ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خاتون اور بچی۔ یہی جوڑی آتی ہے عموماً گائناکالوجسٹ کے پاس۔
کرسی پر بیٹھ کر خاتون کچھ دیر چپ رہیں، پھر اٹک اٹک کر بولیں،
”ڈاکٹر صاحب، اس کی وہ بہت خراب ہے۔ ہم بہت پریشان ہیں“
”وہ۔ ۔ ۔ وہ کیا؟“
ہم نے حیران ہو کر پوچھا۔
”وہ بیماری۔ ۔ ۔ بیماری جی“ وہ مزید ہکلا کر بولیں۔
”کون سی بیماری؟ اور ویسے ہر بیماری ہی خراب ہوتی ہے“
”جی، وہ۔ وہ جو ہر مہینے آتی ہے“ وہ مزید ہکلا کر بولیں۔
” ہائیں یہ کون سی بیماری ہے جو ہر مہینے آ جاتی ہے“ کون ہر مہینے آتی ہے؟ سمجھ تو آ چکی تھی لیکن ہم ان کے منہ سے سننا چاہتے تھے۔
”وہ جی مہینہ۔ “ وہ سوچ کر بولیں۔
”مہینہ تو ہر تیس دن بعد بدلتا ہی ہے“ ہمارا جواب۔
”نہیں میرا مطلب ہے کپڑے۔“
” کپڑے تو ہر مہینے نہیں بنائے جا سکتے، بہت مہنگائی ہو گئی ہے“
”نہیں جی، وہ گندے کپڑے۔“
” گندے کپڑے؟ کیا مطلب بھئی“
”نہیں، میرا مطلب ہے ناپاکی۔“ وہ بولیں۔
تو پیشاب اور پاخانہ بھی تو ناپاک ہی ہوتا ہے ”
” جی وہ حی۔ ۔ ۔حیض“ بالآخر انہیں کہنا ہی پڑا۔
”حیض یعنی کہ ماہواری؟“
”جی۔“
”تو آپ پہلے ہی کہہ دیتیں ماہواری سیدھے سیدھے، یہ اتنا گھما پھرا کر، اتنی مشکل سے“ ہم نے کہا۔
” وہ ڈاکٹر صاحب، شرم آتی ہے نا۔ ماہواری عورت کے پردے کی چیز ہے، ڈھکی چھپی رہنی چاہیے“ وہ بولیں۔
” دیکھئے کون کہہ رہا ہے کہ ماہواری کا خون چوک میں سجا دیں۔ مگر ماہواری لفظ کہنے اور اس سے وابستہ تکالیف کا اظہار کرنے میں کیا شرم؟ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے آپ کہیں کہ قبض ہو گئی ہے بہت، یا پیشاب جلن کے ساتھ آنا شروع ہو گیا ہے ”
ہم نے سمجھایا۔
” بس جی شروع سے یہی بتایا گیا کہ یہ لفظ ڈھکے چھپے انداز میں بولنا چاہیے بہت شرمناک بات ہے جی“ وہ آہستہ سے بولیں۔
”اچھا اتنی ہی شرمناک بات ہے تو بتائیے اگر آپ کی بیٹی کو کبھی ماہواری نہ آئے تو۔“
”اللہ نہ کرے جی“
ان خاتون سے کی جانے والی باتیں شاید آپ کو ہماری کج بحثی لگیں لیکن کیا کریں بدلاؤ کا آغاز تو اسی طرح کیا جا سکتا ہے، ٹھہرے ہوئے پانی میں پتھر مار کر۔ معاشرے نے ماہواری کو زندگی کی نمو ہونے کے باوجود وہ مقام کیوں دیا جس کا نام آتے ہی سب جھینپ جاتے ہیں اور لڑکیاں اپنی تکلیف کا اظہار ہی نہیں کر پاتیں۔ اس کا جواب ہمیں قدیم مذاہب کی داستانوں سے ملا۔
ہندو مقدس کتاب رگ وید میں لکھا گیا ہے کہ وترا نامی شیطان لوگوں سے پانی چھین کر خشک سالی اور قحط کا سبب بنتا تھا۔ اندرا، دیوتاؤں کے بادشاہ نے وترا کو مار کے پانی کو آزاد کر دیا تاکہ لوگ خوشحال ہو سکیں۔ وترا کو مار کے اندرا کو پشیمانی تھی کہ وترا برہمن تھا۔ اپنی پشیمانی دھونے کے لئے اندرا نے عورتوں سے درخواست کی کہ وہ اس پاپ کو اپنے سر لے لیں اور ہر ماہ اپنے جسم سے خون خارج کریں۔ ماہواری کے خون کو گناہ اور پشیمانی سے جوڑ دینے کے بعد عورت کا مقام معاشرے میں زوال پذیر ہوا۔
ایک اور سنسکرت کتاب دھرم سترا میں لکھا گیا، عورت کے گناہ ماہواری کے ذریعے اس سے دور کیے جاتے ہیں۔
جنت پہ ایمان رکھنے والے مذاہب نے فتوی دیا کہ عورت کو جنت سے نکلنے کی پاداش میں جو سزا ملی اس کا نام ماہواری ہے۔ ان کے خیال میں اماں حوا جس پھل کو کھا کر جنت سے نکل کر زمین پر آئیں، اس کے نتیجے میں ماہواری کا آغاز ہوا تھا۔
ماہواری سے جڑی تکلیفوں کا علاج چرچ نے ایک عرصے تک ممنوعات میں شامل رکھا کہ چونکہ یہ سزا عورت کو ملی ہے سو اس کے ساتھ جو کچھ بھی ہو، وہ اسے برداشت کرنا ہے، دوا دارو کی ضرورت نہیں۔
تاریخ دانوں نے حائضہ عورت کو جادوگرنی لکھا ہے جو ماہواری کے دنوں میں کالا جادو کر سکتی تھی۔ رومن ادیب اور فلاسفر پلنی دی ایلڈر کے مطابق حائضہ عورت میں ایسی پراسرار قوت حلول کر جاتی تھی جس کے نتیجے میں طوفانوں کا رخ موڑنا یا بجلی گرانا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔
ویسے آپس کی بات ہے اشارہ ابرو سے بجلی گرانے والی عورت کا حدود اربعہ تو اردو ادب کے شاعروں کو بھی معلوم ہے۔ اب یہ علم نہیں کہ ابرو سے بجلی صرف ماہواری کے دنوں میں نکلتی تھی یا پورا ماہ ہی یہ طلسم چلتا رہتا تھا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ بہت سی تہذیبیں یہ بھی مجھتی تھیں کہ حائضہ عورت کا سایہ ہری بھری فصل کو خشک کر سکتا ہے۔ ان کی نظر نہ صرف چمکتے آئنیے کو دھندلا سکتی تھی بلکہ ہتھیاروں کو زنگ آلود کرتی اور شہد کی مکھیوں کو مار سکتی تھی۔ دودھ دینے والے جانداروں کا دودھ حائضہ عورت کے لمس سے خشک ہو سکتا تھا، پانی کو ہاتھ لگانے سے پانی ناپاک ہو جاتا تھا۔
یہ سن کر ہمیں قطعی حیرت نہیں ہوئی۔ برصغیر پاک و ہند میں آج بھی بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں حائضہ کو باورچی خانے میں جانے کی اجازت نہیں بلکہ کچھ جگہوں پر حائضہ کو گھر سے نکال دیا جاتا ہے اور اسے ان دنوں میں ایک جھونپڑی میں رہنا پڑتا ہے۔
ماہواری کو شیطانی قوتوں سے جوڑنے کے نتیجے میں بہت سے لوگ آج بھی ماہواری کے پیڈ یا کپڑے کو کالا جادو کروانے کے لیے آئیڈیل سمجھتے ہیں۔ جس پہ بھی ایسا عمل کروانا مقصود ہو، ماہواری شدہ پیڈ اس کے راستے میں پھینک دیا جاتا ہے تاکہ جب وہ اس کے اوپر سے گزرے تو شیطانی قوتیں اس کو شکار کر سکیں۔
یہ سب ہماری سمجھ سے تو باہر ہے۔
ہماری عقل تو یہ کہتی ہے کہ انسانی جسم کی ساخت، بناوٹ اور کارکردگی قدرت کا کارنامہ ہے، اور اس میں مرد اور عورت دونوں کے جسم شامل ہیں۔ پھر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ عورت کے لیے قدرت کا ایک ایسا انتظام جو زندگی کا دھارا ہے، اسے انسانی شعور نے توہمات کی کلیاں پھندنے ٹانک کر اچھوت بنا دیا ہے۔
ہمارے خیال میں مقصد طاقت کے حصول کے سوا کچھ اور نہیں کہ صنفی کمتری کا شکار زندگی کی دوڑ میں قدم سے قدم ملا کر چلنے کے قابل کہاں رہتا ہے۔
بس یہی ہے ہمارا گائنی فیمینزم!
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر