں دی ہیں“

منہ لال، چمکتی آنکھیں، فخریہ لہجہ، اپنی قدروقیمت جتانے والا انداز، سہلیوں کی واہ واہ، تصویروں پہ سب کے جھکے سر، ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ جاتی البم، انگوٹھی کی زیارت کرنے کی تمنا، دولہا کا نام لے کر چھیڑنے کی کوشش!

یہ مناظر ہم میں سے بہت سوں کے لیے اجنبی نہیں ہوں گے۔ ایسا ہی ہوا کرتا تھا، اب بھی ہوتا ہو گا۔ ہائی سکول کی نہم، دہم اور کالج کی فرسٹ سیکنڈ ائر کی لڑکیاں۔
نئی نئی جوانی کا خمار، دلہن بننے کا خواب، ڈراموں میں دکھایا گیا رومانس اور گھر والوں کی بیٹیوں کو رخصت کرنے کی کوششیں۔

 

نویں کلاس سے یہ مناظر دیکھنے شروع ہوئے، مزا آیا داستانیں سن کر۔ ہر روز کسی نہ کسی کی منگنی ہوتی، کوئی خبر سننے کو ملتی۔ ہر روز کوئی ایک لڑکی مرکز نگاہ بنتی، باقی کلاس کی لڑکیاں اس کے ارد گرد، کوئی رشک کی نظر سے دیکھتی، کسی کے لہجے سے حسد کی بو آ رہی ہوتی۔

جو بدقسمت اس دائرے سے باہر تھیں ان سے سوال و جواب ہوتے کہ آخر ان کی باری کب آ رہی ہے؟ اور بدقسمت یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہوتیں کہ منگنی کے بعد رومانس کیسا چل رہا ہے۔

ہم نہ تین میں تھے نہ تیرہ میں۔

گھر میں یہ عالم تھا کہ خالہ، چاچی، ممانی اور پھوپھی کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا۔ نہیں نہیں غلط مت سمجھیے، موجود تو تھیں سب اپنے اپنے گھر مگر نہ جانے ہمارے خاندان کی ان خواتین کے ارمان کہاں سوئے پڑے تھے؟

بغل میں تصویروں کا بغچہ دابے کوئی ماسی نام کی مخلوق ہمارے گھر دروازے کی چوکھٹ پہ کبھی نظر نہیں آتی تھی۔ یا خدا کیا ماجرا ہے؟ تین لڑکیوں والا گھر ان ماسیوں کی آنکھ سے کیوں اور کیسے اوجھل ہے؟

اماں دن رات اپنے مشاغل میں گم، ابا کبھی عزیز میاں کی قوالی پہ سر دھنتے ہوئے تو کبھی نور جہاں کی سریلی آواز پہ زیر لب مسکراتے ہوئے۔
ہائیں کس طرح کے ماں باپ ہیں یہ؟ بیٹیوں کے رشتوں کی فکر ہی نہیں؟ ہم سوچتے۔

 

خیر ہماری تو ابھی باری ہی نہیں آئی لیکن آپا؟ آپا تو تعلیم مکمل کر کے لارنس کالج پڑھانے بھی لگیں اور یہ دونوں اس قدر بے نیاز؟ جیسے سر پہ کوئی بوجھ ہی نہیں۔

اس معاملے میں جیسی ناقدری گھر میں تھی ہماری، ویسی ہی سکول میں تھی۔ سب لڑکیاں کانا پھوسی کرتیں، ایک دوسرے کو چھیڑتیں، جن کا ابھی تک معاملہ طے نہیں ہوا تھا، ان کو تسلی دیتیں، اس حمام میں سب ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے تھیں سوائے ہمارے۔ کوئی ایک نگاہ غلط انداز کا بھی حقدار نہیں سمجھتا تھا۔

غلطی سے بھی کوئی دوست/ ہم جماعت ہم سے یہ سوال نہ کرتی کہ سکھی، کچھ اپنی سناؤ؟ کوئی لڈو، کوئی امام ضامن، تائی یا خالہ کا کوئی پھیرا؟ کسی بے تابیوں کی کوئی داستان۔ ہمیں آتا دیکھ کر کسی کے کان پہ جوں نہ رینگتی، سب اپنے کام میں لگے رہتے۔

وجہ کیا تھی آخر؟ ہم اس کلب کے ممبر کیوں نہیں تھے؟

قصہ کچھ یوں تھا چوتھی یا پانچویں جماعت سے ہم کہنا شروع ہو چکے تھے کہ ہم مستقبل کے ڈاکٹر ہیں۔ پورا سکول اس بات کی خبر رکھتا تھا۔ اور یہ بھی کہ ہمارا گھرانا تعلیم دوست گھرانا ہے جہاں شادی بیاہ کو لڑکیوں کی زندگی کا بنیادی نصب العین نہیں بنایا گیا۔ جہاں ماں باپ لڑکیوں کو ان چاہی مخلوق اور بوجھ جانتے ہوئے ان کو اپنی چھت سے محروم نہیں کرنا چاہتے تھے۔ جہاں بیٹیوں کو بیٹوں سے کمتر جانتے ہوئے ان کے مستقبل پہ خرچ کرنا گھاٹے کا سودا نہیں مانا جاتا تھا۔ جہاں بیٹیوں کو ایک انسان سمجھ کر ان کی خواہش کا احترام کیا جاتا تھا۔ نیشنل سنٹر جانا ہو یا ریڈیو پاکستان، لڑکی ہونا قطعی رکاوٹ نہیں تھا اور یہ بات سب جانتے تھے۔

 

پھر کوئی کیسے پوچھتا کہ کوئی لڈو، کوئی امام ضامن یا کوئی تصویر والی ماسی۔ ہم اس راہ کے مسافر ہی نہیں تھے۔

ہائی سکول ختم ہوا، پری میڈیکل کالج بھی چھوٹ گیا اور ہم زندگی کی ایسی ڈگر پہ چل پڑے جہاں بہت سے ہم جیسے اپنے اپنے آسمان کی تلاش میں تھے۔
زندگی کا سفر اور آگے بڑھا۔ شادی بھی ہو گئی، ہو ہی جاتی ہے چاہے سولہ میں ہو یا پچیس میں۔ بچے بھی آ گئے۔ برسہا برس گزر گئے سکول والوں سے پھر کبھی ملاقات ہی نہیں ہوئی۔

لیکن کب تک؟ یہ دنیا اتنی بڑی تو نہیں۔

ایک پرائیویٹ کلینک کا ویٹنگ روم، مریضوں سے کھچا کچھ بھرا ہوا، ہم بھی اماں کے ساتھ موجود۔ ہمیں لگا کہ دور بیٹھی ایک خاتون ہمیں دیکھ کر مسکراتی ہے اور ساتھ میں بیٹھے نوجوان کو کچھ کہتی ہے۔ نوجوان بار بار نفی میں سر ہلاتا ہے۔ کچھ حیران ہوئے ہم، پھر یہ سوچتے ہوئے کہ یہ ہمارا وہم ہے، اماں سے باتیں کرنے میں مگن ہو گئے۔

”ایکسکیوز می، میم، کیا میں ایک بات پوچھ سکتا ہوں؟“
ہم نے چونک کر دیکھا تو وہی لڑکا۔
جی پوچھیے
”کیا آپ کا نام طاہرہ ہے؟“
”جی“
”اوہ۔ اچھا۔ میں شرط ہار گیا“
”کیسی شرط؟“
”وہ جی، میری اماں کہہ رہی ہیں کہ آپ ان کی کلاس فیلو ہیں مگر میں نہیں مان رہا تھا“

ہم فوراً اٹھ کھڑے ہوئے، ان خاتون کے پاس پہنچے، تعارف ہوا۔ علم ہوا کہ وہ میٹرک تک ہمارے ساتھ تھیں پھر میٹرک کے بعد شادی ہو گئی۔ اب وہ نانی دادی تھیں۔ ہم بڑی مشکل سے ان کی وہ شکل تصور میں لائے، دو چوٹیاں بنائے ہنستی مسکراتی لڑکی۔ سولہ برس کی عمر میں شادی نے خراج لے لیا تھا۔

”میرا بیٹا مان ہی نہیں رہا تھا کہ تم میرے ساتھ پڑھتیں تھیں۔ پوچھ رہا تھا اماں کیا آپ کے زمانے میں ایسی لڑکیاں تھیں جو کیرئیر بنایا کرتی تھیں؟“ وہ ہنس کر بولیں۔

”بہت کم بیٹا، صرف وہ جن کے ماں باپ رشتے والی ماسیوں کو دروازے سے ہی لوٹا دیتے تھے یا مامی، چاچی اور پھوپھی کی جذباتی بلیک میلنگ میں آنے کی بجائے اپنی بیٹی کی زندگی کی بارے میں سوچتے تھے“ ہم نے جواب دیا۔

 

اماں بھی ساتھ تھیں سو سن کر ہنس پڑیں، کہنے لگیں۔

”ہاں بیٹا مجھے بہت شوق تھا پڑھنے کا، مگر مجھے ہائی سکول جانے کا موقع نہ مل سکا۔ میں نے ٹھان لی تھی کہ میں اپنی بیٹیوں کی شادی تعلیم ختم ہونے کے بعد ہی کروں گی جب ان کے پاؤں کے نیچے اپنی زمین ہو اور سر پہ اپنا آسمان۔

میں نے ان کی آنکھوں میں خواب سجائے، دل میں شوق جگایا، پڑھ لکھ کر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی آرزو، معاشی خود مختاری کا سپنا۔

اس لیے میں نے ان کے سامنے کبھی نہیں کہا کہ میری بیٹی دلہن بنے گی اور دولہا راجہ آئے گا۔ یا یہ کہ بابل اساں اڈھ جانا۔ میں نے انہیں کسی بات سے نہیں روکا، یہ نہیں کہا کہ ارمان اپنے گھر جا کر پورے کر لینا۔ ماں باپ کا گھر ارمان پورے کرنے کی جگہ ہوتی ہے، سسرال کہاں گنجائش دیتا ہے؟

پھر میں نے یہ بھی نہیں کہا کہ ہائے ہائے کوئی رشتہ کیوں نہیں آ رہا، جلد سے جلد اپنی ذمہ داری سے فارغ ہوں۔ نہیں کبھی نہیں، یہ تینوں میری اور ان کے ابا کی ذمہ داری تھیں، ہیں اور رہیں گی ہمارے سانس نکلنے تک ”

ہماری کلاس فیلو کی آنکھیں نم تھیں۔ ان کا بیٹا منہ پھاڑے اماں کو دیکھ رہا تھا اور ہمارا بس نہیں چلتا تھا کہ اماں کے پاؤں چوم لیں، وہیں کلینک میں ہی۔
صاحب، تعلیم اور کیرئیر آسائش نہیں بلکہ وہ حق ہے جو ہر بچی کو بائی ڈیفالٹ ملنا چاہیے۔ اپنی چڑیوں کو ایسا آسمان دیں جو ان کے پر کترنے کی بجائے ان کی پرواز پر فخر کرے۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author