ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وفاقی وزیر تخفیف غربت و سماجی تحفظ شازیہ مری نے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلٹرز کی بنیاد پر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستحقین کو نکالنا ناانصافی ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بد عنوانیاں ہوئیں، غریبوں کی بجائے کرپٹ لوگوں نے فائدے اٹھائے جسے درست کرنے کی ضرورت ہے ۔
اس حوالے سے ایک اور بات کا تذکرہ کروں گا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا دفتر ڈیرہ اسماعیل خان سے ختم کر کے بنوں منتقل کر دیا گیا ہے جس پر ڈیرہ اسماعیل خان کے عوام نے احتجاج کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن پر الزام لگایا ہے کہ یہ سب کچھ ان کی ایما ء پر ہوا۔ مطالبہ کیا گیا ہے کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا دفتر ڈیرہ اسماعیل خان میں رہنے دیا جائے۔
آج ڈیرہ اسماعیل خان کا ذکر چلا ہے تو یہ بھی بتاتا چلوں کہ وسیب کے دوسرے علاقوں کی طرح ڈیرہ اسماعیل خان کے لوگ بھی طرح طرح کی مشکلات کا شکار ہیں۔ خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کی 9 سال سے حکومت ہے ، ڈیرہ اسماعیل خان کے لوگوں نے تحریک انصاف کو ووٹ بھی دئیے مگر ان کے دکھوں کا مداوا کرنے والا کوئی نہیں۔ خیبر پختونخواہ میں اے این پی ، ایم ایم اے بھی برسراقتدار رہی اور اب تحریک انصاف برسراقتدار ہے مگر خیبرپختونخواہ میں بسنے والوں کو آج تک انصاف نہیں ملا،وقت آ گیا ہے کہ موجودہ حکمران ملک کے قومی مسائل پر توجہ دیں اور وسیب کے لوگوں کو انصاف فراہم کریں۔
ڈیرہ اسماعیل خان کی تاریخ کم و بیش پانچ سو سال پرانی ہے، سردار سہراب خان جو ایران سے نقل مکانی کر کے آئے تھے نے اسے آباد کیا تھا اور اپنے مرحوم بیٹے کے نام سے اسے ’’ ڈیرہ اسماعیل خان ‘‘ کا نام دیا ۔ دریائے سندھ کے کنارے یہ خطے کا خوبصورت شہر ہے، اسے ’’ ڈیرہ پھلاں دا سہرہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ تاریخ ڈیرہ اسماعیل خان کے مطابق 1823ء میں دریائے سندھ نے رخ بدلا تو پورا شہر دریا برد ہو گیا، ڈیرہ اسماعیل خان کے ’’ بھلے مانس‘‘ نواب احمد یار خان نے نئے شہر کی بنیاد رکھی اور بلا رنگ نسل و مذہب سب انسانوں کو دریا برد ہونے والی زمینوں کے بدلے زمینیں اور گھر بنا کر دیئے، ڈیرہ ایک بار پھر آباد ہو گیا، شہر کو آئندہ سیلابوں سے بچانے کیلئے ایک طویل حفاظتی بند جسے سرائیکی میں بچا بند کہتے ہیں، 1931ء میں انگریز کمپنی گیمن نے بنایا ۔حفاظتی بند کا پتھر پہنچانے کیلئے بنوں سے براستہ لکی مروت ڈیرہ اسماعیل خان تک ریلوے لائن بچھائی گئی ، جو 1990 ء کی دہائی میں ختم کر دی گئی، سی پیک منصوبے میں ڈی آئی خان ریلوے منصوبہ شامل تھا جسے بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان وسیب کا اہم ڈویژن ہے۔ سرائیکی میں اسے ’’دیرہ پھلاں دا سہرا‘‘ کہا جاتا ہے۔ صوبہ خیبرپختونخواہ میں ادغام سے پہلے ڈیرہ سماعیل خان ہمیشہ اپنے وسیب کے مرکز ملتان کا حصہ رہا۔
دارا اول اور سکندر اعظم سے لیکر رنجیت سنگھ تک جتنے بھی حملہ آور آئے انہوں نے قتل عام اوربدترین لوٹ مار کے ذریعے اس خطے کو تباہ و برباد تو ضرور کیا ، لیکن اسے اپنے تاریخی جغرافیائی ثقافتی لسانی تہذہبی مذہبی اور روحانی مرکز ملتان سے جدا نہ کیا۔ انگریز پہلے قابض حکمران تھے جنہوں نے قبائلی علاقہ جات کو کنٹرول کرنے کیلئے ایک نئے صوبے کی ضرورت محسوس کی،اس مقصد کیلئے اسے زرخیز زمین ہموار خطہ درکار تھا جہاں وہ چھائونی کے ساتھ اپنی دوسری کمین گاہیں بھی تعمیر کر سکے۔
درہ گومل کی طرف سے اس کی نظر ڈیرہ اسماعیل خان پر پڑی اور اس نے 9 نومبر1901ء کوڈیرہ اسماعیل خان کو شامل کرکے ایک نئے صوبے این ڈبلیو ایف پی یعنی شمال مغربی سرحدی صوبہ کا حکم نامہ جاری کر دیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے لوگوں نے نئے صوبے میں ڈیرہ کے ادغام پر احتجاج کیا اور سڑکوں پر نکل آئے، لوگوں نے اس حکم نامے کو ماننے سے انکار کر دیا، ریاست ٹانک کے سرائیکی نواب نے بھی اس حکم نامے کو ماننے سے انکار کیا اور کہا کہ یہ اس خطے کے لوگوں سے بے انصافی ہے، لوگوں کی تہذیب کلچر اور زبان پشتون قبائل سے الگ ہے ۔ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا صوبہ خیبرپختونخواہ میں شامل کئے جانے کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان کے لوگ طرح طرح کی مشکلات کا شکار ہیں، سرکاری دفاتر اور حکومتی ایوانوں میں ان سے دوسرے درجے کا سلوک ہوتا ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان کی سرائیکی آبادی کیلئے ملازمتوں کے دروازے ایم ایم اے کے دور سے لیکرآج تک بند ہیں، بے روز گاری سے تنگ آکر بہت سے سرائیکی نوجوانوں نے خود کشیاں کیں مگر ڈیر ہ اسماعیل خان کے نوجوانوں اور بے روزگاروں کو یہ تماشہ بھی شہر کے تمام بنکوں کے سامنے روزانہ دیکھنے کو ملتاہے کہ نام نہاد افغان مہاجرین کے نام پر پشتونوں کو گورنمنٹ کی طرف سے بنکوں کی معرفت و ظیفہ ملتا ہے اور وہ چوڑے ہو کر وصول کر رہے ہوتے ہیں اور دھرتی کے اصل وارث لوگ اپنے ہی دیس میں مسافروں اور مجرموں کی طرح وقت گزارنے پر مجبور ہیں۔ 1901 ء میں انگریزوں کے غلط فیصلے کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان کی ڈیمو گرافی تیزی سے تبدیل ہوئی، ڈیرہ اسماعیل خان کا ضلع بنوں جو 1880ء کی مردم شماری کے مطابق 98 فیصد مقامی سرائیکی اور دو فیصد پشتون آبادی پر مشتمل تھا، اب وہاں سرائیکی ڈھونڈھے سے بھی نہیں ملتا۔لکی مروت میں بھی تیزی کے ساتھ سرائیکی آبادی کی جگہ پشتون آبادی لے رہی ہے، ٹانک جو پہلے ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل تھی اب ضلع ہے اورآدھے سے زائد پشتون توسیع پسندی کی نذر ہو چکا ہے ۔پرویز مشرف دور میں ڈیرہ اسماعیل خان کی مقامی آبادی کا جینا محال کر دیا، اسی دور میں ڈیرہ اسماعیل خان کی زرخیز ترین زمینوں پر اتنے قبضے ہوئے کہ پورے سو سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا، ان قبضوں کا اخبارات میں بھی چرچا ہوا، ایم ایم اے کے ساتھ دوسروں نے بھی ہاتھ رنگے ،اس کے ساتھ ہی دھرتی کے اصل وارثوں کو دیس نکالی دینے اور جائیدادوں کے ساتھ زرعی زمینوں پر قبضے کا عمل تیز کر دیا گیا۔ مقامی لوگوں اور سرائیکی جماعتوں نے اس پر زبردست احتجاج کیا حکمران خود سرائیکی قوم کو بتائیں کہ دھرتی کے اصل وارث انصاف کیلئے مزید کتنا انتظار کریں؟
یہ بھی پڑھیں:
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر