نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

24مئی ۔ نواب آف بہاولپور صادق محمد خان عباسی کا یوم وفات||ظہور دھریجہ

سرائیکی قوم کا اپنا وطن ہے جو ڈی آئی خان اور ٹانک تک جاتا ہے، وطن ہی ہماری طاقت ہے، ہماری قوت ہے، یہ سرائیکی دشمنوں کے تقسیم کے فارمولے پر عمل پیرا ہیں۔ میں یہی بتانا چاہتا ہوں کہ یہ ہوش کے ناخن لیں ، اگر انہوں نے سرائیکی دشمنی برقرار رکھی تو ترکی ٹوپی پر بھی اعتراض ہوگا کہ ہم ترکیوں کے غلام نہیں۔

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
24مئی ، محسن پاکستان ، نواب آف بہاولپور صادق محمد خان عباسی کا یوم وفات ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ سرائیکی ریاست بہاولپور کی پاکستان کیلئے خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔لیکن یہ بھی وضاحت ضروری ہے کہ نواب آف بہاولپور کی خدمات در اصل سرائیکی قوم کی طرف سے تھیںکہ کوئی بھی فرمانروا محض اسٹیٹ کا امین ہوتا ہے اور اس کے مالک و مختیار وہاں کے باشندے ہوتے ہیں۔پاکستان کیلئے خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے ، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ نواب بہاولپور صادق محمد خان عباسی نہ صرف مسلم لیگ کو فنڈ دیتے تھے بلکہ انہوں نے کراچی میں بہاولپور کے الشمس محل اور القمر محل تحریک پاکستان کے لئے حضرف قائد اعظم محمد علی جناح اور فاطمہ جناح کے حوالے کر دیے ،آج سرائیکی نوا ب کے انہی محلات پر سندھ کا گورنر ہاؤس بنا ہوا ہے مگر اسی سرائیکی ریاست کی عصمت مآب خواتین گھروں میں ’’ماسیاں ‘‘بن گئی ہیں اور سرائیکی لوگوں کے پاس رہنے کی جگہ نہیں وہ جھونپڑیوں میں رہتے ہیں۔
سرائیکی وسیب کی پاکستان کے لئے کتنی خدمات ہیں ؟ اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے نواب بہاولپور نے ریاست کی طرف سے ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا جس پرایک طرف مملکت خداداد بہاولپور اور دوسری طرف پاکستان کا جھنڈا تھا ،پاکستان قائم ہو تو قائداعظم ریاست بہاولپور کی شاہی سواری پربیٹھ کر گورنر جنرل کا حلف اٹھانے گئے ،پاکستان کی کرنسی کی ضمانت ریاست بہاولپور نے دی ،پہلی تنخواہ کی چلت کیلئے پاکستان کے پاس رقم نہ تھی تو نواب بہاولپور نے پہلے تنخواہ کی چلت کے لئے 7کروڑ روپے کی خطیر رقم دی قائد اعظم نے نواب بہاولپور کو محسن پاکستان کا خطاب دیا۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کے بعد وزیراعظم لیاقت علی خان کو بنایا گیا جس کی ریاست بہاولپور کے مقابلے میں خدمات عشر عشیر بھی نہ تھیں۔قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا کہ قیام پاکستان سے قبل بھی ایک پاکستان ڈھائی سو سال پہلے موجود تھا اور اس کا نام ریاست بہاولپور تھا ۔ تحریک پاکستان قیام پاکستان اور استحکام پاکستان کیلئے ریاست بہاولپور کا کردار ناقابل فراموش ہے مگر افسوس کہ آج ان باتوں کا تذکرہ تاریخ پاکستان اور نصاب کی کسی کتاب میں موجود نہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ نواب آف بہاولپور وائسرائے ہند کے استقبال سے اجتناب کرتے تھے مگر قائد اعظم کا دل سے احترام کرتے وجہ یہ بھی کہ ان کے اندر مسلمان کا دل موجود تھا ۔کوئٹہ میں1935ء میں زلزلہ آیا یا پھر 1947ء مین ہندوستان سے آبادکاروں کے قافلے بہاولپور اسٹیشن پہنچے۔نواب بہاولپور بنفس نفیس بہاولپور اسٹیشن پہنچے تحائف نقدی کے علاوہ اپنے ہاتھ سے مصیبت زدگان میں طعام تقسیم کیا ۔ علامہ اقبال نواب آف بہاولپور کے مداح اور عقیدت مند تھے انہوں نے آج تک کسی بادشاہ کا قصیدہ نہ لکھا مگر نواب آف بہاولپور کیلئے انہوں نے طویل قصیدہ لکھا۔اسی طرح حفیظ جالندھری علامہ اقبال اور بہت سے زعما باقاعدہ وظیفہ حاصل کرتے رہے ۔اس کا ثبوت اس چٹھی سے بھی ہوتا ہے جو علامہ اقبال نے نواب آف بہاولپور کے پرائیوٹ سیکرٹری میجر شمس 5مئی 1929ء کو لکھی اور جس میں لکھاکہ بہت شکریہ !مجھے ریاست کی طرف سے بھیجا گیا الاؤنس برابر مل رہا ہے۔ افسوس کہ آج ان تمام احسانات کو فراموش کر دیا گیا ہے۔آج پورے سرائیکی خطے کو تخت لاہور کا محض غلام بنا کر رکھ دیا گیا ۔
سکھوں کے مظالم سے نجات کیلئے نواب بہاولپور نے پنجابی مسلمانوں کو مشرقی پاکستان سے بلوا کر مفت رقبے دیئے اور ستلج ویلی پراجیکٹ کے فوائد سے لاکھوں پنجابی گھرانے آباد ہو کر خوشحال بن گئے ۔ مگر ان آباد کاروں کے دل آج بھی انہی سکھوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں ، جن کے مظالم سے تنگ آ کر وہ یہاں پہنچے، مگر پناہ اور عافیت دینے والوں کو وہ آج بھی کمی سمجھتے ہیں اور ان کی سرائیکی زبان و ثقافت کی توہین کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ آج مقامی لوگ بہاولپور میں بے روزگار اور بے یارو مدد گار ہیں حالانکہ بہاولپور فلاحی ریاست تھی۔ نواب بہاولپور نے 1200 ایکڑ رقبے پر مشتمل بر صغیر جنوبی ایشیاء کا سب سے بڑا صادق پبلک سکول ، دنیا کی سب سے بڑی سنٹرل لائبریری ، جامعہ الازہر کی طرز پر جامعہ عباسیہ ، بہاولپور میں بہت بڑا سٹیڈیم ، سب سے بڑا چڑیا گھر اور 1906ء میں ہندوستان کا سب سے بڑا وکٹوریہ ہسپتال قائم کیا ۔ بہاولپورکے محلات اتنے شاندار تھے کہ یورپ بھی ان پر رشک کرتا تھا ، محلات میں فرنیچر پر سونے کے کام کے علاوہ برتن بھی سونے کے تھے ۔ سرائیکی قوم کی خوشحالی کا یہ عالم تھا کہ وسیب کے لوگوں نے طلے والا کھسہ یعنی سونے کی تاروں والے جوتے پہنے مگر قیام پاکستان کے بعد سرائیکی وسیب کا سب کچھ تباہ ہو گیااور قیام پاکستان کے بعد دوسرے سرائیکی علاقوں کی طرح سرائیکی ریاست بہاولپور کو بھی مفتوحہ علاقہ سمجھ لیا گیا ۔ کیا محسنوں کو اس طرح کے صلے ملتے ہیں ؟
حکمرانوں سے زیادہ دکھ ریاست کے ان نوابوں ، مخدوموں اور چوہدریوں کا ہے جو آج بھی ظلم کرنے والے تخت لاہور کے حاشیہ بردار بنے ہوئے ہیں اور سرائیکی قومی شناخت کی توہین کرتے ہیں ۔ سرائیکی صوبے کی مخالفت کرتے ہیں۔ سرائیکی وسیب اور سرائیکی قوم کو تقسیم کرنے کے مذموم ایجنڈے پر کام کرنے والوں کے ساتھ دیتے ہیں ۔ میں کہتا ہوں کہ سرائیکی قوم اور سرائیکی وسیب کے لوگ اگر پاکستان میں بسنے والی قوموں کی برادری میں زندہ رہنا چاہتے ہیں تو لہجوں میں بغاوت پیدا کریں ، درگاہوں پر ریوڑیاں بانٹنے کی بجائے سڑکوں پر آئیں اور اپنے ہاتھوں کونام نہاد پیروں، وڈیروں اور مخدوموں کے پاؤں کا نہیں ان کے گریبانوں کا آشنا کریں بصورت دیگر سرائیکی وسیب کا کچھ نہیں بچے گا۔ یہاں بسنے والے تمام لوگوں کو کمی و شودر بنادیا گیا تو نواب بھی نواب نہیں داد پوترے کہلائیں گے اور اگر سرائیکی پگڑی اترے گی تو ترکی ٹوپی بھی سروں پر سلامت نہیں رہے گی ۔ نواب صادق کی اولاد نے اس بارے کبھی سوچا؟
ریاست بہاولپور کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق نواب بہاولپور پنجاب یونیورسٹی کا سینٹ بلاک ،کنگ ایڈورڈ کالج کی نصف بلڈنگ اور لاہور ایچی سن کالج کے بہت سے کمرے لاکھوں روپے خرچ کر کے تعمیر کرائے۔ریاست بہاولپور کی طرف سے تعلیمی مقاصد کیلئے لاہور کو سالانہ جو گرانٹ جاری ہوتی رہی اس کی تفصیل کے مطابق کنگ ایڈروڈ کالج ڈیڑھ لاکھ ،اسلامیہ کالج لاہور تیس ہزار ،انجمن حمایت اسلام پچھتر ہزار،ایچی سن کالج دوہزار،اور پنجاب یونیورسٹی لاہور بارہ ہزار اس کے ساتھ ساتھ لاہور کے ہسپتالوںاور دوسرے رفاہی اداروں کی ریاست بہاولپور کی طرف سے لاکھوں کی مدد کی جاتی رہی ۔اس رقم کی مالیت کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت سوا سو روپے تولہ سونا، ایک روپے میں سو اینٹ پختہ ،چار آنے سیر چھوٹا گوشت ،اور دو روپے من گندم تھی سب سے اہم یہ کہ اس وقت برطانیہ پونڈ اور مملکت خداداد بہاولپور کا کرنسی نوٹ برابر شرح مالیت کے حامل تھے ۔اتنی عظیم تعلیمی خدمات کا تذکرہ نصاب کسی کتاب میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔یہ سرائیکی وسیب سے سوتیلی ماں کا سلوک نہیں تو اور کیا ہے؟
قیام پاکستان کے بعد بہاولپور رجمنٹ جو سرائیکی رجمنٹ کی علامت تھی ، کو ختم کیا گیا ، ملازمتوں کے دروازے بند کئے گئے ، فارن سکالر شپ ختم ہوئی ، ریونیو بورڈ لاہور چلے جانے سے ناجائز الاٹمنٹوں کا طوفان اٹھا دیا گیا ، بہاولپور کے دریا بیچ دیئے گئے ، واہگہ بارڈر آج تک کھلا ہے مگر بہاولنگر جنکشن بند ، امروکہ بند ، اس کے ساتھ یہ ظلم بھی کیا گیا کہ کراچی دہلی کا سب سے بڑا ریلوے ٹریک میکلوڈگنج جنکشن بند کر دیئے گئے ، آج بہاولنگر اسٹیشن پر جائیں تو دنیا کے خوبصورت اسٹیشن کی ویرانی کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ، دریائے ستلج کی موت کے بعد آج اس خطے میں دوسرا چولستان وجود میں آرہا ہے ، زیر زمین پانی کا لیول نیچے چلا گیا ہے اور پانی کڑوا ہو چکا ہے ،وہاں سے نقل مکانیاں شروع ہو چکی ہیں ، تھل فورٹ عباس کے بہت سے زمیندار کراچی نقل مکانی کر کے مزدوریاں اور ان کی عورتیں کراچی کے سیٹھوں کے برتن مانجھنے اور فرش صاف کرنے پر مجبور ہیں ، یہ سب وہ ’’ برکات ‘‘ ہیں جو پاکستان کے عظیم قربانیاں دینے والے سرائیکی قوم کے حصے میں آئیں ۔ آج اگر سرائیکی خطے خصوصاً ریاست بہاولپور میں بسنے والے سرائیکی پاکستان کا یوم آزادی جوش و خروش سے نہیں مناتے تو حکمرانوں کو اس کے وجوہات کا کھوج لگانا چاہئے۔ نواب بہاولپور کی برسی سرکاری سطح پر صرف بہاولپور میں نہیں بلکہ پورے سرائیکی وسیب میں منائی جانی چاہئے ، یہ تب ممکن ہے جب نواب صاحب کی کھربوں کی جائیداد کے وارث وسیب کے ساتھ اپنا تہذیبی ، ثقافتی اور جغرافیائی رشتہ مضبوط کریں گے اور خود کو سرائیکی قوم کا حصہ بنائیں گے۔
آخر میں جہاں میں حکمرانوں کی بے حسی کی بات کروں گا وہاں نواب صادق محمد خان عباسی کے خانوادے خصوصاً موجودہ والیان ریاست بہاولپور کے بارے کہوں گا کہ وہ بھی نواب صادق محمد خان عباسی کے مجرم ہیں ، وہ نواب کی چھوڑی ہوئی کھربوں کی جائیداد کے مالک اور وارث بن چکے ہیں مگر نواب کی برسی کے موقع پر ان کی روح کو ایصال ثواب کیلئے کچھ نہیں کرتے۔ 24 مئی کو تو پوری ریاست میں تقریبات ہونی چاہئیں، نواب صادق کے نام سے سیمینارز، کانفرنسیں اور سرائیکی مشاعرے ہونے چاہئیں۔ نواب صلاح الدین عباسی کی طرف سے ایوارڈز کا سلسلہ ہونا چاہئے ، کتابوں کی اشاعت ہونی چاہئے مگر یہ صاحبان کچھ نہیں کرتے۔ سرائیکی میں کسی کو بے وقوف کہنا ہو تو کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ بادشاہ ہے ، یہ اسی طرح کے بادشاہ بنے ہوئے ہیں، حالانکہ اگر یہ اپنے بزرگ کی یاد منائیں تو ان کا اپنا نام اونچا ہوگا اور مرحوم نواب صاحب کی روح بھی خوش ہو گی، مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ صاحبان ذہنی پسماندگی کا شکار ہیں ، ذہنی غلامی کا شکار ہیں ، ان میں سیاسی بصیرت نہیں ہے، وسیب سے محبت نہیں ہے، وسیب کے لوگوں سے محبت نہیں ہے، سرائیکی تہذیب و ثقافت سے محبت نہیں ہے۔ ان لوگوں نے سرائیکی سے محبت تو کیا کرنی ہے یہ خود کو سرائیکی نہیں ریاستی کہتے ہیں، حالانکہ ان بے عقلوں کو کون سمجھائے کہ ہندوستان کی تقریباً 600 ریاستیں تھیں ، سب ہندوستان یا پاکستان میں ضم ہوئیں ، کوئی بھی خود کو ریاستی نہیں کہتا۔ بہاولپور کی اسلامیہ یونیورسٹی نے ریاستی نہیں بلکہ سرائیکی میں ایم اے ، ایم فل اور پی ایچ ڈی ہو رہی ہے ریاستی میں نہیں۔ مگر ان بے عقلوں کو کوئی بات سمجھ نہیں آتی ، قوموں کے وطن ہوتے ہیں ، ان کی تہذیب ہوتی ہے ، ان کی ثقافت ہوتی ہے، سرائیکی قوم کا اپنا وطن ہے جو ڈی آئی خان اور ٹانک تک جاتا ہے، وطن ہی ہماری طاقت ہے، ہماری قوت ہے، یہ سرائیکی دشمنوں کے تقسیم کے فارمولے پر عمل پیرا ہیں۔ میں یہی بتانا چاہتا ہوں کہ یہ ہوش کے ناخن لیں ، اگر انہوں نے سرائیکی دشمنی برقرار رکھی تو ترکی ٹوپی پر بھی اعتراض ہوگا کہ ہم ترکیوں کے غلام نہیں۔ ان کو چاہئے کہ سابق ریاست بہاولپور میں بسنے والی سرائیکی قوم کا ساتھ دیں ورنہ سرائیکی قوم ان سے لوٹ مار کا حساب لے گی اور انہیں واضح کہے گی کہ اگر تم سرائیکی نہیں بنتے تو وہاں چلے جائیں جہاں سے تمہارے بڑے آئے تھے۔

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author