وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں جتنے بھی سری لنکنز سے ملا ہوں انہیں انیس بیس کے فرق سے خوش مزاج، صابر، مددگار، قانون پسند اور کام سے کام رکھنے والا ہی پایا۔ شاید یہ قومی مزاج بودھ تعلیمات کے سائے سائے صدیوں کے سفر میں مرتب ہوا یا پھر جغرافیے، آب و ہوا اور مقامی روایات کا نتیجہ ہے۔
سری لنکنز کی وجہ شہرت جنگجوانہ ہرگز نہیں۔ حالیہ تاریخ میں تامل سنہالہ خانہ جنگی چھوڑ کر کوئی دوسری قابلِ ذکر پرتشدد مہم کا اتنا بڑا ثبوت نہیں ملتا۔ 70 اور 80 کے عشرے میں بائیں بازو کی ایک منظّم متشدد تحریک اور اس کے آزو بازو سنہالہ قوم پرستی کی لہر ضرور اٹھی تھی۔ مگر جلد ہی معروضی حالات اور مزاج کے سبب دم توڑ گئی۔
سری لنکنز جنوبی ایشیا میں سب سے پڑھی لکھی قوم ہیں۔ فلاحی کاموں میں بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ جنوبی ایشیا کے تمام ممالک سے دوستانہ تعلقات ہیں اور وہ ان تعلقات میں توازن رکھنا بھی جانتے ہیں۔ انہی اوصاف کے سبب بھانت بھانت کے سیاح وہاں جانا پسند کرتے ہیں۔
مغرب میں سری لنکن ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر ہنرمندوں کی اچھی پذیرائی ہوتی ہے۔ عالمی کرکٹ میں بھی سری لنکا ایک مستند نام ہے۔ فلاحی چارٹ میں بھی سری لنکا بینائی سے محروم افراد کو دنیا بھر میں آنکھوں کے ہزاروں عطیات سالانہ فراہم کر کے لاتعداد دعائیں سمیٹتا ہے۔
اسی سبب وہاں جو کچھ بھی اس وقت ہو رہا ہے سری لنکا قطعاً اس کا مستحق نہیں۔ چند طاقتوروں کی ہوسِ زر و اقتدار اور غیر منطقی معاشی و زرعی پالیسیوں نے خود پر فخر کرنے والے اس ملک کو آج ایک عظیم اقتصادی و سیاسی بحران کے نشانے پر کھڑا کر دیا ہے۔
کل دارلحکومت کولمبو میں جو ہوا۔ اس کے ہونے سے مجھ جیسے قنوطیوں کو بھی عجب سی مسرت محسوس ہوئی۔ ریاست کے نام پر مسلسل استحصال کرنے والے تب تک جیتتے رہتے ہیں جب تک ان کے سامنے ایک عام آدمی انکار بن کے کھڑا نہ ہو جائے۔
یہ تو ہم میں سے کئی نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جب مسلسل مار کا عادی ایک عام سا کمزور آدمی بھی پٹتے پٹتے اچانک تن کے پیٹنے والے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑا ہو جائے تو مدِمقابل ہنٹر والے کا اعتماد بھی ریت کی دیوار کی طرح ڈھے جاتا ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اس انہونی کا فوری موثر جواب کیسے دے۔
عین اسی لمحے مظلوم کو اندر سے ایک ثانیے کی جو حقیقی آزادی نصیب ہوتی ہے وہ اگر اسے اگلے لمحے تک برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جائے تو پھر اسے بزدلی کی بوتل میں بند کرنا کسی کے لیے بھی مشکل ترین ہو جاتا ہے۔
قدیم یونانی ڈرامہ نگار یوری پیڈیس کے بقول ایک کمزور کے انکار کی طاقت تمام خداؤں کی مجموعی طاقت سے زیادہ ہے اور یہیں سے تبدیلی کا بگل اور تبدیلی کی راہ میں مزاحم دیوتاؤں کا باجا بج جاتا ہے۔
کسی بھی ملک پر جدی پشتی مسلط طبقات کے خلاف نچلی سطح سے شروع ہونے والی بغاوت بھلے ناکام بھی ہو جائے تب بھی وہ سرحد پار لہر در لہر دور تلک سفر کرتی ہے۔ جانے یہ لہریں کن کن ساحلوں سے ٹکرا کے کیا کیا گل کھلاتی ہیں کوئی نہیں جانتا۔
الجزائری اپنے سے دس گنا بڑے فرانس کو بھگا سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں، افغان کسی کی غلامی برداشت نہیں کر سکتے تو ہم کیوں نہیں، ایرانی ڈھائی ہزار سالہ تخت پرزہ پرزہ کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں، روسی زار کی فسطائیت اڑا کے رکھ سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں، ترک درجن بھر ممالک کی حملہ آور فوج کو سمندر میں دھکیل سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں، انڈونیشین فوجی آمریت سے چھٹکارا پا سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں۔
برمی بار بار گر کے ہر ایک آدھ عشرے بعد پھر سے کھڑے ہو سکتے ہیں اور پے در پے ناکامی کے باوجود سینوں میں لگی آگ بجھنے نہیں دیتے تو ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے، چینی اگر خوابِ غفلت سے بیدار ہو کر مغرب کو منہ دے سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں۔ کیوبا اگر پچھلے ساٹھ برس سے امریکہ کی ناک کے نیچے زندہ رہنے کا حق ادا کرتے ہوئے زندہ ہے تو ہم کیوں نہیں۔
ہر کامیاب و ناکام بغاوت اور مکمل و نامکمل انقلاب اپنے پیچھے حوصلے کی لہللاتی فصل لگاتا ہے اور انکار پر یقین اور مضبوط و مسلسل کرتا ہے۔
کوئی نہیں کہہ سکتا کہ سری لنکا کا کل کتنا طویل یا مختصر ثابت ہوگا۔ البتہ پاکستان میں بھی بالادست طبقات کے ذہنوں میں یہ سوال لازماً کُلبلا رہا ہو گا کہ اگر تمام تر خفتہ و جلی، آزمودہ اور نئی، تازہ اور باسی تدابیر و بندوبست کے باوجود عام آدمی ایک دن نتائج کے خوف سے آزاد ہو کر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بس تن جاتا ہے تو کیا ہو گا؟
مشکل یہ ہے کہ بم کئی برس سے ٹک ٹک کر رہا ہوتا ہے مگر بنے ہوئے بہروں کو اس کی آواز پھٹنے کے بعد ہی سنائی دیتی ہے۔ اگر یہ مصنوعی بہرے خود کو سب اچھا ہے سب اچھا ہی رہے گا کے دھوکے میں کسی دن نہ رکھیں تو شاید انہونی کے تصور سے ہی مر جائیں۔
سری لنکا میں یہی تو ہو رہا ہے۔ کوئی دن جاتا ہے کہ ہمارے اونٹ کی کمر پر بھی وہ آخری تنکہ لادا جانے والا ہے جس سے اونٹ کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ اگر فیصلہ سازوں کو اسی لمحے کا انتظار ہے تو یہی سہی۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر