نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مفتاح اسماعیل اور آئی ایم ایف||ظہور دھریجہ

حقیقت یہ ہے کہ نام اصلاحات کا لیا جاتا ہے جبکہ اصل مقصد غریبوں کا خون نچوڑ کر عالمی مالیاتی اداروں کا پیٹ بھرنا ہوتا ہے۔ کیا عالمی مالیاتی اداروں نے کبھی ان اصلاحات کی جانب توجہ کی کہ دنیا میں غربت ختم ہو ، افراط زر نہ ہو ، دنیا کے امیر ممالک امیر تر اور غریب ممالک غریب تر نہ ہوں ۔

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بتایا ہے کہ امریکا میں آئی ایم ایف حکام سے ملاقات ہوئی، وہ چاہتے ہیں کہ پیٹرول پر سبسڈی نہ دی جائے۔امریکا اور آئی ایم ایف والے تو چاہیں گے کہ تمام سبسڈی ختم کر کے ان کو سود سمیت قرضے واپس کئے جائیں لیکن دیکھنایہ ہے کہ سبسڈی کے خاتمے سے مہنگائی ، غربت اور بیروزگاری کا کتنا بڑا طوفان آئے گا۔وزیر خزانہ کا یہ کہنا کہ آئی ایم ایف پاکستان میں سٹرکچرل اصلاحات چاہتا ہے۔
 حقیقت یہ ہے کہ نام اصلاحات کا لیا جاتا ہے جبکہ اصل مقصد غریبوں کا خون نچوڑ کر عالمی مالیاتی اداروں کا پیٹ بھرنا ہوتا ہے۔ کیا عالمی مالیاتی اداروں نے کبھی ان اصلاحات کی جانب توجہ کی کہ دنیا میں غربت ختم ہو ، افراط زر نہ ہو ، دنیا کے امیر ممالک امیر تر اور غریب ممالک غریب تر نہ ہوں ۔
وزیر خزانہ کیلئے امتحان کی گھڑی ہے کہ وہ اس مشکل صورتحال سے ملک کو کیسے نکالتے ہیں۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا شمار معاشیات کے ماہرین میں ہوتا ہے، وہ بدلتی ہوئی عالمی معیشت پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں، یہ بھی حقیقت ہے کہ مفتاح اسماعیل کو کام کا موقع ملے تو اسحاق ڈار، شوکت ترین اور حفیظ شیخ سے بہتر نتائج دے سکتے ہیں،مگر معاشی مسائل ان کے پائوں کی زنجیر ہیں۔ مفتاح اسماعیل نے واشنگٹن میں تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل میں خطاب میں کہا کہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنا چاہتے ہیں، ایک سال کے اندر انتخابات کی طرف جائیں گے۔
لیکن سوال یہ بھی ہے کہ ایک سال میں کیا ہوتا ہے؟ معاشی استحکام پیدا کرنے کیلئے 50 سالہ 25 سالہ منصوبے بنائے جاتے ہیں اور 5 سال کم سے کم مدت ہوتی ہے، وزیر خزانہ نے ایک سال میں الیکشن کا اشارہ دیا ہے تو ان کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ سیاسی حکومتیں کی جانب سے ووٹروں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے مختلف علاقوں میں ایسے منصوبے دئیے جاتے ہیں جو کہ معاشی پالیسیوں سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ پی ڈی ایم سٹیٹ بینک کی خود مختاری اور سٹیٹ بینک کے سربراہ پر اعتراض کرتی رہی ہے مگر وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل آئی ایم ایف کے حکام کے مذاکرات کیلئے امریکہ پہنچے تو اسٹیٹ بینک کے سربراہ رضا باقر پہلے ہی امریکہ میں موجود تھے۔ مفتاح اسماعیل نے روانگی سے قبل اسلام آباد میں گفتگو کے دوران کہا تھا کہ سابقہ حکومت نے تین سال کے دوران 20 ہزار ارب کا قرضہ لیا مگر ایک ڈالر کا قرضہ بھی و اپس نہیں کیا۔وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف پروگرام کو ٹریک پر لانے اور عوام دوست بجٹ بنانے کی بھی یقین دہانی کرائی، یہ وعدہ بھی کیا کہ روپے کی قدر مزید کم نہیں ہو گی ، مگر وزیر خزانہ کی یہ باتیں آج کے بیان سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
 سابق متحدہ اپوزیشن جو کہ اب حکمران اتحاد ہے اس کا اصل امتحان یہی ہوگا کہ وہ اپنے پرانے دعوئوں کے مطابق ایسی معاشی پالیسی لائے جس سے آئی ایم ایف کی بالادستی بھی کم ہو اور عوام پر بھی کوئی منفی اثر نہ ہو۔شوکت ترین بھی جب وزیر خزانہ کی حیثیت سے عالمی مالیاتی ادارے سے مذاکرات کے لئے گئے تو وہ سخت شرائط میں رتی برابر نرمی نہ کروا سکے۔ وطن واپسی پر جب انہیں مختلف حلقوں نے آڑے ہاتھوں لیا تو وہ یہ کہہ کر جان چھڑا گئے کہ ہم نے اپنے طور پر آئی ایم ایف کو شرائط میں نرمی کیلئے قائل کرنے کی کوشش کی مگر ہمیں بتایا گیا کہ یہ سخت شرائط امریکہ کے حکم پر ہیں۔
اب مفتاح اسماعیل وزیر خزانہ ہیں انہیں آئی ایم ایف سے مذاکرات ہی نہیں کرنے بلکہ سخت شرائط میں نرمی لانے پر آمادہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس امر کو بھی یقینی بنانا ہے کہ معاشی پالیسی وضع کرنے اور نفاذ کے عمل سے عام آدمی کی زندگی کسی مشکل میں نہ پڑے۔ عام آدمی جو مہنگائی ، بیروزگار اور دوسرے مسائل سے تنگ ہے اس کا مسئلہ آمدنی اور اخراجات میں عدم توازن ہے ، یہ عدم توازن اصل میں بھاری بھر کم یوٹیلیٹی بلز اور مہنگی پٹرولیم مصنوعات کی وجہ سے ہے،بہتری کیلئے دانش مندی ، خود انحصاری اور ایسی پالیسیوں کی ضرورت ہے جن کا بوجھ معاشرے کے عام طبقات پر نہ پڑے ۔ اعداد شمار کے مطابق پاکستان میں 10 کروڑ سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ،
گزشتہ دور حکومت میں کاشت کاروں کو کپاس، گنے اور دیگر اجناس کی کم قیمتوں کا ریلیف نہیں دیا گیا ، بلدیاتی اداروں کو بھی کوئی فنڈ نہیں ملا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انڈسٹری کا قیام وہاں ہونا چاہئے جہاں خام مال ہو اور افرادی قوت موجود ہو، یہ سب کچھ سرائیکی وسیب میں موجود ہے مگر کسی حکومت نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ مفتاح اسماعیل کو اپنی معاشی صلاحتیں بروئے کار لاتے ہوئے ترقی کا روڈ میپ تیار کرنا ہوگا اوروہ علاقے جہاں پہلے انڈسٹری موجود ہے وہاں مزید صنعتیں لگانے کی بجائے ان علاقوں میں صنعتیں قائم کرنا ہوں گی جہاں پہلے صنعتیں نہیں ہیں، پاکستان کے تمام علاقوں کو مساویانہ ترقی دینا ہوگی، خام مال اور افرادی قوت وافر مقدار میں ہونے کے باوجود سرائیکی وسیب وہ بے نصیب علاقہ ہے جہاں آج تک ایک بھی ٹیکس فری انڈسٹریل زون قائم نہیں کیا گیا ،
سی پیک سے سرائیکی وسیب کو کوئی صنعتی بستی فراہم نہیں کی گئی بلکہ بہاولپور، ڈیرہ غازی خان سمیت وسیب کے اہم علاقوں کو سی پیک سے الگ کر دیا گیا۔ مفتاح اسماعیل کا تعلق کراچی سے ہے وہ اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ 40 سے 50 لاکھ مرد و خواتین اور بوڑھے بچے غربت کے باعث کراچی ہجرت پر مجبور ہوئے وہ خط غربت سے نیچے وہاں زندگی بسر کر رہے ہیں حالانکہ ان لوگوں کے اپنے وسیب میں کسی چیز کی کوئی کمی نہیں ، سرائیکی خطہ پورے ملک کی غذائی ضروریات کا 70 فیصد مہیا کرتا ہے ، وسیب میں گندم کے گودام بھرے ہیں مگر لوگوں کے پیٹ خالی ہیں کیا وزیر خزانہ ، وزیراعظم اور معاشی معاہرین اس مسئلے کی طرف توجہ دیں گے ؟

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author