نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جنرل باجوہ کا ڈنڈا اور ففتھ جنریشن وارفیئر کا انجام||محمد حنیف

ہمارے پرانے لوگوں اور کافی نئے لوگوں کو بھی لگتا ہے کہ عورت ہمارے قابو سے باہر ہو چلی ہے۔ زندگی کے جس شعبے میں 30 سال پہلے عورت نظر نہیں آتی تھی وہاں اس نے اپنی جگہ بنا لی ہے۔ بینک بھی چلاتی ہے، شاپنگ مال میں دکان بھی سنبھالتی ہے، ریڑھی لگا کر پھل سبزی بھی بیچ لیتی ہے، کریم اور اوبر بھی چلا لیتی ہے۔

محمد حنیف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خواتین

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

گوروں کی فنڈنگ سے چلنے والے عالمی ادارے ہر کچھ دن بعد دنیا کے ملکوں کی ایک فہرست جاری کر دیتے ہیں۔ کبھی یہ فہرست کہ دنیا میں سب سے زیادہ کرپشن کہاں ہے، کبھی صحافیوں کی آزادی اور بربادی کے حساب سے لسٹ، کبھی عدلیہ کتنی آزاد ہے۔ ایسی تمام فہرستوں پر نیچے سے نظر ڈالیں تو زیادہ اوپر نہیں جانا پڑتا، پاکستان کا نام سب سے نیچے دس پندرہ ممالک میں مل جاتا ہے۔

ایک دفعہ کوئی ایسی فہرست بھی بنی تھی کہ کس ملک کے رہنے والے سب سے زیادہ حساس ہیں۔ اس فہرست میں خدا کا شکر ہے کہ ہمارا نام آخری دس میں نہیں تھا۔ جس سے اندازہ ہوا کہ ہم میں سو خامیاں ہوں کوئی ہمیں دنیا کا سب سے بے حس ملک نہیں کہہ سکتا۔

دنیا جو بھی کہتی رہے ایک عالمی رینکنگ کی فہرست ہمارے اجتماعی ذہن میں بھی موجود ہے جس کے مطابق پاکستان دنیا کا واحد اسلامی ملک ہے جو ایک ایٹمی طاقت ہے۔ ہم دنیا کی چوتھی ذہین ترین قوم بھی ہیں۔ یہ آئی کیو ٹیسٹ کیسے ہوا اور کہاں ہوا اور اس میں پہلے تین نمبرز پر آنے والے کون سے ملک ہیں۔ کچھ مہینے پہلے تک ہمیں یہ بھی یقین تھا کہ ہماری خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی دنیا کی نمبر ون ایجنسی ہے۔

آج کل اس پر دو نمبری کے الزام لگ رہے ہیں لیکن وہ سیکرٹ سروس ہی کیا ہوئی جس کے دشمن دار نہ ہوں۔ اگر دنیا میں غیرت مند ملکوں کی کوئی فہرست بنتی تو چار ماہ پہلے تک ہم ٹاپ پر چل رہے تھے۔ آج کل ہمارے سابق وزیر اعظم عمران خان کے مطابق ہم بے غیرتوں میں سر فہرست ہیں۔

گذشتہ ہفتے عورتوں کے حقوق کے بارے میں ایک فہرست جاری ہوئی اس میں ہمارا 145واں نمبر ہے۔ ہم سے نیچے صرف ایک ملک ہے اور وہ ہے ہمارا غیور اور برادر اسلامی ملک افغانستان۔

پہلے تو دل کو تسلی ہوئی کہ مغرب کی غلامی کے باوجود ہم غلامی کی زنجیریں توڑنے والے اسلامی ملک کے ساتھ کھڑے ہیں، پھر ارد گرد نظر دوڑائی تو لگا کہ شاید ہمارے ساتھ زیادتی ہو گئی ہے۔

سکول کی بچیاں

ہمارا خواب تو یہی رہا ہے کہ ایک دن ہم بھی طالبان کی طرح ہر زنجیر توڑ ڈالیں گے اور عورتوں کو وہ مقام دلا کر رہیں گے جس کا وعدہ اسلام میں کیا گیا تھا یعنی گھر بیٹھو، خدمت کرو اور اپنے پیروں کے نیچے جنت کے مزے لو۔

ملالہ

لیکن عورتوں کے معاملے میں ہمارے اس خواب کی تعبیر نہ ہو پائی۔ انھیں سکول جانے سے منع کرنے کے لیے گولیاں مارتے ہیں تو وہ نوبل پرائز جیت کر ہر بچی کو پڑھانے کے لیے جہاد شروع کر دیتی ہیں۔ پردے کا درس دیں تو بیٹ بلا اٹھا کر عالمی کرکٹ کھیلنے نکل جاتی ہیں، نظریں نیچی رکھنے کا کہو تو ٹیلی ویژن پر آ کر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر طاقتور مردوں سے تیکھے سوال پوچھتی ہیں اور ان پر دل کھول کر ہنس بھی دیتی ہیں۔

ہمارے پرانے لوگوں اور کافی نئے لوگوں کو بھی لگتا ہے کہ عورت ہمارے قابو سے باہر ہو چلی ہے۔ زندگی کے جس شعبے میں 30 سال پہلے عورت نظر نہیں آتی تھی وہاں اس نے اپنی جگہ بنا لی ہے۔ بینک بھی چلاتی ہے، شاپنگ مال میں دکان بھی سنبھالتی ہے، ریڑھی لگا کر پھل سبزی بھی بیچ لیتی ہے، کریم اور اوبر بھی چلا لیتی ہے۔

طالبان کو پوری دنیا طعنہ دیتی ہے کہ وہ افغنستان میں بچیوں کو سکول نہیں جانے دیتے۔ پاکستان میں کم ہی علاقے ایسے بچے ہیں جہاں لوگ اپنی بچیوں کو سکول نہیں بھیجنا چاہتے اور جو نہیں بھیجتے اس میں عقیدے سے بڑی وجہ بھوک ہے۔ اگر بچی پانچ سال کی عمر میں کام کرنا شروع نہیں کرے گی تو گھر کا چولہا کیسے جلے گا۔

خاتون

،تصویر کا ذریعہSOCIAL MEDIA

لیکن یہ چونکہ غیرت مند مردوں کا غیرت مند ملک ہے تو ہم یہ بات مان کے نہیں دیتے کہ ہمارے مرد بلکہ ہمارے ملک کی معیشت کا پہیہ عورت کی مزدوری سے چلتا ہے۔ لیکن چونکہ عورت کی کمائی کھانا ہماری غیرت کی نفی ہے اس لیے ہم اس کی کمائی کھاتے بھی رہتے ہیں لیکن طالبان والا خواب بھی نہیں بھولتے کہ عورت کو اس کی اوقات میں رکھو۔

تو ہم عورت کی کمائی بھی کھائیں گے لیکن اس کے موبائل فون میں کسی لڑکے کا نمبر دیکھ کر اس کا گلا بھی گھونٹیں گے۔ کبھی اس کے سر کے بال کاٹیں گے، کبھی ناک، کبھی وہ باورچی خانے کا سلنڈر پھٹنے سے مرے گی، کبھی اس کو کاٹ کر صحن میں دفنایا جائے گا اور جیسے گذشتہ ہفتے ہوا کہ کبھی اس دیگ میں بھی پکایا جائے گا۔

تم ہم طالبان سے تھوڑے زیادہ سیانے ہیں، بچیوں کو سکول بھی بھیجیں گے، بینک میں نوکری بھی کرنے دیں گے، بازار بھی جانے دیں گے، ضرورت پڑے تو بازار میں بٹھا بھی دیں گے۔ جس جس طرح سے اس کی محنت کی کمائی کھا سکتے ہیں کھائیں گے لیکن طالبان والا خواب کبھی نہیں بھولیں گے شاید اسی لیے ہم طالبان سے ایک نمبر اوپر ہیں۔

( بشکریہ : بی بی سی اردو )

 محمد حنیف کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author