گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیرہ کے چوٹی والے بادل کہاں گئے؟
آجکل ڈیرہ اسماعیل خان میں شدید گرمی پڑ رہی ہے۔
میں صبح سویرے بیدار ہوتا ہوں تو مشرق کی طرف صبح کا تارا میرا استقبال کرتا ہے ۔ جب ذرہ پو پھٹنے لگتی ہے تو مشرق سے بادلوں کی چھوٹے ٹکڑے تیرتے نظر آتے ہیں تو دل خوش ہو جاتا ہے ۔ آج میں نے ان تیرتے بادلوں کی تصویر بنالی اور پیش کر رہا ہوں۔ ہمارے مشرقی پری مون سون بادل ابھی ہم سے بہت دور بمبئ کے ساحل پر موجود ہیں البتہ یہ بادلوں کی ٹکڑیاں ہمیں جھانکنے روز آ جاتی ہیں اور دل کو تسلی ہو جاتی ہے کہ ہم بادلوں کی یاداشت میں موجود ہیں ۔ ہمارے بچپن کے زمانے میں ساون کے مہینے میں ڈیرہ کے مشرق سے سفید چوٹیوں والے بادل آتے اور خوب برستے۔یہ اتنے خوبصورت بادل تھے کہ ان کی شان میں ساون کے گیت اور غزلیں بنائی گئیں۔بادل برسنے کے بعد ہم چڑیوں کو پکڑنے کے لیے ایک مرغیوں کے ڈربے والے ٹوکرے کی پھائی یا ٹریپ بناتے۔اور اس کے نیچے دانہ ڈال کر جب چڑیاں داخل ہوتیں تو رسا کھینچ کر پکڑ لیتے۔چڑیوں کو ہاتھ میں پکڑنا بڑا مزہ دیتا پھر ان پر نیلےپیلے رنگ لگا کر چھوڑ دیتے۔بعد میں جب وہ رنگدار چڑی درخت پر نظر آتی تو ہم خوش ہوتے کہ یہ میری والی چڑیا ھے
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر