عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھوتے خیال اور دلفریب خوابوں کا گُزر کیسے ہو کہ حالات سنگین تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ معیشت ڈوب رہی ہے اور سیاست کھیلی جا رہی ہے۔ معیشت کی ڈوبتی ناؤ کا ملاح کشتی ڈوبنے سے بچانا بھی چاہتا ہے اور پار لگانے سے بھی ڈر رہا ہے۔ اب کشتی بیچ منجدھار میں ہے، سر جائے یا دَر جائے تو عقل کہتی ہے کہ سر جائے مگر گھر نہ جائے۔
گذشتہ ہفتے کے اختتام پر اہم پیش رفت ہوئی۔ معیشت سے گھبرائے اور سیاسی بوجھ کے شکار حکومتی اتحاد نے اس بوجھ کو اُتار پھینکنے کا ارادہ کیا تو پشاور میں بیٹھے بظاہر کور کمیٹی سے مخاطب کپتان نے موقع غنیمت جانا اور جلد بازی میں لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔
ارادہ یہی تھا کہ حکومت اس ماہ کے اختتام تک رخصت ہو گئی تو اُن کے نزدیک کامیابیاں سمیٹتی تحریک انصاف ایک اور سیاسی معرکہ مار لے گی اور جشن مناتے ہوئے انتخابات کی تیاری کرے گی۔
کمزور ہوتی سیاسی اتحادی حکومت جس کے اتحادی بضد تھے کہ انتخابات کی طرف نہ بڑھا جائے اور اپنی مدت پوری کی جائے مسلم لیگ ن کی اس منطق پر ایمان لے آئی تھی کہ اصلاحات کے ساتھ ہی کم سے کم مدت میں انتخابات کرا دیے جائیں۔ مگر عمران خان صاحب کے لانگ مارچ کے اعلان نے مسلم لیگ ن اور اتحادیوں کو سیاسی موت سے بچنے کے لیے آئینی مدت پوری کرنے پر آمادہ کر لیا۔
تحریک انصاف کے چند خیر خواہوں نے اعلان سے قبل خان صاحب کو بذریعہ شاہ محمود قریشی متنبہ کرنے کی کوششش کی کہ ’آپ ٹریپ ہو چکے ہیں‘ تاہم تب تک تیر کمان سے نکل چکا تھا اور 25 مئی کو لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کیا جا چکا تھا۔
بہرحال اب بلی تھیلے سے باہر آیا ہی چاہتی ہے کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کی شام دھرنے کا اعلان کس نے اور کیوں کروایا اور یہ کہ لانگ مارچ کم دھرنا دراصل فائدہ کس کو دے گا؟ خان صاحب نے اپنی ترکش کا آخری تیر بہت پہلے نکال لیا ہے یا یوں کہیے کہ آخری پتہ بہت پہلے کھیل لیا ہے۔ اب ناکامی کی صورت حکومتی اتحاد اگلا ڈیڑھ سال بخوبی گزار سکتی ہے جبکہ کامیابی کی صورت پاکستان میں حکومتیں جتھوں کی طاقت سے بدلنے کا رواج پڑ جائے گا۔
ن لیگ اور اتحادی مقتدر حلقوں سے صرف دو ضمانتوں کے متقاضی ہیں۔ ایک پٹرول کی سبسڈی کے خاتمے کے اعلان کے بعد اگر مقتدر قوتیں تحریک انصاف کی دھرنا سیاست سے بلیک میل ہو گئیں تو کیا ہو گا؟ دوم یہ کہ معاشی مسائل کا حل موجودہ حکمران اتحاد کرے تو پھل کوئی اور کھائے، ایسا کیسے ممکن ہے؟
بہرحال اس مسئلے کا حل کسی حد تک ’سب سے یاری، ایک زرداری‘ نے نکالا ہے اور اب حکمران اتحاد آئینی مدت مکمل کرنے پر ناصرف رضامند ہوتا دکھائی دے رہا ہے بلکہ غیر معمولی حالات میں اسمبلی کی مدت بڑھانے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔
اسی رسہ کشی میں نومبر کے جادوئی مہینے سے پہلے طے شدہ رخصت پانے والا کردار بھی توسیع حاصل کر سکتا ہے گو کہ ’وہ‘ نہیں مان رہے مگر غیر معمولی حالات میں غیر معمولی فیصلے کرنے پڑ سکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے کئی ایک مسائل فوری حل بھی ہو سکتے ہیں اور مسائل کے ذمہ دار حلقے اپنی ہی پیدا کردہ صورتحال کو خود ’اَن ڈو‘ کر کے ملک کو صحیح ڈگر پر لا سکتے ہیں۔
یہ تو طے ہے کہ ’اب نیوٹرل رہنے‘ کا مشورہ دینے والے خان صاحب کو معلوم ہو چکا ہے کہ صورتحال خراب ہوئی تو ادارے نیوٹرل نہیں بلکہ حکومت کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ معاشی صورتحال پر حکمران اتحاد اور مقتدر حلقے کسی صورت پاکستان کو نہ تو سری لنکا بنانے کو تیار ہیں اور نہ ہی مصر۔
دوسری جانب ’تحریر سکوائر‘ کی خواہش رکھنے والے ایک نیوکلیئر ریاست کی حساسیت کو یا تو نظر انداز کر رہے ہیں یا انڈر اسٹیمیٹ۔ بہرحال آنے والے دنوں میں ادارے ہوں یا سیاسی جماعتیں یہ فیصلہ سب کو کرنا ہو گا کہ سیاست بچائیں یا ریاست؟
عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے
یہ بھی پڑھیے:
جناب! عوام کو ہلکا نہ لیں۔۔۔عاصمہ شیرازی
’لگے رہو مُنا بھائی‘۔۔۔عاصمہ شیرازی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر