گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاٶں کی زندگی کا اپنا رومانس ہے۔ گاٶں کے کھلے میدانوں اور کھیتوں میں جب پورن ماسی چاند کی روشنی پڑتی ہے تو دودھیا چاندنی سے مٹی کے گھر جگمگ جگمگ کرنے لگتے ہیں۔
گاٶں کے کچے رستے تو قدرت کی شاعری ہے ۔ کسی جگہ سرینھ کے پھولوں کی خوشبو لپٹ جاتی ہے کسی رستے پر رات کی رانی جوبن دکھا رہی ہوتی ہے ۔نیم اور دریگ کے کھلتے پھول عجیب بھینی بھینی خوشبو سے پزیرائ کرتے ہیں۔ یوں سمجھیں حُسن اپنے مکمل جوبن کے ساتھ داد پانے کو حاضر ہوتا ہے۔ دور کہیں سے کوئل کی آواز دل لبھاتی ہے تو کوئ بانکا بانسری کی دھن پر ۔۔پھر کب آٶ گے ۔۔فضا میں بکھیر رہا ہوتا ہے کسی چوک پر لڑکے بالے ۔۔اے موسم رنگیلے سہانے جیا نہیں مانے کا ساز سن رہے ہوتے ہیں کسی موڑ پر۔۔ پیلو پکیاں وے آ چُڑوں رل یار آ۔۔ پر جھمر ڈانس شروع ہوتا ہے۔
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہان میں ۔۔
غریبوں اور عام لوگوں کو کھانا کھلانا ایک بہت ہی نیک عمل ہے جس کی قران پاک میں ترغیب دی گئی ہے ۔ یہ تازہ تصویر پشاور صدر کے ایک ہوٹل کے سامنے بازار کی ہے جہاں دوپہر آس پاس کے دکانوں پر کام کرنے والے غریب مزدوروں ۔رہڑی ۔ تھڑے اور خوانچے والے دکانداروں کو مفت کھانا فراہم کیا جا رہا ہے ۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں سرکاری لنگر تو دیکھنے میں آتے ہیں ایک نجی پناہ گاہ میں بھی کھانا کھلایا جاتا تھا مگر بازار میں کھانا اس طرح تقسیم ہوتے میری نظر سے نہیں گزرا۔ یہ اچھی روایت ہے اور اس کو عام کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
بیلوں کی جوڑی اور داب ۔۔
جب جدید ٹریکٹر ٹکنالوجی متعارف نہیں ہوئ تھی تو ہمارے ہاں بیلوں کی جوڑی اور ہل کے ذریعے زمین کھودی جاتی پھر اس کے اوپر داب پھیرتے تاکہ وٹے ٹوٹ کر بھربھری مٹی میں تبدیل ہو جائیں۔داب ایک لکڑی کا پھٹہ تھا جس کے دونوں سروں پر لوہے کے رِنگ ہوتے اور رسیاں بیل کی پنجالی میں باندھ دی جاتیں۔اس داب پر کسان کھڑا ہوتا اور مٹی کو برابر کرتا۔ دلچسپ بات یہ ہے داب پر کھڑا ہو کے بیلوں کے پیچھے جانا ایک فن تھا کیونکہ توازن قایم رکھنا پڑتا۔ جب زمین بھری بھری ہو جاتی تو بیج ڈال کے فصلیں اور پھول اگائے جاتے۔ پھولوں کا نام آپ کمنٹس میں بتائیں۔
دریا وے دریا ۔۔۔
اشولال کا گیت ہے ۔۔۔دریا وے دریا ۔۔۔پانڑیں تیڈے ڈونگے ۔۔۔توں ساڈا پیو ما اساں تیڈے پونگے۔۔۔
یہ دریا سندھ کی محبت تھی کہ ہمارے آباٶ اجداد نے اس کے کنارے ڈیرہ اسماعیل خان کا شھر آباد کیا۔ سندھو دریا کے کنارے یہاں کے باسی روزانہ حاضری دیتے اور تفریح کا سامان ہو جاتا۔۔ تھکیڑا لاہے ویندا ہائ ۔ دریاۓ سندھ پر بند بناۓ گیے ۔۔ اس سے آبپاشی اور بجلی پیدا کرنے کا سامان تو ہو گیا مگر دریاۓ سندھ کا حُسن ماند پڑ گیا ۔ پہلے دریا آذادی کے ساتھ اٹھکیلیاں کھاتا ۔جھرنوں کی گیت گاتا ۔لہروں کے ڈانس دکھاتا ہمارے سامنے گزرتا اب یہ ایک قیدی کی طرح پا بہ جولاں خاموشی سے سر جھکاۓ محو سفر ہے۔ ایک وقت تھا کہ دہکتے ہونٹ اسے چھونے کو مچلتے تھے ۔ کشتیاں مسافروں سی لدی مُہانوں کے گیت سنتی تھیں۔کنارے گلے بانوں کی بانسریاں سنتے تھے۔
کناروں پر رنگ برنگے کنول کے پھول ہمارا استقبال کرتے تھے۔ڈولفن خوشی سے اچھل کے کرتب دکھاتی تھی۔ پرندوں کے جھنڈ گیت گاتے پھرتے تھے۔ مگر اب ہماری آنکھیں ایس ایس جھلم جہاذ کے عرشے کےخواب دیکھتی ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر