نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سیاسی ملاقاتوں کا موسم||ملک سراج احمد

اپوزیشن کے مطابق پرفارمنس تو خیر پہلے دن سے ہی بری تھی اب ایسا وقت آ گیا ہے کہ اسی پرفارمنس کی بنیاد پر اتحادی بھی مزید ساتھ دینے کو تیار نظر نہیں آرہے ۔سادہ سی بات ہے کہ اگر اتحادی مطمن ہوتے تو اپوزیشن کے ساتھ رابطہ کیوں کرتے خفیہ ملاقاتیں اور سرعام عشائیے اس بات کی غمازی کررہے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔

ملک سراج احمد

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مفاہمت کا بادشاہ داتا کی نگری میں پہنچ کر ملاقاتیں کررہا ہے ۔ن لیگ کی قیادت سے ملاقات کے دو روز بعد حکومتی اتحادی ق لیگ کی قیادت چوہدریوں سے ملاقات کی تفصیلات بھی سامنے آرہی ہیں ۔ ملکی سیاست میں بڑی ملاقاتوں کا موسم شروع ہوچکا ہے ۔ن لیگ کی سی ای سی کی میٹنگ ہوئی جس میں فیصلہ کیا گیا کہ کپتان کو گھر بھیجا جائے اور اس کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جائے اس کی زمہ داری شہباز شریف کو سونپی گئی ہے ۔جبکہ قائد ن لیگ نے لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت ظلم کی حکومت ہے اور ن لیگ عوام کو اس ظلم سے نجات دلائے گی ۔ گجرات کے چوہدریوں کا دستر خوان کافی مشہور ہے تاہم اس بار سابق صدر زرداری کے اعزاز میں عشائیے کا اہتمام کافی محبت سے کیا گیا۔ن لیگی زرائع کے مطابق ایم کیو ایم کا وفد بھی بڑے میاں صاحب کے ساتھ رابطے میں ہے۔
ایک اور حکومتی اتحادی جماعت باپ کے گلے شکوئے بھی میڈیا پر نظر آنا شروع ہوگئے ہیں ۔پیپلزپارٹی 27 فروری کو لانگ مارچ کی کال دے چکی ہے جبکہ پی ڈی ایم مارچ میں لانگ مارچ کا اعلان کرچکی ہے ۔اپوزیشن کے بڑھتے ہوئے سیاسی دباو اور حلیفوں کی طرف سے مخالفین کے لیے عشائیے اور گرمجوش استقبال کو دیکھتے ہوئے کپتان نے بھی عوام میں جانے کا فیصلہ کرتے ہوئے عوامی جلسے منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔یہ ہے ملکی سیاست کا موجودہ منظر نامہ جس میں ایک لمبے سکوت کے بعد ہلچل پیدا ہونا شروع ہوگئی ہے۔
اپوزیشن کی محفلوں میں اسپیکر قومی اسمبلی اور وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی بات ہورہی ہے ۔تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اپوزیشن کے پاس تحریک عدم اعتماد کے لیے نمبرز پورے ہیں تو اس پر کوئی رائے دینا قبل از وقت ہے تاہم اگر حکومتی اتحادی جماعتوں میں سے کسی نے حکومت کا ساتھ چھوڑنے کا اعلان کردیا تو حکومت کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوجائے گا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حکومت ہی گر جائے ۔اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو آئینی راستہ یہ ہے کہ صدر مملکت ایوان میں موجود اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کو حکومت بنانے کی دعوت دیں ۔اگر اپوزیشن حکومت نا بنا سکی تو اس صورت میں ایک آئینی بحران پیدا ہوجائے گا اور وزیراعظم صدر کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کا بھی کہہ سکتے ہیں ۔
اس ساری صورتحال کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات طے ہے کہ اپوزیشن کے پاس تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کرانے کے نمبرز پورے نہیں ہیں ۔اس ضمن میں اپوزیشن کی کامیابی صرف اسی صورت میں ممکن ہوگی جب کوئی حکومتی حلیف جماعت حکومت سے تعاون ختم کردے ۔اب یہ باپ پارٹی ہو ایم کیو ایم ہو یا ق لیگ اگر ان میں سے کوئی حکومت کا ساتھ چھوڑتا ہے تو حکومت کے لیے اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوجائے گا۔تو یہ طے ہوا کہ حکومت کو نا صرف اتحادیوں کو قابو کرنا ہے بلکہ اپنی پرفارمنس کو بھی بہتر کرنا ہے ۔بظاہر بیک وقت دونوں کام مشکل نظر آرہے ہیں ۔
اپوزیشن کے مطابق پرفارمنس تو خیر پہلے دن سے ہی بری تھی اب ایسا وقت آ گیا ہے کہ اسی پرفارمنس کی بنیاد پر اتحادی بھی مزید ساتھ دینے کو تیار نظر نہیں آرہے ۔سادہ سی بات ہے کہ اگر اتحادی مطمن ہوتے تو اپوزیشن کے ساتھ رابطہ کیوں کرتے خفیہ ملاقاتیں اور سرعام عشائیے اس بات کی غمازی کررہے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔اس پر سونے پہ سہاگہ یہ کہ حکومت نے بھی جلسے جلوسوں کا اعلان کرکے بتا دیا ہے کہ نا کھیڈاں گے نا کھیڈن دیاں گے ۔اگر اپوزیشن آخری ایک ڈیڑھ سال میں حکومت کو بھی سڑکوں پر لے آئی تو یہ سیاسی طورپر اپوزیشن کی کامیابی ہوگی۔کیونکہ آخری سال میں حکومت اپنی کارکردگی پر توجہ دیتی ہے اور جلسے جلوسوں سے حکومت کی توجہ بہرحال کارکردگی بہتر بنانے سے ہٹ جائے گی۔
تو یہ طے ہوگیا کہ رواں سال سیاسی طورپر ہنگامہ خیز بننے جارہا ہے ۔اپوزیشن اور حکومت دونوں سڑکوں پر ہوں گی ۔اپوزیشن مہنگائی، بے روزگاری ، غربت اور بڑھتے ہوئے قرضوں کے خلاف احتجاج کرئے گی اور حکومت خدا جانے کس بات پر جلسے کرئے گی اور عوام کو مزید کب تک تلقین کرئے گی کہ اس نے گھبرانا نہیں ہے ۔مگر یہ ناشکری عوام ہے کہ حکومتی ہدایات اور تلقین کے باوجود گھبرا رہی ہے بلکہ اب تو اس کی گھبراہٹ میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا ہے حالانکہ انہوں نے یہ بھی سن رکھا ہے کہ سکون صرف قبر میں ہے مگر پھر بھی بزدلوں کی طرح گھبرائے جارہے ہیں
قصہ کوتاہ یہ کہ اس سیاسی دھینگا مشتی میں عوام کا رگڑا مزید نکلے جارہا ہے ۔ مہنگائی کی چکی میں پستے عوام کا یہ سال بھی گزشتہ سال کی طرح مشکلات میں بسر ہوگا۔بجلی کے فی یونٹ نرخوں میں اضافہ کے اثرات آنے والی گرمیوں میں ظاہر ہونا شروع ہوں گے مطلب جیسے جیسے موسمی درجہ حرارت بڑھتا جائے گا عام آدمی کا بھی غصہ بڑھتا جائے گا۔آٹا ، دال ، چینی ، گھی ، پٹرول کے نرخوں میں کمی کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔تو ان حالات میں کیا وزیراعظم عوامی جلسے کرکے عوام کو مطمئن کر سکیں گے ۔کیا عوام مہنگائی کے بدترین طوفان سے متعلق حکومتی بیانیہ تسلیم کرلے گی ۔ بالفرض اگر حکومت کو سکون سے کام کرنے دیا جائے تو کیا مہنگائی کنٹرول ہوجائے گی کیا بیرونی قرضوں میں کمی ہوجائے گی۔کیا کرپشن میں ہونے والا اضافہ کم ہوجائے گا۔اگر خراب کارکردگی کو عوامی جلسوں سے چھپایا جاسکتا ہے تو حکومت ضرور جلسے کرئے اگر نہیں چھپایا جاسکتا تو پھر حکومت کوچاہیے کہ اپنی کارکردگی کو بہتر کرئے ۔آج بجلی ، پٹرول اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں نمائیاں کمی کردے کل اپوزیشن کی بات سننے کے لیے کوئی تیار نہیں ہوگا۔کیا حکومت نے ضمنی انتخابات کے نتائج سے بھی سبق نہیں سیکھا کہ عوام کیا سوچ رہی ہے اور کس طرح کا ردعمل دے رہی ہے۔

————————————————————-
مصنف سے رابطے کیلئے
رابطہ نمبر 03334429707
وٹس ایپ 03352644777

یہ بھی پڑھیے:

ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد

وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد

بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد

عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد

حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد

ملک سراج احمد کے مزید کالم پڑھیے

About The Author