نومبر 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اقتدار کے بھوکے||رؤف کلاسرا

یوں عمران خان اور شریف خاندان کی پاور اسٹرگل ہمیں اس موڑ پر لے آئی ہے جہاں ہمارے اندر ایک عجیب سی اذیت بھر گئی ہے۔ ہم خودکو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ ہم اپنا اقتدار چاہتے ہیں چاہے ملک کو کتنا بڑا نقصان ہی ہو جائے۔

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یاد پڑتا ہے برسوں سے پاکستان کے بارے میں کہا جاتا آتا رہا ہے کہ یہ ملک گورنس کے قابل نہیں رہا۔ یہ جلد دیوالیہ ہو جائے گا۔
اس وقت ہنس پڑتے تھے۔ کچھ دوست کہتے تھے کہ ملک کوئی کارپوریشن نہیں ہوتے جو دلوالیہ ہو جائیں۔ میرا بھی یہی خیال تھا کہ پاکستان پر ایسی صورت حال کبھی نہیں آئے گی۔ ہمیشہ ایک امید رہتی تھی کہ کسی وقت کوئی معجزہ ہو جائے گا۔ لیکن لگتا ہے ہماری زندگیوں میں اب یہ شاید یہ کام بھی ہو جائے ۔
کچھ عرصے سے میں نے ایک چیز نوٹ کی ہے کہ ہمارے اندر ایک مریضانہ قسم کا روحجان پرورش پارہا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ہم اپنا کوئی پوائنٹ ثابت کرنے کے لیے چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بھی وہی حالات پیدا ہوں جو سری لنکا میں پیدا ہوئے تاکہ ہم اس بات میں تسلی پاسکیں کہ دیکھا میں ناں کہتا تھا کہ پاکستان نہیں چل پائے گا۔ اپنے مخالفوں کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے ہم ملک میں سری لنکا جیسے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
اگر مجھ سے پوچھیں تو اس وقت کوئی سیاستدان ایسا نہیں لگ رہا جسے اس ملک اور عوام کی فکر ہو۔ اگر خدانخواستہ ملک کو کچھ ہوا تو تسلی رکھیں موجودہ سیاسی ایلیٹ میں سے کسی کو نقصان نہیں ہوگا۔ ان کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ بگڑے گا اسی عوام کا جو اپنے اپنے لیڈر کو سچا ثابت کرنے کے لیے سری لنکا جیسے حالات چاہتی ہے۔
عمران خان کے حامی اس بات پر پکے ہیں کہ اگر ان کا کپتان اس ملک کا وزیراعظم نہیں ہےتو پھر ان کی بلا سے کچھ بھی ہو جائے۔
میں چند دنوں کے لیے امریکہ آیا ہوا ہوں تو یہ بات اکثر پاکستانیوں سے سنی ہے۔ ان کے نزدیک پاکستان کی کوئی اہمیت نہیں ہے اگر ان کا پسندیدہ وزیراعظم عمران خان نہیں ہے۔
وہ بڑے جذباتی ہیں بلکہ کچھ دوستوں کو میں نے اپنے ساتھ اجنبی رویہ تک اختیار کرتے دیکھا۔
میں نے ہنس کر ایک دوست سے پوچھ لیا میں تو اس حق میں تھا کہ عمران خان کو پانچ سال وزیراعظم رہنا چائیے۔ اگرچہ تحریک عدم اعتماد ایک جمہوری عمل ہے لیکن پھر بھی میں سمجھتا ہوں جنہوں نے وہ تحریک جمع کرائی انہوں نے اپنے پائوں پر کلہاڑا مارا۔ عمران خان حکومت جنوری فروری میں جنتی ان پاپولر ہوچکی تھی اس کا اندازہ اب کرنا مشکل ہے کیونکہ ان چار ماہ میں حالات عمران خان کےحق میں بدل چکے ہیں۔
عمران خان خوش قسمت نکلے ورنہ اب تک عوام ان کا بھی وہی حشر کر چکے ہوتے جو اس وقت شریف خاندان کا ہورہا ہے۔ شہباز شریف نے اڑتا تیر بغل میں لیا ہے ورنہ عمران خان خود اس وقت حکومت سے فرار ہونے کی جگہ ڈھونڈ رہے ہوتے۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر ہی وہ اسٹیٹ بنک گورنر کا اسمبلی سے قانون پاس کراچکے تھے کہ وہ آزاد ہوگا جس سے ملک کا وزیراعظم بھی جواب طلبی نہیں کر سکے گا۔
نواز لیگ کے لیڈرز ساری عمر خود کو بہت ذہین اور چالاک سمجھتے رہے لیکن اب انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ ان کا دماغ بند ہوگیا تھاکہ انہوں نے سامنے کی بات نظرانداز کر دی اور محض ایک آرمی چیف کی نومبر میں تقرری کے معاملے پر اتنا بڑا خطرہ مول لے لیا جو ان کی سیاست کے خاتمے کا سبب بن رہا ہے۔ نواز لیگ کو اچانک محسوس ہورہا ہے کہ چار ماہ کے اندر اندر ان کی سیاست ختم ہوگئی ہے۔ وہ ایک ایسی گلی میں پھنس گئے ہیں جس سے نکلنا ان کو ناممکن لگ رہا ہے۔ شہباز شریف اب چوبیس کلومیٹر اسلام آباد کے علاقے تک محدود ہوگئے ہیں۔ اب پنجاب پرویز الہی کے پاس جاتا ہے تو شہباز شریف، مریم نواز اور نواز شریف کے پلے کیا رہ جائے گا؟
اسلام آباد میں وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھ کر شہباز شریف کیا کریں گے اگر ان کے پاس پنجاب نہیں ہے۔ پنجاب کی ہمیشہ سے پاکستانی سیاست میں وہی حیثیت رہی ہے جو کبھی ہندوستان میں پانی پت کے میدان کی ہوا کرتی تھی۔ جو پانی پت کے میدان میں جنگ جیتا تھا وہ دلی کے تخت پر بیٹھتا تھا۔ پاکستان میں جس نے وزیراعظم بننا ہے اسے پنجاب سے الیکشن جیتنا پڑے گا ورنہ وہ بے شک تین صوبوں سے بھی جیت جائے وہ اسلام آباد حکومت نہیں بنا پائے گا۔
اس لیے شہبازشریف اور نوازشریف کی اس ساری ڈیل کے پیچھے بڑی لالچ پنجاب ہی تھا۔
خیر اب تین چار ماہ میں نواز لیگ نے چار سالوں کا سفر طے کر لیا ہے۔ ایسی بیوقوفی کی ہے کہ اس وقت لگتاہے پچھلے چار سال سے عمران خان وزیراعظم نہیں تھا بلکہ شہباز شریف تھا۔ بلکہ یوں کہیں لگتا ہے پچھلے چار سال سے عمران خان مسلسل اپوزیشن میں ہی چلا آرہا ہے۔
شریف خاندان کی اپنی رپیوٹیشن بھی اس کی راہ میں بڑی روکاٹ ہے۔ پانامہ کے بعد جس طرح ان کے سکینڈلز سامنے آئے ہیں اس کے بعد یہ بیانہ لوگوں کے ذہنوں میں بیٹھ چکا ہے کہ کچھ بھی ہو عمران خان ان کے لیول کا کرپٹ نہیں ہے۔ لوگ ابھی بھی سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے ساڑھے تین برسوں کا موازانہ نواز شریف یا شریف فیملی کے چالیس برسوں سے کرنا زیادتی ہے چاہے عمران خان کی بیگم صاحبہ نے کسی بڑے کاروباری سے پانچ سو کنال زمین “تحفہ” کے طور پر بھی لے لی ہو یا خود خان صاحب تحائف دوبئی بیچ آئے ہوں، لوگ اس وقت شریفوں اور زرداری کےکارناموں سے اتنے تنگ ہیں کہ انہیں عمران خان حکومت اور ان کی لاڈلوں کی کرپشن محسوس ہی نہیں ہوتی۔ وہ سمجھتے ہیں خان ابھی ان سے بہت بہتر ہے۔ وہ خان کی کرپشن کی کہانیوں کو نظر انداز کرنے کو تیار ہیں۔ وہ بزدار حکومت کی نالائقیاں، مانیکا، احسن جیمل گجر اور فرح خان کے بارے حیران کن کہانیوں پر بھی یقین نہیں کرتے۔
بہرحال یہ بات طے ہے شریف خاندان جو ہر دفعہ اچھی بزنس ڈیل کرتا تھا اس دفعہ سودے بازی میں مار کھا گیا ہے۔ اس دفعہ عقل پر پردہ پڑ گیا تھا۔ وہی بات کہ بندہ ضرورت سے زیادہ جب خوداعتمادی کا شکار ہوتا ہے تو وہ غلطیاں کرتا ہے۔ جب ساڑھے تین سال بعد عمران خان آخرکار عوام میں اپنے فیصلوں کی وجہ سے نامقبول ہونا شروع ہوگیا تھا اور پی ٹی آئی کے وزیروں کا باہر نکلنا ویسے ہی مشکل ہورہاتھا جیسے آج شہباز شریف کی کابینہ کے وزیروں کا ہوچکا ہے، تو اسے وقت ہی شہباز شریف نے اپنے کندھے پیش کر دیے اور عمران خان کو بیل آئوٹ کر دیا۔
اب لاکھ نواز لیگ کے لیڈران کہتے رہیں کہ انہوں نے ریاست کو بچانے کے لیے قربانی دی ورنہ پاکستان ڈیفالٹ کرجاتا۔ انہوں نے ریاست بچائی اور اپنی سیاست ڈبو دی۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان کو لالچ اور خوف لے ڈوبا۔ لالچ اقتدار کی تھی جب کہ خوف نومبر کا تھا۔
اب انہیں احساس ہورہا ہے کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے۔
دوسری طرف تمام جماعتیں مل کر زور لگا رہی ہیں کہ وہ پاکستان کو پوری دنیا میں ایک تماشہ بنا کر پیش کریں۔ مان لیا پوری دینا اس وقت ایک بحرانی کیفیت کا شکار ہے اور ہر ملک کوئی نہ کوئی مسائل کا شکار ہے۔ لیکن جو حالت اس وقت پاکستان کی ہوچکی ہے وہ آپ کو کہیں اور نظر نہیں آتی۔ پہلی دفعہ پاکستان کے حالات دیکھ کر خوف آرہا ہے۔ لگتا ہے ہم سب پر خودکشی کا ایک دورہ پڑگیا ہے۔ ہم اس وقت اپنے دشمن خود بن چکے ہیں۔ آپ سوشل میڈیا پر جائیں تو اندازہ ہوگا ہماری کیا حالت ہوچکی ہے۔ خود کو اذیت دے رہے ہیں۔ کوئی ایک بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ عمران خان چاہتے ہیں کہ وہ روز کوئی نہ کوئی نیا دبائو ریاست اور ریاستی اداروں پر بڑھاتے چلیں جائیں تاکہ نومبر سے پہلے انتخابات ہو جائیں چاہے اس دوران ملک دلوالیہ ہوتا ہے ہو جائے انہیں پرواہ نہیں ہے۔ دوسری طرف شہباز شریف ہیں جو ہر قیمت پر اقتدار پر چمٹے رہنا چاہتے ہیں چاہے ملک کا بیڑا غرق ہو جائے۔
یوں عمران خان اور شریف خاندان کی پاور اسٹرگل ہمیں اس موڑ پر لے آئی ہے جہاں ہمارے اندر ایک عجیب سی اذیت بھر گئی ہے۔ ہم خودکو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ ہم اپنا اقتدار چاہتے ہیں چاہے ملک کو کتنا بڑا نقصان ہی ہو جائے۔
ان برسوں میں پہلی دفعہ دیکھ رہا ہوں لوگوں کے ذاتی اور سیاسی مفادات ریاست پر بھاری پڑ گئے ہیں۔ ریاست چند اقتدار کے بھوکوں کے ہاتھوں خطرے میں ہے اور اسے دور دور تک بچانے والا کوئی نظر نہیں آرہا۔

یہ بھی پڑھیے:

ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا

پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا

رؤف کلاسرا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author