امتیاز عالم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے انتخاب پر پھر سے سیاسی و آئینی طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ پچھلی بار حمزہ شہباز بڑی ”اکثریت“ سے کامیاب ہوئے تھے، لیکن کامیابی کا سہرا سجانے والے تحریک انصاف کے پچیس منحرفین اپنی نشستیں گنوا بیٹھے اور عمران خان نے ایک طوفانی مہم سے بیس میں سے پندرہ نشستیں جیت کر انتخابی معرکہ سر کر لیا تھا، لیکن اخلاقی و عددی برتری کے باوجود گزشتہ روز کے وزیراعلیٰ کے انتخاب میں واضح اکثریت کے باوجود عمران خان کے بقول ”پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو“ پر وزارت اعلیٰ کا تاج نہ سجا سکے۔
آئین کے آرٹیکل 63۔ A کی سپریم کورٹ کی تشریح جو تحریک انصاف کے خوب کام آئی، اس بار مسلم لیگ ق کے 10 ووٹ گنے جانے کی راہ میں حائل ہو گئی۔ یوں چوہدری پرویز الہٰی کے 186 اکثریتی ووٹوں کے باوجود حمزہ شہباز سات ووٹ کم ہونے کے باوجود 179 ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے۔
مسلم لیگ ق کے صدر شجاعت حسین کے خط کی بنیاد پر ڈپٹی اسپیکر نے ق لیگ کے 10 ووٹ شمار نہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں پرویز الہٰی کی شکست اور حمزہ شہباز کی فتح کا اعلان کر دیا۔ اب وکلا کی فوجیں ہیں جو آئین کے آرٹیکل 63۔ A کی مختلف تشریحات کر رہی ہیں۔
ایک گروپ کہہ رہا ہے کہ پارلیمانی پارٹی کا فیصلہ (اگر تھا) تو بنیادی ہے، جبکہ دوسرا گروپ پارٹی سربراہ کی ہدایت کو فیصلہ کن قرار دے رہا ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ کبھی پاکستان میں کسی پارلیمانی پارٹی نے کسی بڑے فیصلے کا اختیار پارٹی سربراہ کی بجائے کسی اور کو دیا ہو۔
بدقسمتی سے سپریم کورٹ کے پے در پے فیصلوں اور خاص طور پہ 17 مئی کے فیصلے سے اتنا کنفیوژن پھیلا ہے کہ آرٹیکل 63۔ A کی نئی تشریح سے یہ شق پارٹی سربراہ کے حق میں اور اراکین کے اپنی مرضی سے ووٹ ڈالنے کے استحقاق کے خلاف سمجھی جا رہی ہے۔ جس میں اگر کوئی رکن پارٹی سربراہ کی ہدایت کے خلاف ووٹ بھی دے گا تو وہ شمار نہیں ہو گا۔
یہی ڈپٹی سپیکر نے کہا اور عددی اکثریت ہار گئی جو بنیادی جمہوری اصول کے منافی ہے۔ اس سب ٹوپی ڈرامے کے پیچھے سیاست کے بڑے کھلاڑی آصف علی زرداری انتخاب سے ایک روز قبل رات گئے چوہدری شجاعت حسین کو پی ٹی آئی کے امیدوار کو ناکام بنانے کے لیے ایک خط لکھوانے میں کامیاب ہو گئے اور بساط پلٹ گئی۔
آصف زرداری اور شجاعت حسین میں اتفاق تھا کہ پرویز الہٰی اگر مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے امیدوار بن جائیں تو انہیں سپورٹ کیا جائے، لیکن اگر وہ تحریک انصاف کے امیدوار رہیں گے تو ان کی مخالفت اور حمزہ شہباز کی حمایت کی جائے۔ یوں پنجاب تحریک انصاف کے ہاتھ میں آتا آتا مسلم لیگ نون کے پاس فی الوقت بچ رہا ہے۔ لیکن کتنے روز؟
اب معاملہ پھر سپریم کورٹ کے پاس ہے جس نے رات گئے ڈپٹی سپیکر کے فیصلے کے خلاف رٹ پٹیشن قبول کرلی ہے۔ اب سپریم کورٹ اپنے ہی فیصلے کی پھر سے کیا تشریح کرتی ہے، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن حکمران اتحاد نے مطالبہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ کا گزشتہ بنچ نہیں بلکہ پوری سپریم کورٹ کا مکمل بنچ اس معاملے یا آرٹیکل 63۔ A جیسا کہ وہ ہے، بارے فیصلہ کرے نہ کہ آئینی تشریح کے نام پر آئین کی شق کو ہی بدل کر رکھ دے جو کہ مقننہ کا حق ہے۔
اس ساری دھما چوکڑی میں پارلیمانی سیاست، جمہوری اقدار اور آئینی بالادستی کا جنازہ نکل گیا ہے۔ جو سیاسی بحران عمران خان کے خلاف قبل از وقت عدم اعتماد کے کامیاب ووٹ سے شروع ہوا تھا وہ اب پنجاب کی سیاست کے سنگھا سن کو ہلا رہا ہے، جس کے سنگین نتائج آئندہ دنوں میں معیشت کے لیے مہلک ترین مضمرات کے ساتھ ظہور پذیر ہوں گے۔
سیاست کا ایک تماشا لگا ہے اور ملک معاشی طور پر ڈوب رہا ہے۔ سیاست کا بھی کیا المیہ ہے کہ پاکستان کی تینوں بڑی پارٹیاں ایک ایسی جماعت (مسلم لیگ ق) کی اندرونی خاندانی خلفشار کی نذر ہو گئی ہیں جو جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف کے سیاسی فراڈ چلانے کے لئے بنائی گئی تھی۔
ایک پرویز الہٰی کی سیاسی قلابازیوں اور چوہدری خاندان کی اندرونی رسہ کشی نے تینوں بڑی جماعتوں کو بے دست دبا کر کے رکھ دیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک گندی مچھلی سارے تالاب کو خراب کر سکتی ہے۔ لیکن یہاں تو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ اس میں آصف زرداری کی سیاسی چال بازی کو دوش کیوں؟
سارے فریقین اپنے اپنے مفاد اور پاور اسٹرگل میں کبھی ایک اصول کا پرچم بلند کرتے ہیں تو دوسرے ہی لمحے اس پرچم کو رسوا کر دیتے ہیں۔ اصول رہا، نہ پارلیمانی اقدار، جمہوریت کے خد و خال مٹے ہیں تو آئین کی بے حرمتی اور عدلیہ کے متضاد فیصلوں سے اداروں کی بے توقیری زبان زدعام ہے۔
سیاستدان ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔ نہ ہی عمران خان اپوزیشن لیڈر کے طور پر کھیل کے کسی اصول پر کھڑے ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اب انتخابات نومبر میں ہوں یا مارچ میں یا اس سے آگے، کچھ زیادہ فرق پڑنے والا نہیں۔ نہ ہی نیوٹریلیٹی پہ مصر مقتدرہ یا افواج کی سیاست سے عدم دلچسپی وجہ نزاع ہونی چاہیے جو کہ ایک مثبت تبدیلی ہے۔
اگر کوئی بات قومی پریشانی کی سب سے بڑی وجہ ہے تووہ ہے معاشی بحران جو گزشتہ تمام حکومتوں ہی کی دین ہے اور سبھی پر قومی ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ مل کر معاشی سلامتی و بحالی کے لیے ایک ایجنڈے پہ آئیں اور آئندہ کے انتخابات کے فریم ورک پر اتفاق رائے پیدا کریں۔
اتحادی حکومت معاشی بحران کا پتھر اٹھا رہی ہے تو عمران خان کیوں انارکی پیدا کرنے پہ تلے ہوئے ہیں۔ ملک کا معاشی دیوالیہ مکمل طور پر پٹ گیا تو پھر کوئی حکومت چل پائے گی نہ ملک سنبھل پائے گا۔ اب کوئی فوجی نسخہ بھی کام نہ آئے گا۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ عمران خان کو معاشی سلامتی و بحالی اور آئندہ صاف و شفاف انتخابات پہ کھلے ایجنڈے اور کھلے دل کے ساتھ دعوت دے، عمران خان جو پنجاب کی حکومت لینے کے لیے اتنے بے چین ہیں اور ضمنی انتخابات میں بھرپور شرکت سے کھوئی ہوئی صوبائی نشستیں حاصل کرتے ہیں، ان کی قومی اسمبلی میں واپس نہ جانے کی بات سمجھ سے باہر ہے۔
اگر آپ آئینی و پارلیمانی دائرے میں رہنا چاہتے ہیں اور اسے برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو پھر بات چیت کی میز پر آنا ہو گا۔ سڑکوں کو گرمانے سے پاکستان سری لنکا ہی بن سکتا ہے جہاں اب کوئی حکومت چل نہیں پا رہی۔ بہتر ہے کہ ہوش کے ناخن لیں اور وسیع تر قومی مفاد میں ایک چارٹر آف اکانومی اور چارٹر آف ڈیماکریسی پر اتفاق کریں اور ملک کی نیا ڈوبنے سے بچائیں۔
یہ بھی پڑھیے:
قضائے الٰہی اور انسانی گناہوں کی سزا۔۔۔امتیازعالم
بدلتا علاقائی منظر اور او آئی سی کا زوال۔۔۔امتیازعالم
امریکہ کی واپسی اور چین کے بدلتے تیور۔۔۔امتیازعالم
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر