ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر سچ بولا جائے تو جنگیں نہیں لڑی جا سکتیں۔ یہی وجہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ جنگ میں پہلا وار سچ پر ہوتا ہے یعنی ruth is the first causality of war تو causality کا ترجمہ مقتول ہو سکتا ہے۔ جنگ چونکہ دو یا دو سے زیادہ ملکوں کے درمیان لڑی جاتی ہیں اور جنگیں ہارنے کے لیے تو لڑی ہی نہیں جاتیں۔ پھر جنگ کرنے والے ملکوں میں لوگ رہتے ہیں، جنگ کرنے والے ملکوں کی فوج ہوتی ہے کچھ سرحد پر حالت جنگ میں کچھ ملک کے اندر جنگ کی تیاری کرتی ہوئی، کچھ فضاؤں اور سمندروں کا تحفظ کرتی ہوئی یا فضا اور سمندر میں لڑتی ہوئی۔ ان سب کے حوصلے بلند رکھنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ جنگ کے لیے حوصلہ بلند ہونا ضروری ہوتا ہے۔ حوصلہ پست ہو جائے تو جنگ لڑی تو جاتی ہے مگر بے دلی بلکہ بددلی کے ساتھ اور ہارنے کے ڈر میں، مطلب یہ کہ وہ جنگ نہیں رہتی بس خواستن نہ خواستن دفاع کی کوشش بن کے رہ جاتی ہے۔
حوصلہ بڑھانے کی غرض سے کچھ سچ بتایا جاتا ہے، کچھ چھپایا جاتا ہے، کچھ مبالغہ آرائی کی جاتی ہے اور ایک حد تک دروغ گوئی کرنا بھی جنگ میں حوصلے بلند رکھنے کا طریقہ ہے۔ ہر لڑنے والا ملک اپنا سچ اپنے مخالف ملک کی فوج اور عوام تک پہنچانے بلکہ ان کے دماغ میں ٹھونسنے کی انتہائی کوشش بھی کرتا ہے۔ سچ اس لیے بولا جاتا ہے تاکہ جوش و جذبہ برقرار رہے۔ چھپایا اس لیے جاتا ہے تاکہ حوصلہ دم نہ توڑے، مبالغہ آرائی اس لیے کی جاتی ہے تاکہ حوصلے کو مہیج مہیا ہو اور دروغ گوئی کی ضرورت اپنوں کے حوصلے کو تازہ دم کرنے اور دشمن کے حوصلہ کو پست کیے جانے کی غرض سے ہوتی ہے۔
نفسیاتی جنگ جہاں ایک طرف دشمن کے خلاف لڑی جاتی ہے وہاں اپنے ملک کے عوام اور اپنی فوجوں کے حق میں بھی لڑی جاتی ہے۔ نفسیاتی جنگ، باقاعدہ جنگ کا اہم ترین حصہ ہے جس کے لیے ادارے بنائے جاتے ہیں۔ تربیت دی جاتی ہے۔ لکھاری متعین کیے جاتے ہیں۔ پروپیگنڈہ اس جنگ کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے۔ شاید بہت سے لوگوں کو معلوم ہو کہ فیض احمد فیض جیسے انقلابی شاعر بھی جنگ عظیم دوم میں غالبا” میجر کی وردی پہن کر انگریز کی فوج کے حق میں پروپیگنڈہ کرنے پر مامور تھے۔
جنگ لڑنے اور جنگ جیتنے کی خاطر اپنی جانب کے پروپیگنڈہ کو تسلیم کیا جانا جہاں ایک طرف ضرورت ہوتا ہے وہاں مجبوری بھی۔ ضرورت اس لیے کہ آپ اسی ملک میں ہوتے ہیں جو آپ کے اور اپنے حق میں پروپیگنڈہ کر رہا ہوتا ہے اور مجبوری اس لیے ہوتی ہے کہ آپ دشمن کے پروپیگنڈہ کو سن کے تذبذب، حوصلے کی کمی اور بدگمانی کا شکار ہو کر دشمن کی مدد نہیں کرنا چاہتے اور یہ تو ہرگز نہیں چاہتے کہ دشمن آپ کو شکست دے۔
مگر افسوس یہ ہے کہ ہر طرح کے پروپیگنڈے اور نفسیاتی جنگ کے باوجود ایک فریق کو ہارنا ہوتا ہے، بالآخر یا ہتھیار ڈالنے ہوتے ہیں یا صلح کرنی پڑتی ہے۔ پھر یہ بھی کہ اگر کسی فریق کی مبالغہ آرائی اور دروغ گوئی بہت بڑھ جائے تا آنکہ شکست ہو جائے تو لوگوں کو شکست کے صدمے کے ساتھ ساتھی اپنوں یعنی اپنی حکومت اور فوج کی جانب سے دھوکہ دیے جانے کا بھی قلق ہوتا ہے مگر کیا کیا جائے جنگ تو آخری مرحلے تک لڑنے کی کوشش کرنی ہوتی ہے۔
آئیے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تازہ مخاصمت اور محاذ آرائی کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں البتہ جو سمجھنے سے انکاری ہو وہ اس کا حق ہے۔ ہندوستان کے جنگی طیاروں نے کشمیر میں لائن آف کنٹرول عبور کی اور آئی ایس پی آر کے مطابق Payload کو Jettison کرکے چلے گئے۔ تیل گرانے سے گڑھے پڑ سکتے ہیں کیا؟ درخت ٹوٹ سکتے ہیں کیا؟ کیا زمین پر تیل کے نشان نہیں ہوتے؟ اس بارے میں تو آپ اور میں نہیں جانتے طیاروں کے ماہر ہی بتا سکتے ہوں گے لیکن اگر ٹینکی کی ٹینکی کو نکال دیا جائے تو یہ سب ممکن ہے مگر ٹینکی جو Jettison کی گئی وہ تو ہم نے نہیں دیکھی۔ ہمیں دکھانے کی ضرورت بھی نہیں۔ طیارے آئے تھے اور Payload کو اچھال کر چلے گئے۔ ایک بار پھر آئے تو ہم نے ان کے دو طیارے گرا دیے ایک ادھر گرا، ایک ادھر گرا۔ ونگ کمانڈر ابھی نندن ہمارے ہاتھ لگ گیا۔
ہم نے کہا کہ ہندوستان کے مگ 21 ہمارے اور چین کے اشتراک سے بنے جے ایف تھنڈر نے گرائے۔ سوشل میڈیا پر اس کارروائی کے ہیرو جنگی پائلٹ حسن صدیقی کی اپنے ریٹائرڈ سینیر حافظ فاروق کے ساتھ گفتگو کا آڈیو گردش میں تھا جس میں وہ جے ایف تھنڈر کے ساتھ ایف 16 اور ایک اور قسم کے جنگی طیارے کا اس کارروائی میں شریک ہونے کا ذکر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ میڈیا پر تو کارروائی کا 30 فیصد دکھایا بتایا جا رہا ہے۔
دوسری طرف آ جاتے ہیں ہندوستان کا دعوی ہے کہ اس نے پاکستان کا ایک ایف 16 مار گرایا، جو ابھی نندن کے طیارے مگ21 نے ہی گرایا تھا۔ پھر اس کے طیارے کو ایک اور پاکستانی طیارے نے نشانہ بنایا اور اسے چھاتے کے ذریعے اترنا پڑا اور یہ پاکستان کے علاقے میں اتر کر گرفتار ہو گیا۔
پاکستان نے مگ 21 کا ملبہ دکھایا جبکہ ہندوستان نے ایم ریم نام کے ایک میزائل کا ٹکڑا دکھایا جو ان کے دعوے کے مطابق صرف ایف 16 سے ہی داغا جا سکتا ہے۔ ایف سولہ اگر گر کے یکسر بھسم بھی ہو گیا تو اس کی راکھ تو دکھا دیتے۔
مغربی میڈیا اور روس کا میڈیا ہندوستان کا موقف بھی بتاتا ہے، اس طرف کے ماہرین کی آراء بھی لکھتا ہے جن میں سے ایک دو ہندوستانی مسلمان ماہرین بھی ہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی لکھ دیتا ہے کہ ادارے کا ان آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ ابھی نندن کو کچھ دوست عرب ملکوں کے دباؤ پر فوری رہا کیا گیا۔ دوسری جانب یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جینیوا کنونشن کی شق تیرہ کے مطابق کسی جنگی قیدی کی تصویر لینا، میڈیا پر دکھانا، اس کی توہین کرنا ( اس کے ملک کے خلاف اس کا بیان لے کے دکھاتے ہوئے ) کی وجہ سے پاکستان ایک بین الاقوامی کنونشن کا جنگی اصول توڑ کر جرم کا مرتکب ہوا ہے اور پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے پائلٹ کو جلد چھوڑے جانے کو امن کی خواہش قرار دے کر اس معاملے سے جان چھڑائی ہے۔
دوسری طرف روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروو اپنے ملک کے ٹی وی پر بتاتے ہیں کہ ان کے ہندوستانی ہم منصب رفیق کار نے انہیں بتایا ہے کہ معاملات بہت گمبھیر اور نازک ہیں۔ اس پر روس کی حکومت مکالمے کے لیے چوپال فراہم کرنے کا عندیہ بھی دیتی ہے جسے تاحال پاکستان کے وزیر خارجہ نے قبول کرنے کی بات کی ہے۔
باتیں الجھی ہوئی ہیں ہم خوش ہیں کہ ہم نے ہندوستان کو مناسب اور تناسب سے بڑھ کر جواب دے دیا۔ ہندوستان کے لوگ اپنے پائلٹ کے واپس دیے جانے پر مشکور ہونے کی بجائے خوش زیادہ ہیں۔ ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی نے انتخابات سے پہلے جارحیت کرکے اپنی ریٹنگ بڑھانے کی بھونڈی سعی کی جس سے دونوں جانب کے لوگ جنگی بخار کا شکار ہوئے۔ شکر ہے بخار اترا ہوا لگتا ہے، اللہ نہ کرے کہ بخار کے لیے صبر اور مذاکرے کی دوا لینے سے دوسرا فریق
منکر ہو جائے، مگر ایسا لگتا نہیں۔ مکر بھی جائے تو نفسیاتی جنگ کا ہتھیار بہرطور موجود ہے۔ فعال اور موثر۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر