وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری تاریخ میں بارہا ایسا ہوا کہ عوام ادھر ادھر کے تماشوں میں الجھے تھے اور اقتدار کے ایوانوں میں خاموشی سے کسی قانون، پالیسی یا محض انتظامی حکم کی مدد سے قوم کی تقدیر لکھ دی گئی۔ ایسی خبر ذرائع ابلاغ تک پہنچتی ہے تو صحافی اسے بڑی احتیاط سے غیر نمایاں انداز میں بیان کر کے اپنے فرض سے فارغ ہو جاتا ہے۔ برسوں بعد ببول کی ان شاخوں پر کانٹے نمودار ہوتے ہیں تو قوم کا دامن تار تار ہو جاتا ہے۔ عوام کی بے دست و پائی کے پھندے میں ایک اور گرہ پڑ جاتی ہے۔ آج سے ٹھیک 64 برس پہلے 8 جون 1958 کی سہ پہر سکندر مرزا نے ایک دو سطری حکم سے جنرل ایوب خان کو دو برس کی توسیع عطا کر کے اپنا مستقبل ہی تاریک نہیں کیا، قوم کی قسمت پر بھی مہر لگا دی تھی۔ ایک اور مثال دیکھیے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عہد حکومت میں پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی قوم پرست، سیکولر اور جمہوری سیاست کی علمبردار تھیں۔ 1970 میں انتخابی شکست کھانے والے اسلام پسند دھڑوں کے سرپرست ان دونوں جماعتوں میں دراڑ پیدا کرنا چاہتے تھے۔ ہماری سیاسی قوتوں کا دیرینہ المیہ ہے کہ جمہوری عمل پر اعتماد کی بجائے غیر جمہوری سہاروں کی تلاش میں رہتی ہیں۔ بھٹو صاحب لندن پلان، عراقی سفارت خانہ اور حیات شیرپاﺅ کی شہادت سے تیار ہونے والی سازشی مثلث کے اسیر ہو گئے۔ ہماری کوتاہ قلمی دیکھیے کہ اس شخص کا نام بھی نہیں لکھ سکتے جو پانچ برس تک یہ جال بنتا رہا۔ 10 فروری 1975 کو عوامی نیشنل پارٹی کو کالعدم قرار دیا گیا۔ 18 فروری کو تیسری آئینی ترمیم کے ذریعے ’ریاست دشمنی‘ کے فتوے کا اختیار حاصل کر لیا گیا۔ 30 اکتوبر 1975 کو عدالت عظمیٰ نے سرکاری ریفرنس کی توثیق کر دی۔ نیپ کے 52 گرفتار رہنماﺅں کے خلاف حیدر آباد ٹریبونل کی کارروائی شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے بھٹو صاحب کو آگاہ کیا کہ ملزمان کے خلاف شواہد تو آئی ایس آئی کے ذرائع سے جمع ہوئے ہیں جسے ملکی سیاست سے کسی تعلق کا قانونی اختیار ہی نہیں۔ اس پر بھٹو صاحب نے آئی ایس آئی میں ’پولیٹکل سیل‘ قائم کرنے کا انتظامی حکم جاری کر دیا۔ حیدر آباد ٹریبونل تو جنرل ضیا الحق نے یکم جنوری 1978 کو ختم کر دیا، آئی ایس آئی کا پولیٹکل سیل ہماری سیاست کے خیمے میں اب تک موجود ہے۔
1948 میں جنگ کشمیر کے بعد میجر جنرل رابرٹ کوتھوم (Robert Cawthome) اور کرنل شاہد حامد نے آئی ایس آئی کی بنیاد رکھی تھی۔ اگرچہ اس ادارے کا باضابطہ مینڈیٹ یا چارٹر کبھی سامنے نہیں آیا، تاہم ابتدائی طور پر آئی ایس آئی کو ملک کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کا کوئی اختیار نہیں تھا۔ ماورائے دستور مداخلت اور آمریت کی روایت کے ساتھ ہی آئی ایس آئی کا دائرہ اختیار دھندلانے لگا۔ آمریت حکومت اور ریاست میں حد فاصل مٹانے کا نام ہے۔ ریاستی ادارے اپنے معمول کے فرائض کی بجائے آمرانہ مفادات کے تابع ہو جاتے ہیں۔ سابق عسکری رہنماﺅں کی تصانیف پر ایک نظر ڈال لیجئے۔ جون 1997 میں جنرل (ر) اسلم بیگ نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ’1975 تک آئی ایس آئی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کی وساطت سے فوج کے سربراہان کو جواب دہ تھی تاہم بھٹو صاحب کے انتظامی حکم سے یہ ادارہ براہ راست چیف ایگزیکٹو کو جواب دہ ہو گیا‘۔ جنرل ضیا نے افغان جنگ میں آئی ایس آئی کو مرکزی کردار سونپ کے عملی طور پر خارجہ پالیسی ہی نہیں بلکہ قوم کا نظریاتی تشخص بھی اس ادارے کے سپرد کر دیا۔ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں لیفٹننٹ جنرل (ر) شمس الرحمن کلو کی بطور آئی ایس آئی چیف تقرری کے شاخسانے تاریخ کا حصہ ہیں۔ ائر مارشل (ر) ذوالفقار علی خان نے 1989 ءمیں مدبرانہ مشورہ دیا تھا کہ اس اہم قومی ادارے کو داخلی سیاست سے دور رکھنا چاہیے۔ تاہم اسلم بیگ اور غلام اسحاق کی موجودگی میں یہ رپورٹ ایک لاحاصل مشق تھی۔ آئی جے آئی کی تشکیل میں آئی ایس آئی کے کردار کی اصغر خان کیس میں تصدیق ہو چکی۔ نوے کی دہائی اور پھر پرویز مشرف آمریت میں سیاسی جوڑ توڑ کے افسانے گلی کوچوں تک پہنچ گئے۔
2008 میں پیپلز پارٹی دوبارہ برسراقتدار آئی تو 26 جولائی کو آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کا اعلان 24 گھنٹے بھی قائم نہ رہ سکا۔ اسی برس 24 نومبر کو وزیر خارجہ کی طرف سے آئی ایس آئی کا پولیٹکل سیل باضابطہ طور پر ختم کرنے کا اعلان ممبئی حملوں کی بازگشت میں گم ہو گیا۔ مارچ 2012 میں پولٹیکل ونگ ختم کرنے کے لئے آئینی درخواست بھی نشان چھوڑے بغیر غائب ہو گئی۔ اکتوبر 2012 میں اصغر خان کیس کا فیصلہ داخل دفتر ہونے کے بعد سے گزشتہ دس سالہ تاریخ کے زخم ابھی ہرے ہیں۔ ایسے میں وزیر اعظم شہباز شریف نے 2 جون کو ایک انتظامی حکم کے ذریعے آئی ایس آئی کو سول افسروں کی تعیناتی، تقرری اور ترقی کے معاملات پر باضابطہ اختیار دے کر سخت غلطی کی ہے۔ منتخب نمائندوں کو غیر جواب دہ ادارے کو سول انتظامیہ پر تصرف دینا سیاسی اور جمہوری اختیار سے دستبردار ہونے کے مترادف ہے۔ اس فیصلے کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان ہیں۔ اس سے ملک میں فیصلہ سازی کے متوازی مراکز کی روایت مضبوط ہو گی۔ مالی بدعنوانی کا دروازہ قانونی رخنے سے کھلتا ہے۔ کیا سول بیوروکریسی اپنے تحفظ کے لئے سیاسی قیادت کی بجائے کسی اور طرف دیکھنے پر مائل نہیں ہو گی؟ کیا وزیر اعظم نے اس قدر دور رس اثرات کے حامل فیصلے پر اتحادی جماعتوں سے مشاورت کی ہے۔ یاد رکھیئے کہ کمزور جمہوری روایت میں مذہبی معاملات اور قومی سلامتی سے متعلق امور پر وقتی مفادات کے لئے اٹھائے گئے اقدامات واپس لینا قریب قریب ناممکن ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں ماورائے دستور سیاسی مداخلت کی ناقابل تردید تاریخ پائی جاتی ہے، وزیر اعظم نے جمہوری بالادستی کی ناتواں کشتی میں ہمالیائی جسامت کا ایک اور پتھر ایزاد کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر