نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‎ڈاؤن سنڈروم؛ محض عورت کی عمر کیوں؟||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

ہمارا پدرسری معاشرہ جو لاعلمی اور جہالت کے ہاتھوں ویسے ہی عورت کی زندگی کو ایک جہنم میں بدل دیتا ہے، وہاں ایسے حساس موضوعات پر لکھنے کے لئے لکھاری کو اس موضوع پر دسترس ہونا لازمی ہے۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جھوم۔ جھوم۔ جی چاہ رہا ہے اسی طرح جھومتے جھامتے کوک سٹوڈیو میں جا گھسیں اور عزیزی زلفی سے کہیں کہ اب کے عابدہ پروین کے ساتھ جھومنے کی باری ہماری ہے۔ دوست و احباب ہماری بلند آواز کے تو گواہ ہیں ہی، کسی بھی محفل میں ہوں دور سے پتہ چل جاتا ہے کہ قصے کہانیوں کا دور چل رہا ہے۔ باقی رہا سر کے ساتھ تان اڑانے کا معاملہ تو کچھ نہ کچھ کر ہی لیں گے۔

امید ہے کہ زلفی میاں بال نوچتے ہوئے ہمیں باہر کا رستہ دکھانے میں دیر نہیں کریں گے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک لیکچر بھی جھاڑ دیں کہ پہلے دس بیس برس گھر کے غسل خانے میں گا لو پھر ادھر کا رخ کرنا۔

آج ہمارا بھی کچھ زلفی میاں کا سا حال ہوا جب ہم نے ایک صاحب کو پڑھا جو قوم کی ساری لڑکیوں کو ڈاؤن سنڈروم بچے کے رسک کو ان کی عمر سے جوڑ کر ڈرانے میں مصروف تھے۔ ساتھ میں یہ بھی سمجھایا جا رہا تھا کہ لڑکی کے لئے بچہ پیدا کرنے کی بہترین عمر بیس سے پچیس برس کے درمیان ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کہ ہائی پروفائل عورتیں تو بہت کچھ کروا کر ڈاؤن سنڈروم بچوں سے بچ جاتی ہیں، ہماری قوم کی نادان بچیوں کا کیا بنے گا؟

ہم بال نوچنا چاہتے تھے، ان کے نہیں اپنے، پھر سوچا رہنے دیا جائے کہ ویسے ہی چندیا پہ گنج پن نمودار ہو رہا ہے، سو دانت پیسنے پہ اکتفا کیا جائے۔ بات یہ تھی کہ گوگل سے حاصل کی ہوئی معلومات کی مدد سے ایک ایسے مسئلہ نہیں چھیڑا جا سکتا جس میں حمل کی جنیاتی سائنس کا عمل دخل ہے۔ ان معاملات پہ کوئی کیسے لکھ سکتا ہے اگر ان کا طب اور جینیاتی سائنس کے شعبوں سے تعلق نہیں؟

یہ وبا ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ پیشہ پنواڑی ہو گا اور نسخہ بانجھ پن کا بتا رہے ہوں گے۔ اسی طرح کسی بڑی بوڑھی نے سکول کی شکل نہیں دیکھی ہو گی لیکن ماہواری کے متعلق سب مسائل پہ اتھارٹی بنی بیٹھی ہوں گی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی خبر پھیلانے سے پہلے اس شعبے کے ماہر سے کیوں نہیں پوچھ لیتے جو زندگی کے بہت سے برس اس علم کو حاصل کرنے میں صرف کر دیتا ہے۔

ڈاؤن سنڈروم ایک جینیاتی مسئلہ ہے جس میں دنیا میں آنے والا بچہ کروموسوم 21 کی دو کاپیوں کی بجائے تین کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ ڈاؤن سنڈروم انیسویں صدی میں ڈاکٹر ڈاؤن نے دریافت کیا۔ بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں محققین نے اس کے اسباب میں ماں کی طرف سے آنے والے انڈے کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ ان کے مطابق فالتو جنیاتی مادہ انڈے میں غلط تقسیم کی وجہ سے نارمل سے زیادہ ہو جاتا ہے۔ اس غلط تقسیم کے اسباب ڈھونڈتے ہوئے اس کا سرا ماں کی عمر کے ساتھ یوں جوڑا گیا کہ عمر بڑھنے کے ساتھ بیضہ دانی میں انڈے پرانے ہو جاتے ہیں۔

یہ سن کر ایسا نہیں لگتا کیا کہ ماں کے انڈے سپر مارکیٹ میں پڑے ہوئے پرانے انڈے ہیں جو وقت کے ساتھ گندے ہو چکے ہیں۔ اس کے مقابلے میں باپ کے سپرمز کی سپلائی تازہ بہ تازہ ہے اور عمر بڑھنے کے ساتھ سپرم بنانے کی مشین کو کوئی زنگ نہیں لگتا؟

دو ہزار تین میں نیویارک کولمبیا یونیورسٹی کے مردانہ تولیدی شعبے کے سربراہ ڈاکٹر ہیری فش نے ایک ریسرچ میں یہ دیکھنے کی کوشش کہ مرد کی عمر سپرم کوالٹی کو کس حد تک متاثر کرتی ہے اور جنیاتی مسائل میں باپ کا کتنا حصہ ہوتا ہے؟

ڈاکٹر فش کی ریسرچ کے مطابق ڈاؤن سنڈروم رسک میں میں ماں کے ساتھ ساتھ باپ کی عمر بھی شامل ہے۔ ماں اور باپ اگر دونوں کی عمر چالیس برس سے زیادہ ہو تو دس ہزار میں سے ساٹھ بچے ڈاؤن سنڈروم کے ساتھ پیدا ہوں گے اور پچاس فیصد حصہ مرد کی طرف سے آئے گا۔

عام طور پہ شادی شدہ جوڑے میں مرد کی عمر عورت سے زیادہ ہوتی ہے سو پینتیس یا چالیس برس کی حاملہ عورت کے شوہر کی عمر اس سے زیادہ ہی ہو گی، ممکن ہے پینتالیس یا پچاس برس۔ ڈاکٹر فش کے مطابق ڈاؤن سنڈروم کی عمر کے ساتھ بچوں میں ڈاؤن سنڈروم کی شرح بڑھنے میں میں ماں اور باپ، دونوں کی عمر شامل ہے۔

ڈاکٹر فش کے مطابق عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ مرد کے تولیدی مادے کی کوالٹی متاثر ہوتی ہے اور ٹوٹے پھوٹے سپرم ابنارمل بچوں کی پیدائش کا سبب بنتے ہیں۔

لیکن میڈیکل سائنس میں ابھی بھی ڈاؤن سنڈروم کے رسک کا حساب لگانے کے لئے جتنے بھی ٹیسٹ کیے جاتے ہیں ان کا مرکز عورت کی عمر ہی ہوتی ہے اور مرد کی عمر کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر فش کے مطابق سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پدری عنصر کو جنیاتی رسک کا حساب کتاب کرنے میں شامل کیوں نہیں کیا جاتا؟ کیوں طبی سائنس بھی سپرم کو نظر انداز کرتی ہے؟

عورت اگر پینتیس برس سے زیادہ کی ہو جائے تو اس کی عمر حمل کے لئے زیادہ سمجھی جاتی ہے۔ اس تناظر میں مرد کی عمر زیادہ سمجھنی جانے کی ٹارگٹ لائن کون سی ہے؟ میڈیکل سائنس میں ابھی تک اس رخ سے خاطر خواہ تحقیق نہیں ہو سکی۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تو طبی ماہرین اور محققین مرد ہوتے ہیں؟

فرض کیجئے کہ میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ انچاس برس کی عورت اگر بچہ پیدا کرے تو ڈاؤن سنڈروم کا رسک نو بچوں میں سے ایک کا ہے۔ لیکن میڈیکل سائنس یہ نہیں بتاتی کہ اس حساب کتاب میں شوہر کی عمر اگر چونسٹھ برس ہو یا چوبیس، تب رسک میں کتنا اضافہ یا کمی ہو گی؟

مرد کی عمر کے متعلق سوال اٹھانے والی جنیاتی سائنس کی ماہرین ہیلگا ٹوریلو اور جینی میک نے بچوں کی جنیاتی بیماریوں میں باپ کے کردار پہ تحقیق کرتے ہوئے ایک گائیڈ لائن ترتیب دی ہے۔ ان ماہرین کے مطابق مرد کی چالیس برس کی عمر بچے میں شیزو فرینیا، ADHD اور آٹزم کا رسک بڑھا سکتی ہے۔ اسی طرح بیس بائیس سالہ مرد کے ہونے والے بچے میں بھی کروموسومز میوٹیشنز سے بہت سے مسائل دیکھنے کو ملتے ہیں۔

واشنگٹن سٹیٹ یونیورسٹی کی تولیدی بائیولوجسٹ پیٹریشا ہنٹ کہتی ہیں، خصیوں میں سپرم بنانے کے عمل پہ بہت سے عناصر عمر کے ساتھ اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان میں الٹرا وائلٹ ریز اور ماحول و خوراک میں پائے جانے والے کیمیائی مادے شامل ہیں۔ سمجھئیے کہ سپرم بنانے کی مشین ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہوتی ہے اور زنگ بھی لگتا ہے۔

ڈاکٹر فش کے مطابق ڈاؤن سنڈروم کے خطرے کا حساب لگانے میں ماں اور باپ دونوں کی عمر شامل کرنا ضروری ہے۔ ان کے مطابق جتنی بھی تحقیق اس مسلے پر ہوئی ہے وہ محض آئس برگ کا ایک کونا ہے۔ ہمیں نہیں علم کہ افزائش نسل کی پیچیدگیوں میں نطفے کو کہاں، کب اور کیسے پھپھوندی لگتی ہے؟

لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ

”بچے میں جنیاتی بیماریاں محض ماں کا معاملہ نہیں، یہ صرف باپ کا بھی مسئلہ نہیں، یہ والدین کا مسئلہ ہے“

ہمارا پدرسری معاشرہ جو لاعلمی اور جہالت کے ہاتھوں ویسے ہی عورت کی زندگی کو ایک جہنم میں بدل دیتا ہے، وہاں ایسے حساس موضوعات پر لکھنے کے لئے لکھاری کو اس موضوع پر دسترس ہونا لازمی ہے۔

چلئے یہ بھی بتا دیں کہ اس خطرے کا حساب لگانے والے بہت سے ٹیسٹ ہیں لیکن وہ حتمی نہیں ہوتے۔ اگر آپ کو ہر صورت میں جاننا ہو کہ پیٹ میں بچہ ڈاؤن سنڈروم کا شکار ہے کہ نہیں؟ تو دس سے بارہ ہفتے کے حمل کے کروموسومز کی جانچ پڑتال ہو سکتی ہے۔ ان طریقوں میں الٹراساؤنڈ کی مدد سے آنول سے بائیوپسی لے کر کروموسومز چیک کروائے جاتے ہیں۔ یہ ٹیسٹ تھیلیسیمیا کی تشخیص کے لئے پاکستان میں عام ہے لیکن ڈاؤن سنڈروم کے لئے بھی کیا جا سکتا ہے۔

چلتے چلتے یہ بھی جان لیں کہ اس ٹیسٹ ( Chorionic villus sampling۔ CVS) کے لئے ہماری استاد پروفیسر ڈاکٹر یاسمین راشد ہیلتھ منسٹر کی مہارت کا کوئی ثانی نہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author