ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے یہاں عموماَ پچاس سال کی عورت کو بوڑھا گردانا جاتا ہے اور اپنے ہاں کے لوگوں کی سمجھ یہ ہے کہ اب زندگی کی رنگینیوں پہ اس عورت کا کوئی حق نہیں، اللہ اللہ کرنے کی عمر آ گئی۔
ہم پیرس میں ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھا رہے تھے۔ ہمارے ساتھ والی میز پہ دس بارہ پچپن سے پچھتر کی عمر کی خواتین بیٹھی تھیں۔ بنی سنوری، شوخ رنگوں کے لباس اور میک اپ، اونچی آواز میں قہقہے اور باتیں۔ یہ سب دوست مل کے لنچ کرنے آئیں تھیں۔ ہماری بیٹی نے ہماری توجہ اس طرف دلائی,
“امی، کیا پاکستان میں آپ نے یہ منظر کبھی دیکھا، جہاں اس عمر کی عورت عضو معطل سمجھی جاتی ہے”
فوراً چشم تصور میں ہم نے اپنے خاندان احباب اور مریض عورتوں کو کنگھالا۔ مضمحل چہرے، سنجیدگی کا نقاب، ہلکے مٹیالے رنگ کے ملبوسات، ہاتھ میں تسبیح، گھٹنوں کے درد، ذیابیطس اور بلڈ پریشر سے بے حال، اپنے آپ سے بیگانه اور اردگرد سے بیزار، موت کے انتظار میں بیٹھی مورتیں!
عورت کی زندگی کے دو ادوار بہت اہم ہیں پہلا جب وہ بچپن کی سرحد پار کر کے شباب میں قدم رکھتی ہے اور زندگی کی حرارت بخشتے ہارمون اسے زندگی کی جولانیوں سے روشناس کراتے ہیں۔
دوسرا وہ وقت جب زندگی نما ہارمونز رخصت ہوتے ہیں اور ماہانہ نظام ختم ہوتا ہے۔ چونکہ حمل ٹھہرنا ممکن نہیں رہتا سو ہمارے ہاں اس دور کو بڑھاپے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یعنی افزائش نسل کرتے رہنا ہی زندگی کی علامت ہے۔
شباب میں داخل ہوتی لڑکی کے مسائل کا واحد حل شادی سمجھا جاتا ہے۔ تعلیم اور شخصیت سازی کس بلا کا نام ہے؟ والدین اس سے منہ چھپا کے اپنا بوجھ فرض کے نام پہ دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں۔
عورت ساری عمر زچگی کے مسائل سہتی، سسرال کی بھٹی میں سلگتی، شوہر کی جلی کٹی سنتی، پینتالیس سے پچاس کی عمر میں اس دور میں داخل ہو جاتی ہے جن برسوں کو سن یاس یا مینوپاز کی عمر کہا جاتا ہے۔ اور اب اسے اس دور کی کٹھنائیوں سے جسمانی اور ذہنی دباؤ برداشت کرتے ہوئے گزرنا ہے۔
ماہواری کبھی آتی ہے، کبھی نہیں۔ وقفہ بڑھ جاتا ہے۔ خون کبھی کم کبھی زیادہ۔ اس دور کا پیری مینوپاز کہا جاتا ہے یعنی مینوپاز سے تھوڑا پہلے کا دور اور اس کا آغاز پینتالیس برس کی عمر سے ہوتا ہے۔
مینوپاز کی اوسط عمر باون برس ہے اور مینوپاز کی پہچان کی شرط یہ ہے کہ ماہواری رکے ایک برس گزر گیا ہو۔ یاد رکھیے اگر ماہواری چار چھ ماہ بعد آتی ہے تب بھی یہ مینوپاز نہیں ہوگا بلکہ پیری مینوپاز ہو گا۔ مینوپاز تب ہی شروع ہو گا جب پچھلے بارہ مہینے ماہواری کا ایک قطرہ بھی نہ نکلے۔
ذہنی دباؤ میں سب سے اہم تنہائی کا احساس، خود توقیری کی کمی، بے وقعتی، اندر کا خالی پن، ذات کے کچلے جانے کا احساس، زندگی کا زیاں، ماضی کے پچھتاوے اور بے رنگ وبو رینگتی ہوئی زندگی شامل ہیں۔
ذہنی کیفیات کے اسباب میں ایسٹروجن ہارمون کی کمی اپنی جگہ مسلم مگر ایک اور عنصر جو عورت کو صرف پچاس کی عمر میں جیتی جاگتی مردہ روح میں تبدیل کرتا ہے، وہ ہمارے معاشرے کا چلن ہے جہاں گھریلو عورت کو اپنے گھر، شوہر اور بچوں کے علاوہ کوئی بھی سرگرمی رکھنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
شادی کے بعد تصور یہ ہے کہ اس عورت کا جینا مرنا، ہر تعلق اور ہر سرگرمی اس مرد کے حوالے سے ہو گی۔ اس کی ذاتی زندگی کا کوئی تصور کوئی خیال ہمارے یہاں موجود نہیں۔ یہ سوچنا ہی بدعت ہے کہ وہ شوہر یا بچے چھوڑ کے کسی سہیلی کے ساتھ کچھ لمحے اکھٹے گزارنے باہر جا سکتی ہے۔ اس کی زندگی بچوں کے گرد گھومتے گھومتے اس مرحلے پہ پہنچ جاتی ہے جب بچوں کی اپنی زندگی شروع ہوتی ہے اور اب ان کو ماں کی اس طرح ضرورت نہیں ہوتی جس طرح بچپن میں تھی۔
زندگی کے اس موڑ پہ کھڑی عورت جس نے کبھی کسی مشغلے کو اپنانے کی کوشش نہیں کی، جس نے اپنے ہم عمر دوست بنانے کا نہیں سوچا، جس نے اپنا آپ دریافت نہیں کیا، سن یاس کی جسمانی وذہنی کیفیات سے بے حال سوچتی ہے اب کیا کروں؟
ہم ایسی بے شمار عورتوں کو اپنے کلینک پہ دیکھتے ہیں!
ہمارا پہلا مشورہ یہ ہوتا ہے اپنے طرز زندگی میں تبدیلی لائیے، جس کا پہلا قدم وزن میں کمی لانا اور ورزش شروع کرنا ہے۔ یاد رکھیے گھر کا کام کاج قطعی طور پہ ورزش میں نہیں آتا۔ اچھی ورزش میں دل کی دھڑکن تیز ہونی چاہئے۔ ہو سکے تو جم جا کے وزن اٹھانے والی ورزش کیجیے کہ ہڈیوں کا بھربھرا پن رک سکے۔
مینوپاز میں میں پیٹ کم کرنا لازم ہے۔ پیٹ میں جمع شدہ چربی شوگر کا مرض جلد ہونے کی ایک اہم وجہ ہے۔ خوراک کی مقدار میں کمی کیجیے کہ عمر کے بڑھنے کے ساتھ قویٰ مضمحل ہو رہے ہیں اور انہیں زیادہ خوراک کی قطعاً ضرورت نہیں جب کہ ہمارے یہاں یہ خیال غلط العام ہے کہ بڑھتی عمر میں کمزوری کا علاج زیادہ غذا ہے۔
خوراک میں میٹھا، چاول، روٹی اور مشروبات کم سے کم استعمال کیجئیے۔ یہ سب شوگر کے مرض میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سبزیاں کھانے کی عادت ڈالیے اور انہیں بھی جتنا کم بھونا جائے اتنا بہتر ہے۔ سویا بینز کا اس سلسلے میں جواب نہیں۔
سن یاس کے برسوں میں چھاتی کا معائنہ لازم ہے۔ کینسر اکثر انہی برسوں میں نمودار ہوتا ہے اس لئے چھاتی کا الٹرا ساؤنڈ اور میموگرام کروانا اشد ضروری ہیں۔
ان تمام کوششوں کے باوجود اگر مزاج میں تبدیلی اور نیند کی کمی زندگی میں بے کیفی پیدا کر رہی ہو تو ہارمونز کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔ گائناکالوجسٹ سے ملیے اور کہہ دیجئے دل کا حال۔
لیکن ان سب باتوں میں سب سے اہم یہ ہے کہ اپنی زندگی کو بامقصد بنائیے، اپنے لئے مشغلے ڈھونڈیے، کتابیں پڑھنا شروع کیجیے، نئی زبان سیکھیے، کوئی نیا آرٹ سیکھیے، میوزک سنیے، سنیما جائیے، دوستوں سے ملیے اور زندگی میں رنگ بھریے۔
دوسروں کی فکر چھوڑیے، اپنے آپ سے محبت کیجیے۔ وہ اپنا آپ جو آپ برسوں سے بھولی بیٹھی ہیں۔
اور آخری بات ہمیں سن یاس کی شکار خواتین کے ساتھیوں سے کہنا ہے۔ اگر ابھی بھی آپ اپنی پسند وناپسند اپنے ساتھی پہ ٹھونسنے کے عادی ہیں، اگر اب بھی آپ مالک بننے کے شوقین ہیں تو سن لیجئے آپ کی خواہشات آپ کے قیدی کی صعوبتوں میں اضافہ تو کر سکتی ہیں، بقیہ زندگی سہل نہیں بنا سکتیں۔ چلتے چلتے شہرت بخاری کا ایک شعر پڑھ لیجئے
فسردہ ہونے سے حاصل؟ چلو تلاش کریں
کہیں تو ہوں گی بہاریں جو گلستاں میں نہیں
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر