وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہی ہوا جو ضرور ہوتا ہے۔ مسلم لیگ ق کے پرویز الہی گروپ نے مسلم لیگ ق کے چوہدری شجاعت گروپ کو جماعت سے باہر کر دیا۔ اب اس فیصلے کی جو بھی قانونی و اخلاقی حیثیت ہو وہ تو خیر پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے مگر ہمیں تو اب اس خبر کا انتظار ہے کہ کب گجرات کے ظہور پیلس سے یہ اعلان جاری ہوتا ہے کہ پرویزیوں کا ق سے کوئی لینا دینا نہیں۔
چوہدری شجاعت ہی پارٹی کے سربراہ رہیں گے۔ یوں جب الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن کا مرحلہ آئے گا تو ممکن ہے ایک دھڑا مسلم لیگ ق پ اور دوسرا مسلم لیگ ق ش کے نام سے رجسٹر ہو۔ جو بھی فیصلہ ہو نمبردار چوہدری ہی رہیں گے بھلے سارا پنڈ مر جائے۔
مسلم لیگ میں پچھلے ایک سو سولہ برس میں اس قدر ٹوٹ پھوٹ ہو چکی ہے کہ اب خود اس جماعت کا ڈی این اے اس سے ماورا ہوگیا ہے۔ مسلم لیگیوں کی موجودہ پیڑھی سر خواجہ سلیم اللہ، نواب وقار الملک، نواب محسن الملک، سید امیر علی، محمد علی جوہر اور سر محمد شفیع سمیت پہلے مسلم لیگی کنونشن منعقدہ احسن منزل پیلس بمقام شاہ باغ ڈھاکا بروز تیس دسمبر انیس سو چھ کے لگ بھگ تین ہزار مندوبین سے اس قدر ہی واقف ہے جتنی میری سواحلی زبان کے ادب پر دسترس ہے۔
خود متحدہ مسلم لیگ ق بھی تو نون سے الگ ہونے والا دھڑا تھی۔ جسے پی ٹی آئی پنجاب کے موجودہ صدر حماد اظہر کے والد اور سابق مئیر لاہور اور شریف خاندان کے سابق اعتمادی میاں محمد اظہر نے تشکیل دیا۔ پھر اس دھڑے کی فارمنگ ایک کنٹرولڈ ماحول میں شروع ہوئی اور میاں اظہر کو مکھن میں سے بال کی طرح نکال کے پوری ٹکیہ چوہدریز آف گجرات کے حوالے کر دی گئی۔
اس دھڑے کے ایک سرکردہ رکن شیخ رشید احمد نے بھی آگے پیچھے وزارتوں کے مزے لوٹے۔ جب بعد از مشرف تانگے کی سواریاں پوری ہو گئیں تو مسلم لیگ عوامی وجود میں آئی۔ شیخ صاحب نے پہلے نواز شریف، پھر پرویز مشرف اور پھر عمران خان سے اپنی سیٹ بھر بوٹی کے بدلے ہمیشہ پورا پورا بکرا وصول کیا۔ آپ کا شمار ان سرکردہ سیاستدانوں میں ہوتا ہے جنھیں فخر ہے کہ انھیں گیٹ نمبر چار کے اندر آنے جانے کا غیر معینہ ویزہ ملا ہوا ہے۔
جس توڑم تاڑی کے نتیجے میں مسلم لیگ ق پیدا کی گئی اسی عرصے میں بابائے مسلم لیگ ضیا الحق کے صاحبزادے اعجاز الحق نے اپنی علیحدہ اینٹ پر مسلم لیگ ضیا کا نام لکھا اور اب تک سنبھالے سنبھالے پھر رہے ہیں۔
خود جس مسلم لیگ ن سے ق، ض اور ع پیدا ہوئیں وہ بھی کوئی نیچرل جماعت نہیں تھی بلکہ انیس سو پچاسی کے غیر جماعتی ایوان میں جنم لینے والی مسلم لیگ کا ہی ایک حصہ تھی۔ اس کا سربراہ محمد خان جونیجو کو قرار دیا گیا اور شریف خاندان کو پنجاب کی قلمرو تھمائی گئی اور گجرات کے چوہدریوں کو بھی غیر اعلانیہ حصہ داری الاٹ ہوئی۔
جیسے ہی مئی انیس سو اٹھاسی میں جونیجو حکومت برطرف ہوئی اور پھر جونیجو کو برطرف کرنے والے کو اوپر والے نے زندگی سے برطرف کر دیا تو مسلم لیگ کے اندر چھپی ہوئی خواہشیں خنجروں کی طرح باہر نکل آئیں۔ حامیانِ جونیجو پیچھے دھکیلے جاتے رہے اور کاروانِ شریف آگے بڑھایا گیا۔ پہلے فدا محمد خان کے نام پر ایک دھڑا متعارف ہوا۔ ان کے نائب نواز شریف مقرر ہوئے۔ پھر اس دھڑے کو آئی جے آئی کا حصہ بنایا گیا۔ پھر انیس سو ترانوے میں مسلم لیگ کو ایک ہنگامی جنرل کونسل کے نام پر شریف خاندان کے مکمل طور پر حوالے کر دیا گیا۔ فدا محمد خان کا کیا بنا ؟ خدا جانتا ہے۔
جب کہ شریف آدمی محمد خان جونیجو کی جماعت مسلم لیگ جونیجو کہلانے لگی۔ جسے سابق اسپیکر قومی اسمبلی حامد ناصر چٹھہ نے سنبھالا دیا۔ اسی دھڑے نے پیپلز پارٹی سے سودے بازی کر کے پنجاب میں منظور وٹو کو وزیرِ اعلیٰ بنوایا اور پھر اسی منظور وٹو نے جناح مسلم لیگ کے نام سے آگے چل کے ایک دھڑا بنا لیا۔ اور پھر یہ دھڑا بھی پیپلز پارٹی میں غائب ہو گیا۔
مگر خود انیس سو پچاسی کی اسمبلی کے کنٹرولڈ ماحول میں پیدا ہونے والی مسلم لیگ بھی اسمبلڈ تھی۔ اس کے لیے محمد خان جونیجو سمیت بنیادی کل پرزے مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر صاحب پگارا نے سیاسی حلالے کے متلاشی جنرل ضیا الحق کو پٹے پر دان کیے تھے۔
پیر صاحب روحانی طور پر خود مختار مگر سیاسی طور پر خود کو ’’ جی ایچ کیو کا آدمی ‘‘ کہتے تھے۔ لہٰذا بھٹو حکومت کے خلاف انیس سو ستتر کی تحریک میں شامل پی این اے کے نو ستاروں میں سے جس ستارے کی اقتداری قسمت سب سے زیادہ چمکی وہ تھا مسلم لیگ فنکشنل کا ستارہ۔
لیکن مسلم لیگ فنکشنل کے جنرل سیکریٹری ملک قاسم کو پیر صاحب کی جی ایچ کیو پرستی پسند نہ آئی تو انھوں نے مسلم لیگ قاسم بنا لی اور ضیا مخالف ایم آر ڈی تحریک میں بھی حصہ لیا۔
فنکشنل بھی کنونشن مسلم لیگ اور کونسل مسلم لیگ کو اسمبل کر کے تشکیل دی گئی تھی۔ کنونشن مسلم لیگ کو آپ اپنی آسانی کے لیے ساٹھ کی دہائی کی مسلم لیگ ق سمجھ لیں۔ جسے اسمبل کر کے اس کا سیکریٹری جنرل جواں سال ذوالفقار علی بھٹو کو بنایا گیا۔ اور جس طرح دو ہزار دو میں ق سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی بن کے ابھری اسی طرح کنونشن لیگ نے بنیادی جمہوریت کے تحت ہونے والے ایوب خانی انتخابات میں پالا مار کے فیلڈ مارشل کو سویلین بنا دیا۔
جو لیگی سرکاری لیگ کا حصہ نہیں بنے انھوں نے خان عبدالقیوم خان اور میاں ممتاز دولتانہ کی پیشوائی میں کونسل مسلم لیگ بنا لی اور محترمہ فاطمہ جناح کی ایوب مخالف صدارتی مہم کا حصہ بن گئے۔
ایوب خان کے معزول ہوتے ہی کنونشن لیگیوں کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ چنانچہ یحیی خانی مارشل لا میں کونسل مسلم لیگ اور بچھی کچھی کنونشن لیگ کو متحد کرنے کی کوشش ہوئی تاکہ مغربی پاکستان میں سابق کنونشن لیگی ذوالفقار علی بھٹو کی نوزائیدہ پیپلز پارٹی کی راہ کھوٹی کی جا سکے۔
مگر یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوئی بلکہ دو اور دھڑے بن گئے۔ ایک کے سربراہ خان عبدالقیوم خان اور دوسرے کے ممتاز دولتانہ۔ بھٹو صاحب نے اقتدار سنبھالنے کے بعد خان قیوم کو وفاقی وزارتِ داخلہ اور دولتانہ کو لندن میں پاکستان کی ہائی کمشنری دے کر نیوٹرلائز کر دیا۔ جو لیگی اس توڑ بٹے سے خوش نہ ہوئے انھوں نے پیر صاحب پگارا کی چھتر چھایا میں پناہ لی۔
پچاس کی دہائی میں حسین شہید سہرودردی نے مسلم لیگ سے الگ ہو کر پہلے آل پاکستان عوامی مسلم لیگ اور پھر جناح عوامی مسلم لیگ بنائی۔ جو بعد میں صرف عوامی لیگ رہ گئی اور پھر اسی عوامی لیگ نے بنگلہ دیش بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
مسلم لیگ کے ساتھ یہ چمتکار بھی ہوا کہ ون یونٹ کی تشکیل کے بعد پارلیمانی پارٹی اگلی صبح ریپبلیکن پارٹی کے نام سے طلوع ہوئی۔ کہتے ہیں کہ لیگ کو ریپبلیکن بنانے کا منتر اسکندر مرزا نے اس وقت کی عسکری بیوروکریٹک اسٹیبشلمنٹ کی مدد سے پڑھا۔ جب ضرورت ختم ہو گئی تو ریپبلیکن پارٹی بھی غروب ہو گئی۔
تاریخ میں ہمیں ایوب کھوڑو کی سندھ مسلم لیگ کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔ میاں افتخار ممدوٹ کی جناح مسلم لیگ کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔
انیس سو چھ کی آل انڈیا مسلم لیگ میں پہلی دھڑے بندی انیس سو ستائیس میں ہوئی جب لیگ کا ایک حصہ سائمن کمیشن کی تجاویز کی حمایت میں مسلم لیگ پنجاب کے صدر سر میاں محمد شفیع کی قیادت میں الگ ہو گیا۔ اور اخبارات نے اسے شفیع لیگ کا نام دیا۔ جب کہ جناح صاحب سائمن کمیشن کی تجاویز من و عن تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے اور انھوں نے جواب میں چودہ نکات پیش کیے۔ مگر وہ شرافت کے دور کی دھڑے بندی تھی لہٰذا انیس سو تیس میں پارٹی پھر متحد ہو گئی۔
وہ مسلم لیگ ہندوستان گیر جماعت تھی جو اپنا مقصد حاصل کرنے کے بعد غروب ہو گئی۔ اور پھر پاکستان سیاسی ریلوے اسٹیشن بن گیا۔ جہاں یہی پتہ نہیں چلتا کہ یہ جو بیس ڈبے اسٹال پر نظر آ رہے ہیں ان میں سے حافظ کا اوریجنل ملتانی سوہن حلوہ کون سا ہے؟
بشکریہ: ایکسپریس
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر