نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ٹرین عملہ کی خاتون سے اجتماعی زیادتی||ظہور دھریجہ

وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا ریلوے کے حوالے سے بہت نام ہے،خواجہ سعد رفیق کو چاہئے کہ زکریا ایکسپریس میں خاتون سے زیادتی کے واقعہ کو ٹیسٹ کیس بناکر واقعہ میں ملوث تمام ملزمان کو نشان عبرت بنائیں اور ریلوے ٹرینیںبالحصوص جن کی نجکاری کی گئی ہے ان میں سکیورٹی کے فول پروف انظامات کئے جائیںتاکہ مسافروں کا ریلوے میں محفوظ سفر کا اعتبار بر قرار رہ سکے۔

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملتان سے کراچی جانے والی 26 ڈائون زکریا ایکسپریس میں ایک خاتون کے ساتھ ٹرین عملہ کی اجتماعی زیادتی کابھیانک کیس سامنے آیا ہے جو کہ ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے۔ اورنگی ٹائون کراچی کی رہائشی خاتون کو دوران سفر ٹکٹ چیکر‘انچارج اور ایک شخص نے زیادتی کا نشانہ بنایااور کسی کو حیا و شرم نہ آئی کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ تھانہ ریلوے کراچی سٹی میں درج ایف آئی آر کے مطابق متاثرہ خاتون (ف) جس کا سسرال مظفر گڑھ ہے، اس کے شوہر نے ڈیڑھ ماہ قبل اس کو طلاق دی وہ اپنے بچوں سے ملنے 26 مئی کو مظفرگڑھ پہنچی۔ 27 مئی کو واپس زکریا ایکسپریس کے ذریعے کراچی کے لیے روانہ ہوئی۔ اسٹیشن پر اس کو ٹکٹ نہیں ملا، ٹرین میں اکانومی کلاس کا ٹکٹ بنوا کر اس نے سفر شروع کردیا۔ ٹرین جب روہڑی سے روانہ ہوئی تونجی شعبے کے ٹکٹ چیکر زاہد نے خاتون کو کہا کہ وہ اس کو اے سے بوگی کی برتھ لے کر دے سکتاہے اور اس نے انچارج عاقب سے ملوایا اور اس کو اے سی بوگی کے ایک کمپارٹمنٹ میں لے گیا،کچھ دیر بعد زاہد کمپارٹمنٹ میں آیا اور خاتون سے دست درازی کی۔ خاتون نے وہاں سے اکانومی بوگی میں جانے کی کوشش کی جس پر اسے جان سے مار دینے کی دھمکی دے کر اسے زیادتی کانشانہ بنا دیا۔ اس کے بعد انچارج عاقب آگیا اس نے بھی زبردستی مذکورہ خاتون سے زیادتی کی، اس کے جانے کے بعد ایک اور شخص کمپارٹمنٹ میں آیا ،اس نے بھی خاتون کے ساتھ زیادتی کی۔ کراچی اسٹیشن پر پہنچ کر متاثرہ خاتون نے پولیس کو واقعہ بارے آگاہ کیا جس پر تھانہ ریلوے پولیس کراچی سٹی نے ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا، بتایا گیاہے کہ واقعہ میں ملوث ٹرین کا عملہ فرار ہوگیا ہے۔ یہ ٹرین نجی شعبے کے زیر انتظام چلائی جارہی ہے۔ نجی شعبے والے صرف مسافروں ہی نہیں بلکہ ریلوے عملے سے بھی بدتمیزی کرتے ہیں ۔ عجب بات ہے کہ سب کچھ ریلوے کا ہے ، ریلوے انجن، ریلوے بوگیاں، ریلوے ٹریک مگر ملی بھگت سے بہت سی ٹرینوں کو ٹھیکے پر دیدیا گیا ہے ، ملتان سے کراچی تک چلنے والی زکریا ایکسپریس منافع بخش ٹرین ہے ۔ اس میں مسافروں کا بہت رش ہوتا ہے جب سے یہ ٹرین نجی ملکیت میں دی گئی ہے مسافروں کی مشکلات میں اضافہ ہو چکا ہے۔ ٹھیکیدار اور ان کے کارندے اسے اپنے باپ کی جاگیر سمجھتے ہیں جبکہ ریلوے کا عملہ تربیت یافتہ اور با اخلاق ہے اور ان کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ ہم نے مسافروں سے غیر اخلاقی حرکت کی تو ہم سے باز پرس ہو سکتی ہے اور ملازمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے مگر ٹھیکیداروں کے پرائیویٹ عملے کو نہ کوئی خوف ہے ، نہ کسی کی پروا ہے۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں اس طرح کی بہت سی شکایات ہیں۔ یہ بھی شکایات ہیں کہ نجی ٹرینوں کا عملہ چوری چھپے ممنوعہ اشیاء اور منشیات کی ترسیل کا کام بھی کرتا ہے کہ ان سے کوئی پوچھنے والا نہیںاور یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ ٹھیکیداروں کے ذمے ریلوے کے اربوں روپے کے واجبات چلے آ رہے ہیں جن کی ادائیگی ہونی ہے۔ ریل کا ذکر آیا ہے تو تھوڑا اس کے پس منظر کا ذکر بھی ہو جائے، جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں ریلوے کا آغاز 13 مئی 1861ء میں ہوا جب کراچی سے کوٹری 169 کلومیٹر ریلوے لائن کا افتتاح ہوا،24 اپریل 1865ء کو لاہور ، ملتان ریلوے لائن کو ٹرینوں کی آمدورفت کے لیے کھول دیا گیا، 6 اکتوبر 1876ء کو دریائے راوی، دریائے چناب اور دریائے جہلم پر پلوں کی تعمیر مکمل ہو گئی اور لاہور ، جہلم ریلوے لائن کو کھول دیا گیا۔ یکم جولائی 1878ء کو لودھراں ، پنوعاقل 334 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کا افتتاح ہوا۔ 27 اکتوبر 1878ء کو دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر کوٹری سے سکھر براستہ دادو اور لاڑکانہ ریلوے لائن کو ٹرینوں کی آمدورفت کے لیے کھول دیا گیا۔رک سے سبی تک ریلوے لائن بچھانے کا کام جنوری 1880ء میں مکمل ہوا،اکتوبر 1880ء میں جہلم ، راولپنڈی 115 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کو ٹرینوں کی آمدورفت کے لیے کھولا گیا۔یکم جنوری 1881ء کو راولپنڈی ، اٹک کے درمیان 73 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کو کھولا گیا۔یکم مئی 1882ء کو خیرآباد کنڈ ، پشاور 65 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کی تعمیر مکمل ہوئی ،31 مئی 1883ء کو دریائے سندھ پر اٹک پل کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد پشاور ، راولپنڈی سے بذریعہ ریل منسلک ہو گیا۔ 1885ء تک موجودہ پاکستان میں چار ریلوے کمپنیاں سندھ ریلوے، انڈین فلوٹیلا ریلوے، پنجاب ریلوے اور دہلی ریلوے کام کرتیں تھیں۔ 1885ء میں انڈین حکومت نے تمام ریلوے کمپنیاں خرید لیں اور 1886ء میں نارتھ ویسٹرن اسٹیٹ ریلوے کی بنیاد ڈالی جس کا نام بعد میں نارتھ ویسٹرن ریلوے کر دیا گیا،مارچ 1887ء کو سبی ، کوئٹہ ریلوے لائن کی تعمیر مکمل ہوئی۔ 25 مارچ 1889ء کو روہڑی اور سکھر کے درمیان لینس ڈائون پل کا افتتاح ہوا،اس پل کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد کراچی ، پشاور سے بذریعہ ریل منسلک ہو گیا۔ 15نومبر 1896ء کو روہڑی ، حیدرآباد براستہ ٹنڈو آدم، نواب شاہ اور محراب پور ریلوے لائن کا افتتاح ہوا، 25 مئی 1900ء کو کوٹری پل اور 8 کلومیٹر کوٹری ، حیدرآباد ریلوے لائن مکمل ہوئی۔ اس سیکشن کے مکمل ہو جانے کے بعد پاکستان ریلویز کی کراچی ، پشاور موجودہ مرکزی ریلوے لائن بھی مکمل ہو ئی۔نارتھ ویسٹرن ریلوے کو فروری 1961ء میں پاکستان ویسٹرن ریلوے اور مئی 1974ء میں پاکستان ریلویزمیں تبدیل کیا گیا۔ ریلوے کی ترقی کی بجائے تنزلی ہوئی، حادثات میں بھی کوئی کمی نہ آئی، وسیب کیلئے نئی ٹرینیں تو کیا بند شدہ ٹرینوں کو بھی نہ چلایا جا سکا۔ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا ریلوے کے حوالے سے بہت نام ہے،خواجہ سعد رفیق کو چاہئے کہ زکریا ایکسپریس میں خاتون سے زیادتی کے واقعہ کو ٹیسٹ کیس بناکر واقعہ میں ملوث تمام ملزمان کو نشان عبرت بنائیں اور ریلوے ٹرینیںبالحصوص جن کی نجکاری کی گئی ہے ان میں سکیورٹی کے فول پروف انظامات کئے جائیںتاکہ مسافروں کا ریلوے میں محفوظ سفر کا اعتبار بر قرار رہ سکے۔

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author