گزشتہ روز پنجابی مصنفین اور دانشوروں نے پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران پنجاب کی تقسیم کو مسترد کرتے ہوئے پنجاب کے جنوب مغربی حصے پر مشتمل علیحدہ صوبہ کی تشکیل کے خیال کو بدعنوان وڈیروں، سرمایہ داروں، ریٹائرڈ بیوروکریٹس اور زوال پذیر سجادہ نشینوں کی سازش قرار دیا۔ پنجابی دانشوروں نے حیران کن طور پر اپنے دلائل میں پنجاب کی تقسیم کو غریب آدمی کے مفاد کے خلاف قرار دیا ۔مجھے اپنے پنجابی دوستوں سے ہمدردی ہے اور میں ان کے تاریخی، ثقافتی اور سماجی اور بالخصوص سیاسی حقائق سے لاعلمی کے احساسات کو بخوبی سمجھتا ہوں، جن حقائق کا ان کو ایک دن ضرور ادراک ہوگا۔
مجھے حیرت ہے کہ عالمی پنجابی کانگریس کے چیئرمین فخر زمان اپنے ماضی کے موقف سے کس طرح منحرف ہو سکتے ہیں جب وہ بشمول ہندکو اور سرائیکی، پاکستان کے لوگوں کی زبانوں کو قومی زبانیں کہتے تھے، جیسا کہ انہوں نے 1986 میں کراچی میں ہونے والی بین الاقوامی مصنفین کانفرنس ، 1987 میں لاہور میں ان کی جانب سے منعقدہ جمہوریت پسند مصنفین کانفرنس میں کہا اور اس بات کا اعادہ وہ اس وقت بھی کرتے رہے جب وہ اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین تھے۔ اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہوسکتا ہے کہ ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ اور جمہوریت پسند مصنف اب یہ کہتا ہے کہ ” ہم چار قومیتوں پر یقین رکھتے ہیں اور چار قومی زبانوں کوں اردو کی ذیلی زبانیں مانتے ہیں“۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ نام نہاد ترقی پسند، سیکولراور جمہوریت پسند پنجابی مصنفین اور دانشور چار قومیتوں کے علاوہ پاکستان کے دیگر لوگوں کی لسانی، تاریخی اور ثقافتی شناخت کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ ان کا سابقہ اصولی موقف سے انحراف شاید اپنے مفادات ، سرمایہ داروں، بڑے پنجابی کاروباری حضرات اور سول ملٹری بیورو کریسی کے دباؤ کا نتیجہ ہو اور بطور پاکستان کے غالب نسلی گروہ کا حصہ ہونے کی وجہ سے ان کی ذاتی مراعات کے حصول کا شاخسانہ ہو اور اس سے نوآبادیاتی ذہنیت کا اظہار ہوتا ہے جو برطانوی سامراج کی میراث اور باقیات میں سے ہے۔
جو کچھ میں نے کہا ہے یہ ایک تاریخی حقیقت ہے ، جیسا کہ تان تائی یانگ نے اپنی تصنیف ” پنجاب ۔۔۔۔ دی گیریژن اسٹیٹ ” میں لکھا ہے کہ ” ریاستی تشکیل کے عمل کے تاریخی تسلسل سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح نوآبادیاتی ریاستوں کی ہیؑت اور کردار اور پنجاب میں معاشرتی تشکیل میں فوجی مداخلت اثر انداز ہوئی اور پوسٹ کلونیل ریاستوں میں تاحال ان کا ورثہ موجود ہے۔
اب تقسیم پنجاب کے بیانیہ کی طرف آتے ہیں جو کہ گمراہ کن ، تاریخ کو مسخ کرنے اور تاریخی، ثقافتی ، سماجی اور لسانی حقیقتوں سے انکار کے مترادف ہے۔ سرائیکی عوام کا مطالبہ پنجاب کی تقسیم نہیں بلکہ ملتان اور بہاولپور کے مقبوضہ علاقوں کی خودمختاری کی بحالی کا مطالبہ ہے۔ قبل ازیں پنجاب دو بار تقسیم ہو چکا ہے ؛ اولاً جب رنجیت سنگھ نے برطانوی راج کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کئے اور دریائے ستلج کو جنوبی اور شمالی پنجاب کے مابین حد فاصل بنایا گیا ۔ اور دوسری بار تقسیم ہند کے وقت جب پنجاب کو مشرقی (بھارتی ) پنجاب اور مغربی (پاکستانی) پنجاب میں تقسیم کیا گیا ۔ یہ امر بھی دلچسپ ہے کہ بھارتی پنجاب میں سے دو صوبے مزید تشکیل دیئے گئے۔
تاریخ میں کبھی بھی ملتان پنجاب کا حصہ نہیں رہا۔ برطانوی سامراج نے 1849 میں ملتان کو انتظامی ڈویژن بنا کر پنجاب سے منسلک کر دیا تھا۔ حتیٰ کہ ملتان پر سکھوں کے قبضے کے دوران بھی ملتان کی الگ صوبائی حیثیت برقرار تھی اور دیوان ساون مل اور دیوان مول راج سکھ راج کے تحت ملتان کے گورنر تھے ۔ بہاولپور ریاست کو اس وقت پنجاب کا حصہ بنایا گیا جب 1969 میں ون یونٹ ٹوٹا ۔
درحقیقت ، بٹوارے کے وقت پنجاب کا بہت بڑا حصہ بھارت کو مل گیا تھا جبکہ پاکستانی پنجاب بھارتی سرحد کے ساتھ ساتھ قصور سے جہلم تک محض 200 کلومیٹر لمبائی کی پٹی پر باقی بچ گیا۔ لہٰذا تقسیم پنجاب کا بیانیہ محض ایسا فضول واویلا ہے جس کا مقصد پنجاب اور پاکستانی ریاست کے نو آبادیاتی مفادات کا تحفظ ہے۔
سرائیکی وسیب کا معاملہ سندھ کے معاملے سے مماثل ہے۔ 1847 میں برطانوی سامراج نے سندھ کو بمبئی پریزیڈنسی سے منسلک کیا تھا۔ نصف صدی سے زائد عرصہ تک سندھ پر بمبئی پریزیڈنسی کے تحت حکمرانی کی گئی ۔ 1920 میں پہلی بار غلام محمد بھرگڑی اور اس ہندو مسلم دوستوں نے بمبئی پریزیڈنسی میں سندھ کی حیثیت پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے آواز بلند کی۔ ملتان اور سندھ دونوں کو برطانوی سامراج کی جارحیت کے خلاف مزاحمت کی سزا دی گئی۔ لہٰذا سندھ کو بمبئی اور ملتان کو پنجاب سے منسلک کیا گیا۔
پنجاب کی نوآبادیاتی گرفت مضبوط کرنے اور ثقافتی اور لسانی تجاوزات اور زمینوں پر قبضے کا عمل اس وقت شروع ہوا جب ون یونٹ کے قیام کے بعد لاہور کو صوبہ مغربی پاکستان کا دارالحکومت بنایا گیا۔ تاہم اس سارے عمل کا روپذیر ہونا سرائیکی شعور کی بیداری کا سبب بھی تھا۔ 60 کی دہائی کے اوائل میں سرائیکی مصنفین ون یونٹ کے خلاف سندھیوں ، بلوچوں اور بختونوں کی تحریک سے متاثر ہوئے ۔ بہاولپور میں ون یونٹ مخالف محاذ تشکیل دیا گیا، عوامی اجتماعات منعقد ہوئے اور ون یونٹ کے خاتمے کے لئے جلوس نکالے گئے۔ محاذ کے متعدد کارکنوں کو گرفتار کر کے جیل میں ڈالا گیا۔
جب ون یونٹ کا خاتمہ ہوا تو بہاولپور صوبہ محاذ نے بہاولپور کی صوبائی تشکیل کے لئے تحریک شروع کی۔ تحریک کو بہیمانہ تشدد کے ذریعے دبایا گیا۔ بہاولپور صوبہ محاذ دراصل سرائیکی صوبہ محاذ کی بنیاد تھا ، جیسا کہ بعد ازاں بہاولپور صوبہ محاذ کے رہنما سرائیکی تحریک میں شامل ہوگئے۔ سرائیکی تحریک کی زیادہ تر افرادی قوت کسانوں، تعلیم یافتہ نوجوانوں، نچلے درمیانہ طبقہ اور دانشوروں پر مشتمل ہے۔ جبکہ سرائیکی وسیب کی روایتی سیاسی اشرافیہ کی اکثریت ہوا کا رخ دیکھ کر اپنی سمت کا تعین کرتی ہے۔
تقسیم ہند کے نتیجے میں خالص پنجابی لوک ادب، لوک موسیقی اور سنگیت سرحد کے اس پار بھارتی پنجاب میں رہ گیا تھا۔ جب صوبائی حکومت کی سرپرستی میں لاہور ثقافتی اور ادبی سرگرمیوں کا مرکز بنا تو سرائیکی وسیب کی زبان، ادب، ثقافت اور لوک موسیقی پر بتدریج پنجابی زبان ، ادب اور ثقافت کے قبضے کی راہ ہموار کی گئی۔ محض ایک چیز جس پر پنجابی دانشور دعویٰ نہیں کر سکتے وہ ہے سرائیکی رقص ” جھمر ” ، شاید پنجابی لوگ کبھی بھی اس کا مظاہرہ کرنا نہ سیکھ سکیں۔ رقص کسی بھی انسانی گروہ کی ثقافتی شناخت کا پہلا اور سب سے اہم اظہار ہوتا ہے ۔ ہمارے پنجابی دوست پاکستانی پنجاب اور بھارتی پنجاب کے علاقوں کے رقص ” بھنگڑا ” پر خوشی سے اپنا حق جتاتے ہیں۔
اگر پنجابی مصنفین اور دانشور، مقبوضہ علاقوں پرقبضہ گیریت ، نوآبادیاتی میراث اور نوآبادیاتی ذہنیت کو ترک کرتے ہوئے انگریزوں کی پیدا کردہ خرابیوں کو درست کرنے میں مدد دیں تو یہ عمل زیادہ قابل ستائش ہوگا۔
(مصنف سرائیکی لوک سانجھ کے بانی جنرل سیکرٹری ہیں)
انگریزی سے ترجمہ : عباس ڈاہر
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر