وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہفت روزہ ‘لیل و نہار‘ اردو صحافت کا شعلہ مستعجل تھا۔ 20 جنوری 1957ء کو اس ہفت روزے کا پہلا شمارہ شائع ہوا۔ 18 اپریل 1959ء کو پروگریسو پیپرز لمیٹڈ پر ایوب آمریت کے شب خون کے بعد ‘لیل و نہار‘ معیار اور شناخت کھو بیٹھا۔ اشفاق احمد اور صوفی تبسم نے کچھ عرصہ ادارت کی ذمہ داری نبھانا چاہی مگر سبط حسن کا خلا پورا کرنا کارے دارد تھا۔ حقیقی طور پر محض سوا دو برس شائع ہونے والے اس پرچے نے اردو کی ہفت روزہ صحافت پر ان مٹ نقوش چھوڑے۔
گوجرانوالہ کی ایک نیم تاریک دو چھتی میں دیگر جرائد سمیت لیل و نہار کی دو سالہ مجلد فائل بھی رکھی تھی جسے گھر والوں سے آنکھ بچا کے پڑھا جاتا تھا کیونکہ قصباتی معاشرت میں نصاب سے ہٹ کر کچھ پڑھنا بے راہ روی سمجھا جاتا تھا۔ اس فائل میں مئی 1957ء کا جنگ آزادی نمبر خاصے کی چیز تھا۔ اسے اتنی بار پڑھا گیا کہ قریب قریب حفظ ہو گیا۔ کچھ ادھ مٹے نقوش میں ایک تحریر کا عنوان یاد رہ گیا ہے، ‘چین کتنی دور ہے؟‘۔ سبط حسن نے لکھا کہ 19 اپریل 1959ء کی صبح سرائے رتن چند کے بس سٹاپ کی طرف جاتے ہوئے رک کر اپنے دفتر میں جھانکا تو وہاں دنیا ہی بدل چکی تھی۔ رات کے کسی پہر میں قدرت اللہ شہاب ‘نیا ورق‘ کے عنوان سے پاکستان ٹائمز کا اداریہ لکھ گئے تھے۔ یہ عجب معمہ ہے کہ ہماری افتاد میں قدامت پسندی کے ساتھ ساتھ نئے پن سے چیٹک بھی شامل رہی ہے۔ نیا ورق، نیا نظام، نیا رہنما اور پھر نیا پاکستان۔ ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں۔
"چین کتنی دور ہے؟” کا عنوان اس لیے یاد آیا کہ رخصت ہونے والے وزیراعظم عمران خان نے اپنے خلاف عدم اعتماد کو امریکا کی سازش بتایا ہے۔ اس ضمن میں ایک خط کا ذکر بھی چلا جسے بعد ازاں پاکستان کے سفیر اسد مجید کا مراسلہ قرار دیا گیا۔ یہ سوال تو شاید تحقیق طلب ہی رہے گا کہ مذکورہ مراسلے اور حزب اختلاف میں تعلق کیسے ثابت ہوا؟ پاکستان اور امریکہ کی سفارتی تاریخ میں امریکی عہدیداروں کے رعونت آمیز بلکہ ناقابل اشاعت لب و لہجے کے دستاویزی حوالے موجود ہیں۔ ان دنوں جس جملے کی آڑ میں شہباز شریف کو رگیدا جا رہا ہے، وہ تو قدرت اللہ شہاب نے صدر ایوب سے منسوب کر رکھا ہے۔ برما شیل کے کسی امریکی ایگزیکٹو کے فون پر صدر ایوب کے بارے میں بدزبانی پر شہاب صاحب نے شکایت کی تو ایوب خان نے، بقول شہاب صاحب، یہی کہا تھا، Beggars are not choosers۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ”امریکی خط” کے نشانات بہت دور تک جاتے ہیں۔ 30 اپریل 1977ء کی سہ پہر راولپنڈی کے راجہ بازار میں ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے امریکی وزیر خارجہ سائرس وانس کا جو خط لہرایا تھا، اس کی حقیقت محض یہ تھی کہ بھٹو صاحب نے 28 اپریل کو قومی اسمبلی میں ایک دھواں دھار تقریر کرتے ہوئے نام لیے بغیر امریکہ کو اپنے خلاف احتجاجی تحریک کا محرک ٹھہرایا تھا۔ سائرس وانس نے اپنے خط میں شکوے شکایت کے لیے سفارتی ذرائع بروئے کار لانے کی تجویز دی تھی۔ بہت برس بعد بے نظیر بھٹو کے خلاف بھی ایک ”امریکی خط” کا طوفان اٹھا۔ 1990ء میں بے نظیر حکومت معزول کرنے کے بعد آئی جے آئی کی انتخابی مہم دراصل کن ہاتھوں میں تھی، تین عشرے گزرنے کے بعد یہ اب کوئی راز نہیں رہا۔
خدا جنرل حمید گل کو غریق رحمت کرے۔ مرحوم، سیاسی جوڑ توڑ اور مالی کشیدہ کاری کے علاوہ پرفریب سیاسی بیانیہ مرتب کرنے میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے۔ بے نظیر کا عورت ہونا تو مذہب پسند عناصر کے لیے ایک چلتا ہوا سکہ تھا۔ آئی جے آئی کے ترکش میں مہلک ترین ہتھیار بے نظیر کو امریکا نواز ثابت کرنا تھا۔ اس کے لیے ”ہنود و یہود لابی” کی اصطلاح استعمال کی گئی اور اس کے ثبوت میں ایک خط دریافت کیا گیا جو مبینہ طور پر بے نظیر بھٹو نے امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ امور کے ایک اہلکار پیٹر گلبرایتھ (Peter Galbraith) کے نام 24 ستمبر 1990ء کو تحریر کیا تھا۔ گلبرایتھ زمانہ طالب علمی سے بے نظیر کے قریبی دوست تھے۔ جعل سازی کے اس شاہکار خط میں دیگر قابل اعتراض نکات کے علاوہ بے نظیر نے مبینہ طور پر مکتوب الیہ سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ وہ بھارتی وزیر اعظم وی پی سنگھ پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے پاک بھارت سرحدی جھڑپوں شروع کروائیں تاکہ پاک فوج (توجہ بٹنے کے باعث) بے نظیر کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے۔ یہ ایک دو دھاری وار تھا تاکہ بے نظیر پر بھارت نوازی کا الزام بھی جَڑا جا سکے۔ اس مفروضہ خط کو بنیاد بنا کر سرکاری اخبارات میں مضامین لکھوائے گئے۔
واشنگٹن کے نیشنل ڈیموکریٹک انسٹیٹیوٹ نے انتخابات کا جائزہ لینے کے لیے ایک وفد پاکستان بھیجا تھا۔ اس وفد نے The October 1990 Elections in Pakistan کے عنوان سے جو رپورٹ مرتب کی اس کے ضمیمہ نمبر 14 میں اس جعلی خط کا عکس موجود ہے۔ 2011ء کے میموگیٹ سکینڈل کی مفروضہ خط و کتابت تو ابھی کل کی بات ہے۔ آصف علی زرداری دعویٰ کرتے ہیں کہ جنرل شجاع پاشا نے یہ کہتے ہوئے ان سے معافی طلب کی تھی کہ وہ جنرل کیانی کا حکم ماننے پر مجبور تھے۔ بہرصورت فروری 2019ء میں عدالت عظمیٰ نے یہ ”دفتر بے معنی” لپیٹ دیا۔
قصہ یہ ہے کہ اسلام آباد سے بیجنگ کا فاصلہ 3881 کلومیٹر ہے جب کہ واشنگٹن 11367 کلومیٹر دور ہے۔ ہمیں شمال میں اپنے دیو قامت ہمسائے اور اس کی بڑھتی ہوئی معاشی قوت سے مفر نہیں۔ سی پیک ہی نہیں، ہمارے سیاسی اور سفارتی مفادات بھی چین سے وابستہ ہیں۔ دوسری طرف امریکا آنے والے بہت سے برسوں تک سپر پاور رہے گا جس کا معاشی، سیاسی اور تیکنیکی تعاون ہمارے استحکام اور ترقی کے لئے ناگزیر ہے۔ امریکا سے ہمارے شکوے پرانے ہیں مگر مارچ 1988ء میں جنیوا معاہدے کے بعد سے پاکستان میں مقتدر ریاستی قوتوں اور مذہبی عناصر نے کوتاہ بیں داخلی مفادات کے لیے امریکا مخالف بیانیے کو دانستہ مضبوط کیا ہے۔
عمران خان اسی رجحان سے فائدہ اٹھا کر امریکا دشمنی کی مہمل گردان کرتے ہوئے اندرون ملک اپنی سیاسی بقا کا سامان کرنا چاہتے ہیں۔ دراصل وہ ملک کی طاقتور مقتدرہ سے ٹکراؤ کے متحمل نہیں ہو سکتے چنانچہ امریکہ پر اپنی سیاسی مشکلات کا الزام دھرنے کو ایک آسان لائحہ عمل سمجھتے ہیں۔ تاہم یہ ایک خطرناک راستہ ہے۔ گزشتہ ایک صدی سے امریکا کو دنیا کے ہر ملک کا ”ہمسایہ” سمجھا جاتا رہا ہے۔ آج کی دنیا میں اگرچہ طاقت کے متعدد متوازی مراکز پیدا ہو رہے ہیں لیکن پاکستان اپنی کمزور معیشت اور سیاسی عدم استحکام کے باعث طاقت کے متبادل مراکز سے فائدہ اٹھانے سے قاصر ہے۔ امریکہ یا وسیع تر معنوں میں مغربی دنیا سے مخاصمت کی فضا پاکستان کے معاشی اور انتظامی مفادات ہی کو نقصان نہیں پہنچائے گی بلکہ دہشت گردی کے دہانے پر واقع پاکستان میں مذہبی تفرقے، لسانی انتشار اور طبقاتی منافرت کا دروازہ بھی کھل جائے گا۔ آج کے پاکستان میں سوال یہ نہیں کہ ”چین کتنی دور ہے؟”۔ دراصل پاکستان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ امریکا کتنا نزدیک ہے۔
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
صحافت ایک شب زاد پیشہ ہے، اصطلاح کی حد تک ہی نہیں، لغوی طور پر بھی صحافت میں رات جاگتی ہے تو خبر کا سراغ لاتی ہے۔ کوئی اس وقت برہمن کی صباحت دیکھے / نکلے جب رات کا جاگا ہوا بت خانے سے۔ آپ تو جانتے ہیں، رات کے ہر روزگار میں خواب کا کچھ زیاں لازم ہے اور پھر ایک خاص نوع کی بیزار کن یکسانیت۔ گزشتہ شب کے کیف و کم سے ایسا اغماض گویا ’جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں‘۔ ساعت آئندہ سے ایسا التفات کہ’آبگینہ تندی صہبا سے پگھلا جائے ہے‘۔ اس گھڑی دس اپریل کا سورج بلند ہو چکا ہے۔ گزشتہ رات اطلاع اور افواہ کی دم بدم یلغار سے جونجھتے گزری۔ صبح اخبارات پر نظر ڈالی تو جہان گزراں کے بہت سے موڑ حافظے کی تختی پر روشن ہو گئے۔ ہم ایسوں کے لئے دسمبر 71 کے نقش تو بہت دھندلے ہیں البتہ 6 جولائی 77ء، 7 اگست 90ء، 19 اپریل 93ء اور 14 اکتوبر 99ء جیسے مناظر خوب مستحضر ہیں۔ مرزا دبیر نے تصویر کھینچ رکھی ہے، چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا۔ حکومت بدلنے کے ایک روز بعد کا اخبار تو شتر گربہ کا نمونہ ہوتا تھا، دائیں ہاتھ جلوس تازہ کی تفصیل درج ہے تو عین پہلو میں ڈاک ایڈیشن کی کوئی کترن ٹانک رکھی ہے۔ حیرت ہوتی تھی کہ اگر لکھنے اور بولنے والے یہ سب جانتے تھے تو اب تک خاموش کیوں تھے۔ کل آثار الصنادید مرتب کر رہے تھے، آج بغاوت کے اسباب کی تحقیق پر مامور ہیں۔ خیر اپنا تو جون ایلیا کے مصرعے میں معمولی تصرف سے کلیان ہو گیا، لوگ ’ہم‘ درمیاں کے تھے ہی نہیں۔
عمران خان کی حکومت رخصت ہو گئی۔ عدم اعتماد پارلیمانی طرز حکومت میں معمول کی کارروائی ہے۔ ابھی گزشتہ ہفتے اسرائیل کی اتحادی حکومت کو ایک رکن اسمبلی کے ہاتھوں انہدام کا خطرہ پیدا ہوا مگر کاروبار مملکت بدستور جاری رہا۔ ہمارے ہاں یہ قصہ 8 مارچ کو شروع ہوا اور ان گنت اتار چڑھاﺅ سے گزرتا 9 اور 10 اپریل کی درمیانی شب چند منٹ کے فاصلے سے توہین عدالت سے بال بال بچا۔ اس دوران سیاسی مکالمے میں ابتذال آیا۔ الزامات کی باڑھ چڑھی۔ روپے کی قیمت گری، کاروبار مملکت مفلوج ہوا۔ جگ ہنسائی ہوئی۔ اس لئے کہ ہم سیاسی عمل کی بجائے معجزوں کے منتظر ہیں۔ ہم دستوری تسلسل میں یقین کی بجائے نئے چہرے مانگتے ہیں۔ ہم انتخاب کو رائے دہی کا عمل نہیں سمجھتے، ہم انتخاب لڑتے ہیں۔ ہم کامیابی یا ناکامی نہیں، فتح و شکست کی لغت میں سوچتے ہیں۔ ہمارا ہر رہنما ایک فوق الفطرت تحفہ سرمدی ہے جو عالم عدم سے نرگس کی بے نوری کا درماں کرنے آیا ہے۔ ہمارا ہر مخالف مجسم برائی ہے جو رات کے اندھیرے میں متروکہ قبرستانوں میں شیطان سے گٹھ جوڑ کرتا ہے۔ ہمارا لیڈر ناکام ہو تو سازش کی لگی بندھی دلیل موجود ہے۔ ہم پالیسی کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتے، نعرے سے تحریک پاتے ہیں۔ ہمیں دستور یا معیشت کا دماغ نہیں، ہم اوامر و نواہی کی گردان کرتے ہوئے ذاتی مفاد کی جستجو میں رہتے ہیں۔
ہمارے دریائے غیرت کا نقطہ کھولائو بہت کم ہے البتہ مغربی ممالک کا ویزہ لینے کے لئے گھنٹوں دھوپ میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں۔ ریپبلکن پارٹی، کنونشن لیگ، پی این اے، آئی جے آئی کی طرح یہ کھپریل بھی اب تنکا تنکا ہو کے بکھر جائے گی اس لئے کہ سیاسی جماعت نہیں تھی، گھاگ مگر نادیدہ دستکار محروم دلوں کو خوابوں کا دانہ دکھا کر دام میں لائے تھے۔ اب چھتری ہٹ گئی، خواب جھوٹے پڑ گئے اور پرائے پنچھی نئے پرانے تالابوں کی طرف پرواز کر گئے۔ اصل نقصان یہ ہے کہ سیاسی شعور سے دانستہ محروم رکھے گئے نیک دل، مخلص اور بنیادی طور پر دیانتدار ہجوم کی ایک اور نسل سیاست سے برگشتہ ہو گی۔ تحریک خلافت سے آج تک ہم نے سستے جذبات کا یہی ٹھیلا سجایا ہے۔
اجازت دیجئے کہ امبرٹو ایکو نے ’دائمی فسطائیت‘ کے عنوان سے 1995ء میں جو نکات مرتب کیے تھے، بار دگر دہرا دوں۔ (1) فسطائیت میں روایت پرستی اور قدامت پسندی پر زور دیا جاتا ہے۔ ( 2) جدیدیت اور روشن خیالی کو بے راہروی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ( 3) تفکر کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ عمل برائے عمل کی تلقین کی جاتی ہے۔ ( 4) اختلاف رائے کو غداری قرار دیا جاتا ہے۔ ( 5) فسطائیت بیرونی، اجنبی عناصر سے خائف رہتی ہے۔ تنوع کی بجائے یکسانیت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ( 6) متوسط طبقے کی مایوسی سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ اس طبقے کو بیک وقت اشرافیہ اور غریبوں سے خوف دلایا جاتا ہے۔ ( 7) لوگوں کو مسلسل بیرونی اور داخلی سازشوں سے ڈرایا جاتا ہے۔ قوم میں محاصرے کی نفسیات پیدا کی جاتی ہے۔ ( 8) دشمن کو بیک وقت بہت طاقتور اور بہت کمزور بتایا جاتا ہے۔ حکومت مضبوط دشمن سے حفاظت کرے گی اور اسے ملیامیٹ کر دے گی۔ ( 9) امن پسندوں کو دشمن کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔ ( 10) فسطائیت اپنے مخالفین سے حقارت کا سلوک کرتی ہے۔ ( 11) فسطائیت کو ہیرو بنانے کا جنون ہوتا ہے۔ بڑے بڑے کارنامے کرنے والے ہی قوم کا اثاثہ ہیں۔ ( 12) ہتھیاروں اور طاقت کی نمائش کا چلن ہوتا ہے۔ ( 13) مقبول عام رجحانات کو ہوا دے کر انہیں عوام کی آواز بتایا جاتا ہے۔ ( 14) فسطائیت عامیانہ لب و لہجے اور بازاری زبان کو فروغ دیتی ہے تا کہ غور و فکر پر مبنی تنقیدی شعور کو دبایا جا سکے۔
اس وقت قوم کے ایک حصے میں جشن کا سماں ہے اور ایک طبقے پر مایوسی کی کیفیت طاری ہے۔ 24 اکتوبر 1947 کو جامع مسجد دہلی میں مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد نے فرمایا تھا، ”جس طرح آج سے کچھ عرصہ پہلے تمہارا جوش و خروش بے جا تھا۔ اسی طرح آج تمہارا یہ خوف و ہراس بھی بے جا ہے۔‘ مولانا کے حسن کلام سے تقابل کا خیال بھی جسارت ہے ۔ صرف یہ عرض ہے کہ خوابوں کے جنازے اٹھانے سے تعمیر قوم کی امانت اٹھانا کہیں بہتر ہے۔
صحافت ایک شب زاد پیشہ ہے، اصطلاح کی حد تک ہی نہیں، لغوی طور پر بھی صحافت میں رات جاگتی ہے تو خبر کا سراغ لاتی ہے۔ کوئی اس وقت برہمن کی صباحت دیکھے / نکلے جب رات کا جاگا ہوا بت خانے سے۔ آپ تو جانتے ہیں، رات کے ہر روزگار میں خواب کا کچھ زیاں لازم ہے اور پھر ایک خاص نوع کی بیزار کن یکسانیت۔ گزشتہ شب کے کیف و کم سے ایسا اغماض گویا ’جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں‘۔ ساعت آئندہ سے ایسا التفات کہ’آبگینہ تندی صہبا سے پگھلا جائے ہے‘۔ اس گھڑی دس اپریل کا سورج بلند ہو چکا ہے۔ گزشتہ رات اطلاع اور افواہ کی دم بدم یلغار سے جونجھتے گزری۔ صبح اخبارات پر نظر ڈالی تو جہان گزراں کے بہت سے موڑ حافظے کی تختی پر روشن ہو گئے۔ ہم ایسوں کے لئے دسمبر 71 کے نقش تو بہت دھندلے ہیں البتہ 6 جولائی 77ء، 7 اگست 90ء، 19 اپریل 93ء اور 14 اکتوبر 99ء جیسے مناظر خوب مستحضر ہیں۔ مرزا دبیر نے تصویر کھینچ رکھی ہے، چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا۔ حکومت بدلنے کے ایک روز بعد کا اخبار تو شتر گربہ کا نمونہ ہوتا تھا، دائیں ہاتھ جلوس تازہ کی تفصیل درج ہے تو عین پہلو میں ڈاک ایڈیشن کی کوئی کترن ٹانک رکھی ہے۔ حیرت ہوتی تھی کہ اگر لکھنے اور بولنے والے یہ سب جانتے تھے تو اب تک خاموش کیوں تھے۔ کل آثار الصنادید مرتب کر رہے تھے، آج بغاوت کے اسباب کی تحقیق پر مامور ہیں۔ خیر اپنا تو جون ایلیا کے مصرعے میں معمولی تصرف سے کلیان ہو گیا، لوگ ’ہم‘ درمیاں کے تھے ہی نہیں۔
عمران خان کی حکومت رخصت ہو گئی۔ عدم اعتماد پارلیمانی طرز حکومت میں معمول کی کارروائی ہے۔ ابھی گزشتہ ہفتے اسرائیل کی اتحادی حکومت کو ایک رکن اسمبلی کے ہاتھوں انہدام کا خطرہ پیدا ہوا مگر کاروبار مملکت بدستور جاری رہا۔ ہمارے ہاں یہ قصہ 8 مارچ کو شروع ہوا اور ان گنت اتار چڑھاﺅ سے گزرتا 9 اور 10 اپریل کی درمیانی شب چند منٹ کے فاصلے سے توہین عدالت سے بال بال بچا۔ اس دوران سیاسی مکالمے میں ابتذال آیا۔ الزامات کی باڑھ چڑھی۔ روپے کی قیمت گری، کاروبار مملکت مفلوج ہوا۔ جگ ہنسائی ہوئی۔ اس لئے کہ ہم سیاسی عمل کی بجائے معجزوں کے منتظر ہیں۔ ہم دستوری تسلسل میں یقین کی بجائے نئے چہرے مانگتے ہیں۔ ہم انتخاب کو رائے دہی کا عمل نہیں سمجھتے، ہم انتخاب لڑتے ہیں۔ ہم کامیابی یا ناکامی نہیں، فتح و شکست کی لغت میں سوچتے ہیں۔ ہمارا ہر رہنما ایک فوق الفطرت تحفہ سرمدی ہے جو عالم عدم سے نرگس کی بے نوری کا درماں کرنے آیا ہے۔ ہمارا ہر مخالف مجسم برائی ہے جو رات کے اندھیرے میں متروکہ قبرستانوں میں شیطان سے گٹھ جوڑ کرتا ہے۔ ہمارا لیڈر ناکام ہو تو سازش کی لگی بندھی دلیل موجود ہے۔ ہم پالیسی کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتے، نعرے سے تحریک پاتے ہیں۔ ہمیں دستور یا معیشت کا دماغ نہیں، ہم اوامر و نواہی کی گردان کرتے ہوئے ذاتی مفاد کی جستجو میں رہتے ہیں۔
ہمارے دریائے غیرت کا نقطہ کھولائو بہت کم ہے البتہ مغربی ممالک کا ویزہ لینے کے لئے گھنٹوں دھوپ میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں۔ ریپبلکن پارٹی، کنونشن لیگ، پی این اے، آئی جے آئی کی طرح یہ کھپریل بھی اب تنکا تنکا ہو کے بکھر جائے گی اس لئے کہ سیاسی جماعت نہیں تھی، گھاگ مگر نادیدہ دستکار محروم دلوں کو خوابوں کا دانہ دکھا کر دام میں لائے تھے۔ اب چھتری ہٹ گئی، خواب جھوٹے پڑ گئے اور پرائے پنچھی نئے پرانے تالابوں کی طرف پرواز کر گئے۔ اصل نقصان یہ ہے کہ سیاسی شعور سے دانستہ محروم رکھے گئے نیک دل، مخلص اور بنیادی طور پر دیانتدار ہجوم کی ایک اور نسل سیاست سے برگشتہ ہو گی۔ تحریک خلافت سے آج تک ہم نے سستے جذبات کا یہی ٹھیلا سجایا ہے۔
اجازت دیجئے کہ امبرٹو ایکو نے ’دائمی فسطائیت‘ کے عنوان سے 1995ء میں جو نکات مرتب کیے تھے، بار دگر دہرا دوں۔ (1) فسطائیت میں روایت پرستی اور قدامت پسندی پر زور دیا جاتا ہے۔ ( 2) جدیدیت اور روشن خیالی کو بے راہروی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ( 3) تفکر کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ عمل برائے عمل کی تلقین کی جاتی ہے۔ ( 4) اختلاف رائے کو غداری قرار دیا جاتا ہے۔ ( 5) فسطائیت بیرونی، اجنبی عناصر سے خائف رہتی ہے۔ تنوع کی بجائے یکسانیت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ( 6) متوسط طبقے کی مایوسی سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ اس طبقے کو بیک وقت اشرافیہ اور غریبوں سے خوف دلایا جاتا ہے۔ ( 7) لوگوں کو مسلسل بیرونی اور داخلی سازشوں سے ڈرایا جاتا ہے۔ قوم میں محاصرے کی نفسیات پیدا کی جاتی ہے۔ ( 8) دشمن کو بیک وقت بہت طاقتور اور بہت کمزور بتایا جاتا ہے۔ حکومت مضبوط دشمن سے حفاظت کرے گی اور اسے ملیامیٹ کر دے گی۔ ( 9) امن پسندوں کو دشمن کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔ ( 10) فسطائیت اپنے مخالفین سے حقارت کا سلوک کرتی ہے۔ ( 11) فسطائیت کو ہیرو بنانے کا جنون ہوتا ہے۔ بڑے بڑے کارنامے کرنے والے ہی قوم کا اثاثہ ہیں۔ ( 12) ہتھیاروں اور طاقت کی نمائش کا چلن ہوتا ہے۔ ( 13) مقبول عام رجحانات کو ہوا دے کر انہیں عوام کی آواز بتایا جاتا ہے۔ ( 14) فسطائیت عامیانہ لب و لہجے اور بازاری زبان کو فروغ دیتی ہے تا کہ غور و فکر پر مبنی تنقیدی شعور کو دبایا جا سکے۔
اس وقت قوم کے ایک حصے میں جشن کا سماں ہے اور ایک طبقے پر مایوسی کی کیفیت طاری ہے۔ 24 اکتوبر 1947 کو جامع مسجد دہلی میں مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد نے فرمایا تھا، ”جس طرح آج سے کچھ عرصہ پہلے تمہارا جوش و خروش بے جا تھا۔ اسی طرح آج تمہارا یہ خوف و ہراس بھی بے جا ہے۔‘ مولانا کے حسن کلام سے تقابل کا خیال بھی جسارت ہے ۔ صرف یہ عرض ہے کہ خوابوں کے جنازے اٹھانے سے تعمیر قوم کی امانت اٹھانا کہیں بہتر ہے۔
بشکریہ ہم سب
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر