گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہم سکول پڑھتے تھے سبق یاد نہ کرنے پر ہمارے استاد ہمارے کان کھینچتے یا کنوڑے پکڑنے کو کہتے تھے مگر خدا کا شکر ہے کان کاٹنے کی سزا نہیں دی۔
ایک انگریز جب ڈیڑھ سو سال پہلے کرک کے علاقے کمر سے گزر رہا تھا اس نے دیکھا کہ بہت سی دیہی خواتین پانی کی مشکیں گدھوں پر لاد کر کنٶں سے بھر کے اپنے گاٶں آ جا رہی تھیں۔ ان میں بعض گدھوں کے کان کٹے ہوۓ تھے۔ انگریز لوگوں سے اس کے متعلق پوچھا تو انہیں بتایا گیا یہ گدھے پڑوس فصلوں میں چرنے چلے جاتے ہیں چنانچہ جرمانے اور سزا کے طور پر ان کے کان کاٹ دیے جاتے ہیں۔
ہمارے شھر کا ٹی ۔ ہاٶس ۔۔
کرونا کی وبا نے دنیا سے بہت کچھ چھین لیا اور ڈیرہ سے کچھ پیارے لوگ اور بیٹھک لے گئ ۔ ڈیرہ کی ایک پیاری شخصیت ڈاکٹر سعد عبداللہ نے ڈیرہ کے ادیبوں شاعروں اور صحافیوں کے لیے۔۔ بیٹھک ۔۔۔کے نام سے ٹی ہاٶس قائم کیا۔اس کو پینٹنگ اور کتابوں سے سجایا اور چائے اور سروس کا معیار بھی بہت عمدہ رکھا ۔ یہ کمرشل کی بجائے ایک ثقافتی venture تھا۔
کرونا نے جہاں اور نقصان کیا وہاں ہمارا یہ ورثہ بھی چھین لیا۔ اب شام گزارنے کے لیے کوئ ڈھنگ کی جگہ بھی نہیں۔ یونائٹڈ بک سنٹر کے لطیف صاحب کا بھلا ہو کہ ادیبوں شاعروں صحافیوں کو سنبھال رکھا ہے ۔ سردار علی امین خان گنڈہ پور نے حق نواز پارک میں کیمونٹی سنٹر تو اعلی بنایا ہے مگر مکمل ہونے کو نہیں آ رہا ۔پھر یہ بھی پتہ نہیں یہاں کون قبضہ کرتا ہے ادیبوں کو جگہ ملتی بھی ہے یا یونہی ہی فٹ پاتھ پر جوتیاں چٹخاتے پھریں گے۔
بیٹھک کے متعلق تو بس یہ شعر عرض ہے ۔۔؎
آتی رہیں گی یاد ہمیشہ وہ صحبتیں ۔۔۔
ڈھونڈا کریں گے ہم تجھے فصلِ بہار میں..
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر