نومبر 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سیاست اور عمران خان || عادل علی

ان کی حالیہ تقاریر سیدھا گالم گلوچ اور دھمکیوں سے پر ہیں۔ ان کی لڑکھڑاتی آواز اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ انہوں نے جو بویا تھا اب اس کا پھل کاٹنے کے دن آنے والے ہیں۔

عادل علی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خوش نصیبی اگر کسی طرح انسان کا ساتھ دے ہی دے تو انسان کو بھی اپنے اخلاقی اقدار و معیار کو بلند کر لینا چاہیے نا کہ اس میں مزید گراوٹ کا اضافہ کر لیا جائے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا وزیراعظم عظیم بدزبان بھی ہے۔
جس طرح فلموں کو ہٹ بنانے کے لیے ان میں آئٹم سانگ کا تڑکہ لگایا جاتا ہے اسی طرح جب کسی بولنے والے کی باتوں میں جان نہ ہو اور سننے والے عدم دلچسپی کا اظہار کریں تو ادرمیان میں طنز و مزاح کا تڑکہ لگا دیا جاتا ہے جس سے نہ صرف ہال میں ہلچل پیدا ہوجاتی ہے بلکہ ہجوم بھی تھوڑا متحرک ہوجاتا ہے۔
عمران خان نامی شخص جب اوائل وقت میں عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہ رہا ہوتا تھا تو مخالفین کے بارے میں چرب زبانی ہی اس کا خاصہ تھی جس کی ادائیگی کے وقت وہ کسی سی اسٹیج اداکار سے کم دکھائی نہیں دیتا تھا اور یوں وہ عوام کو لبھاتے لبھاتے قومی لیڈر کے طور پر شہرت کے حامل ہوگیا۔
ان کے پرانے ٹی وی ٹاک شوز بھی اگر دیکھے جائیں تو وہاں بھی ان میں کوئی سیاسی تدبر نہیں پایا جاتا۔ ساتھی مہمانوں سے نہایت رعونت بھرے لہجے میں مخاطب ہونے کی کئی مثالیں آن ریکارڈ ہیں جن میں قابل ذکر ان کا موجودہ وزیر داخلہ کے ساتھ ٹی وی سیٹ پر ٹاکرہ ہے کہ اللہ مجھے شیخ رشید جیسا سیاستدان نہ بنائے اور آج وہی شیخ رشید ان کی کابینہ کا وزیر داخلہ ہے جو کہ بلاشبہ وزیراعظم کو کسی خاطر میں نہیں لاتا۔
کہتے ہیں کہ عمران خان کی بائیس سالہ سیاسی جدوجہد ہے مگر اس کے باوجود بھی انہیں اپنی پارٹی کے اراکیں کی کابینہ تک میسر نہیں ہے۔ ایک نشست بھی نہ جیت پانے والا انسان کبھی نواز شریف کے ساتھ تو کبھی پیپلزپارٹی کو نظریاتی پارٹی کہتا دکھائی دیا۔ کبھی جنرل مشرف کا ہمنوا بنا تو کبھی مولانا فصل الرحمان کے ہاتھ پر بیعت کرکے اسے ملک کے صدارتی انتخابات کا ووٹ دیا۔
ایک وقت میں انہوں نے طالبان کی ترجمانی بھی خوب کی اور طالبان خان کے نام سے بھی اچھی خاصی شہرت کمائی۔ شہرت کا یہ بھوکا انسان اس قدر نفس پرست نکلا کہ اس کو اپنی تسکین کی خاطر اگر دوسروں پر ذاتی حملے بھی کرنے پڑے تو بھی ایک لمحے کو نہ کترایا جبکہ اس کا اپنا دامن عشق و الفت کی داستانوں سے پر ہے۔
انہی کے نقش قدم پر جو جو ان کے ساتھ جڑتا گیا اسے بھی سستی جگت بازی میں مہارت حاصل کرنی پڑی کیونکہ راز قربت عمران خان بس یہ ہے کہ جو جتنا بدتمیز ہے انہیں اتنا عزیز ہے۔
ملک کا واحد سیاستدان ہے جو بنانگ دبنگ خود کو ہر معاملے میں ماہر سمجھتا ہے جبکہ علم اسے عالمی سرحدوں کا بھی نہیں ہے اور ملکی معاملات اسے آدھے ٹی وے سے معلوم ہوتے رہے تو آدھے بیوی سے!
الغرض کہ خود میاں فصیحت اور اوروں کو نصیحت والی کہانی ہے۔
دنیا جہاں سے مانگ تانگ کر حکومت کے نمبر پورے کرنے والا آدمی کبھی پنجاب کے ڈاکووں کے پاس دکھائی دے رہا ہے تو کبھی سندھ کے وڈیروں پاس اور تو اور ایم کیو ایم جو کہ نامی گرامی دہشتگرد تنظیم تھی جس پر مقدمہ کرنے صاحب بہادر لندن بھی چلے گئے تھے جبکہ ان دنوں ہم بھی بھائی لوگوں کی زد میں تھے کہ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے حالیہ معاملات پہ ہماری حمایت میں لکھو جس پر ہم نے تو قلم بیچنے سے انکار کر دیا مگر خان صاحب نے کمال بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں نفیس ترین لوگ تسلیم کرلیا اور نظریہ ضرورت کے تحت انہیں بھی اپنی حکومتی کشتی میں سوار کرلیا۔
عمران خان کی زندگی طوفان بدتمیزی سے بھرپور ہے، لیڈر کی دیکھا دیکھی کارکنان جو کہ یوتھیوں کے نام سے جانے جاتے ہیں ان کی ایک ایسی اندھی تقلید کرنے والی نسل کی کھیپ موجود ہے جو کہ خان کی صبح کو کہی بات پہ شام میں خان کے ہی یوٹرن لے لینے کو بھی جسٹیفائی کرنے میں زمین اسمان کے قلابے ملانا شروع کردیتی ہے اور یہ اس معاشرے کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔
چہ جائیکہ اپنے بھرپور وعدوں اور دعووں کے برخلاف عمران خان نے اپنے ہر بیان سے بہت عمدہ یوٹرن لیا اور آج انکی اقتدار کی کشتی ہچکولوں کی زد میں ہے جبکہ موسمی پرندے آہستہ آہستہ اڑان بھرتے نکلتے جا رہے ہیں اس کے باوجود بھی عمران خان کے لب و لہجے میں کوئی تمیز و تدبر ناپید ہے۔ ان کی تقاریر اب ملک کے وزیراعظم کی تقاریر ہوا کرتی ہیں مگر شاید وہ اب تک خود کو اپوزیشن میں ہی تصور کرتے ہیں کیونکہ یہ عہدہ انہیں دلوایا گیا ہے نا کہ عوام نے دیا ہے۔
ان کی حالیہ تقاریر سیدھا گالم گلوچ اور دھمکیوں سے پر ہیں۔ ان کی لڑکھڑاتی آواز اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ انہوں نے جو بویا تھا اب اس کا پھل کاٹنے کے دن آنے والے ہیں۔
سیاست برائے سیاست کی روایت کا پاس رکھ لیتے تو معاملات مختلف ہوتے اور ان سے بھی سیاسی رویے اپنائے جاتے پر شومئی قسمت کہ جو طوفان بدتمیزی اور سیاسی انتقامات کی مثالیں انہوں نے رقم کی ہیں وہ ان کا ویسے ہی پیچھا کرینگی جیسے دور حکومت میں ان کے ماضی کے تمام تر بیانات ان کا پیچھا کرتے رہے جو وہ ہر معاملے پہ دیتے آئے۔
سیاستدان ہونے اور کہلانے میں فرق ہوتا ہے۔ عوامی نمائندوں کے انداز عوامی ہوتے ہیں نہ ان کے لہجوں میں فرعون بولتا ہے۔
وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا اس لیے سامان زیست کا سدباب رہتے وقت کے ساتھ کرلینا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے

About The Author