سرائیکی زبان کے معروف شاعر اور ادب محمد اشرف المعروف ڈاکٹر اشو لال نے پاکستان لیٹرز آف اکیڈمی (پی ایل اے) کی جانب سے 10 لاکھ روپے کے نقعد انعام کا اعلیٰ ترین ادبی ایوارڈ لینے سے انکار کردیا۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اشو لال نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں پاکستان لیٹرز آف اکیڈمی کی جانب سے اعلان کردہ ایوارڈ کو نہ لینے کا اعلان کیا۔
ان کی جانب سے ایوارڈ نہ لینے کی پوسٹ کیے جانے کے بعد ڈان نے جب ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ انہوں نے ریاست کی عوام دشمن اور آرٹ مخالف پالیسیوں کے باعث اعلیٰ ترین ادبی ایوارڈ لینے سے انکار کیا ہے۔
پاکستان لیٹرز آف اکیڈمی نے حال ہی میں اشو لال کے علاوہ معروف مصنف اور سفرنامہ نگار مستنصر حسین تارڑ کو اعلیٰ ترین ایوارڈز دینے کا اعلان کیا تھا۔
ڈاکٹر اشو لال جو کہ 13 اپریل 1959 میں محمد اشرف کے نام سے پیدا ہوئے، بعد ازاں انہوں نے والدہ کی جانب سے عطا کردہ نام اشو لال اپنایا نے ایوارڈ نہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے سرائیکی میں کی گئی پوسٹ میں لکھا کہ ان کا انکار ایوارڈ لینے سے زیادہ اہم ہے کیوں کہ ان کی چالیس سالہ ادبی سرگرمیاں ہیں ان کا انعام ہیں اور یہ کہ وہ بریکٹ میں نہیں رہنا چاہتے۔
اشو لال نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ریاست مقامی لوگوں کے وسائل اور ثقافت پر ظلم کر رہی ہے، فاشسٹ حکومت میں بچے لاپتہ ہو رہے ہیں، حکومت نے مقامی لوگوں کو مکمل طور پر نظر انداز کر رکھا ہے، یہ حکومت عوام اور آرٹ دشمن ہے، اس سے کیسے ایوارڈ لے سکتا ہوں؟
انہوں نے سرکاری ایوارڈز پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ایوارڈز زیادہ تر سیاسی بنیادوں پر دیے جاتے ہیں، ان کی اہمیت فوٹوسیشن سے زیادہ نہیں ہوتی۔
ڈاکتر اشو لال نے کہا کہ وہ کسی ایسے صدر سے ایوارڈ لینا نہیں چاہتے جو ان کا نام تک نہ جانتے ہوں۔
انہوں نے ایوارڈ کے لیے منتخب کرنے پر لیٹرز اکیڈمی کا شکریہ بھی ادا کیا اور کہا کہ انہوں نے کوئی کتاب ادارے کو نہیں بھجوائی تھی جب کہ ماضی میں 1997 میں ان کے ایک دوست نے ذاتی طور پر ان کی کتاب اکیڈمی کو بھجوائی تھی، جس کے بعد تاحال آج تک انہوں نے کوئی کتاب وہاں نہیں بھجوائی۔
انہوں نے کہا کہ سرائیکی خطے کو معاشی طور پر غیر مستحکم رکھا جا رہا ہے، حکومت مقامی لوگوں کا خیال نہیں رکھتی اور یہاں کے لوگوں کا معاشی استحصال کیا جا رہا ہے، جس وجہ سے وہ ایوارڈ نہیں لے رہے۔
انہوں نے کہا کہ اب وہ 62 برس کے ہوچکے ہیں، انہوں نے 40 سال تک ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیا اور وہی ان کا سرمایہ ہیں اور وہ موجودہ استحصالی حکومت سے ایوارڈ لے کر کیسے اپنی جدوجہد کو ضائع کیوں کریں؟
اشو لال نے واضح کیا کہ وہ کسی بھی مقامی زبان کے خلاف نہیں ہیں، وہ پنجابی بولنے والوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اسکولوں میں پنجابی میڈیم کو رائج کیا جائے، لوگوں کو مادری زبان میں تعلیم نہ دینا بھی انہیں محروم رکھنے کا ایک ریاستی حربہ ہے۔
اشو لال اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے کلچر ونگ کے صدر کے طور پر ذمہ داریاں بھی ادا کر رہے ہیں، وہ اس وقت ضلع لیہ میں کلینک چلاتے ہیں، جہاں غریبوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔
اشو لال پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں، انہوں نے قائد اعظم میڈیکل بہاولپور سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد تقریبا پورے خطے میں بطور ڈاکٹر خدمات سر انجام دیں اور بعض اوقات انہوں نے ایسے مقامات پر بھی فرائض سر انجام دیے، جہاں پر کوئی ڈاکٹر ڈیوٹی کرنے کو تیار نہ تھا۔
اشو لال کی اب تک سرائیکی شاعری اور مختصر کہانیوں کی 6 کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور وہ زمانہ طالب علمی سے ادب سے وابستہ ہیں۔
انہوں نے ایوارڈ لینے سے انکار کے بعد زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ ملک فاشسٹ ریاست میں تبدیل ہو چکا ہے جو کہ نصابی کتابوں کے ذریعے بچوں کے دماغوں پر ڈاکہ ڈال رہا ہے۔
اشو لال کے مطابق ریاست دماغی ڈاکہ ڈالنے کے بعد نئی نسل سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لیتی ہے اور پھر وسائل پر قابض ہوجاتی ہے۔
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ