محمد حنیف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ کچھ سال سے جیسے ہی مارچ کا مہینہ آتا ہے ہمارا مرد، تھکا ہارا مرد، گھبرایا ہوا مرد، جھلایا ہوا مرد، مردوں کا مرد، کمزور مرد، ورغلایا ہوا مرد، تسبیح گھماتا مرد، دارو پی کے غزلیں سننے والا مرد، کزن سے شادی کے خواب دیکھتا مرد، شادی سے تنگ مرد، دوسری شادی کی دھن میں مبتلا مرد، سیٹھ مرد، مزدور مرد، با اختیار مرد، مجبور مرد، سب کے سب اپنی بہنوں، ماوں، بیٹیوں اور ہمارے مثالی خاندانی نظام کو خطرے میں پاتے ہیں۔
عورتیں صرف ایک دن گھر سے نکلتی ہیں، نہ دھرنا ہوتا ہے، نہ گملے ٹوٹتے ہیں، کچھ پرجوش نعرے لگتے ہیں، مردانگی پر کچھ لطیف سے کچھ مزاحیہ سوال اٹھائے جاتے ہیں، آزادی اور برابری کے مطالبے ہوتے ہیں، شام کو عورتیں اپنے گھروں کو واپس چلی جاتی ہیں۔
لیکن مرد پورا سال اس فکر میں مبتلا رہتے ہیں کہ یہ عورتیں سارا کچھ تباہ کر دیں گی۔ عورتیں صرف جلسہ گاہوں میں اور سڑکوں پر نعرے نہیں لگوائیں گی بلکہ ان کے گھروں کے دروازے توڑ کر، ان کی کھڑکیوں کے اندر سے ان کے مقدس گھروں میں گھس آئیں گی، ان کے دوپٹے تار تار کر دیں گی، انھیں سڑکوں پر گھسیٹیں گی اور انھیں میرا جسم میری مرضی کا سبق زبردستی پڑھائیں گی۔
مرد ہوتے ہوئے حیرت نہیں ہونی چاہیے لیکن ہوتی ہے کہ صرف چار سال پہلے شروع ہونے والے ایک مارچ نے ہماری مردانگی کو کیوں خطرے میں ڈال دیا ہے۔
شاید اس کی ایک وجہ واقعی ہمارے مثالی خاندانی نظام میں موجود ہے۔ چک 36 شمالی سرگودھا سے لے کر کراچی کے فیڈرل بی ایریا تک ہر خاندان میں بہن چائے بنائے گی، ماں کھانا پکائے گی، بھابھی فرش پر پڑے کپڑے اٹھائے گی، اگر صاحب استطاعت ہیں تو گھر میں جھاڑو پونچھا کرنے کے لیے کوئی مزدور ہو گی تو وہ بھی عورت ہی ہو گی۔
مرد کو پالنے سے لے کر قبر تک عورت کبھی ماں کی صورت میں کنیز، کبھی خدمت گزار بیوی اور کبھی مردانہ کمزوریوں پر پردہ ڈالنے والی رازدان ہی ملے گی۔ ہمارا مثالی خاندانی نظام صدیوں سے قائم دائم ہے لیکن ہمارے گھر کے باہر بہت کچھ بدل گیا ہے۔
تیس چالیس سال پہلے تک پاکستان کے بڑے شہروں میں کسی دکان کے کاوئنٹر کے پیچھے، کسی بینک میں، کسی پولیس سٹیشن، سرکاری یا نجی دفتر میں شاید ہی کوئی عورت نظر آتی تھی۔
کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ گھر سے بہن کے ہاتھ کی چائے اور ماں کے ہاتھ کے استری کیے ہوئے کپڑے پہن کر جب دفتر جائیں گے تو ایک باس عورت ہو گی۔
اب ہمارے پڑھے لکھے دانشور، رحم دل مرد بھی جن کو اس بات پر فخر ہے کہ انھوں نے ساری زندگی کسی عورت پر ہاتھ نہیں اٹھایا وہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارا سماج ظالم ہے، اس لیے عورت کو اپنے لباس میں، اپنی گفتار میں اور خاص طور پر وہ جو پوسٹر بنا کر نکلتی ہیں ان کے بارے میں احتیاط کریں کیونکہ دیکھیں ہمارا مثالی خاندانی نظام ۔۔۔
لیکن ہمارا خاندانی نظام جتنا ہی مثالی ہو جائے دنیا بدل رہی ہے۔ کوئی نظام بھی ملک کی آدھی آبادی کو گھر کے اندر قید کر کے روٹی پوری نہیں کر سکتا۔
بلکہ اگر ہمارے مثالی معاشرے میں بغیر اجرت کے کام کرنے والی عورتوں کا محنت نہ جوڑا جائے، اور وہ جو کھیتوں میں، بازاروں میں، بینکوں میں کام کر کے کماتی ہیں تو شاید اس نتیجے پر پہنچا جا سکے کہ اصل میں یہ عورت ہی ہے جو مرد کو کھلا رہی ہے۔
تو چونکہ ہمارا مرد پیدائشی غیرت مند ہے لیکن ساتھ پیٹ بھی لگا ہوا ہے تو عورت کا دیا کھاتا ہے اور جتنا زیادہ کھاتا ہے اتنا زیادہ پریشان بھی ہوتا ہے اور اسے لگتا ہے کہ عورت ہاتھ سے نکلتی جا رہی ہے اور یہ عورت مارچ والیاں تو میرے مثالی گھر کے دروازے کھڑکیاں توڑ کر گھس آئیں گی اور میری ماوں بہنوں کو زبردستی نعرے لگانے پرمجبور کر دیں گی۔
باہر سی کسی کو آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ گھر کی آوازیں سن لیں تو نعرے آپ کو ہر روز وہیں پر سننے کو مل جائیں گے۔
ایک ہفتے کی بچی کو گولیاں مارنے والے باپ کو بھی کچھ ایسے ہی خدشات ہوں گے کہ جب لڑکی بڑی ہو گی تو پتہ نہیں اس وقت عورت مارچ پر جانے سے رکے گی یا نہیں۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر