وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میجر جنرل فضل مقیم نے جنگ کے فوراً بعد "قیادت کا بحران” کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی۔ جنرل صاحب نے برسراقتدار فوجی جنتا کو غلطیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا مثلاً جنرل یحییٰ، جنرل حمید، جنرل گل حسن، جنرل پیرزادہ، جنرل عمر اور جنرل مٹھا وغیرہ۔۔۔ لیکن یہ قیادت کا بحران نہیں تھا۔ پاکستان کو 1971 میں بھی طرز حکومت کے بحران کا سامنا تھا۔ نصف درجن فوجی کمانڈروں کو نام زد کرنا حقیقی مسئلے کی نشان دہی نہیں کرتا۔ یہ لوگ پاکستان میں دستیاب بہترین فوجی کمانڈر تھے۔ ان سے بہتر عسکری قیادت میسر نہیں تھی البتہ طرز حکومت کا متبادل موجود تھا۔ 300 نشستوں کی قومی اسمبلی میں 160 نشستیں جیتنے والی عوامی لیگ کو مطلق اکثریت حاصل تھی۔ حکومت بنانا عوامی لیگ کا حق تھا۔ مشکل یہ تھی کہ پاکستان میں برسراقتدار گروہ کو قبول نہیں تھا کہ سیاسی قوت کا سرچشمہ اسلام آباد سے ڈھاکہ منتقل ہو جائے۔ عوامی لیگ نے مغربی پاکستان میں ایک بھی نشست نہیں جیتی۔ پیپلز پارٹی نے مشرقی پاکستان میں ایک بھی حلقہ نہیں جیتا۔ ون یونٹ ختم ہو چکا تھا۔ لوگوں نے ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ بھٹو صاحب کے لئے اپنی 81 نشستوں کی بنیاد پر 160 نشستیں جیتنے والی جماعت کو یرغمالی بنانا کس اصول کی بنیاد پر درست تھا۔ بھٹو صاحب عوام کی قوت پر نہیں، مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے جرنیلوں کے ساتھ گٹھ جوڑ پر بھروسہ کر رہے تھے۔ مغربی پاکستان کے لوگوں نے مشرقی پاکستان کے ہم وطنوں کا حق حکمرانی تسلیم نہیں کیا تو پاکستان جنگ ہار گیا۔ یہ جنگ مشرقی پاکستان کے مورچوں پر نہیں ہاری گئی بلکہ ڈھاکہ کے ایوان صدر میں ہاری گئی جہاں جنرل یحیی مجیب الرحمن سے اپنی صدارت کی ضمانت مانگتے تھے۔
26 مارچ 1971 کی صبح بھٹو صاحب نے کراچی ایر پورٹ پر فرمایا تھا کہ "خدا کا شکر ہے، پاکستان بچ گیا”۔ بھٹو صاحب نے جس پاکستان کے بچ جانے کی خوش خبری دی تھی، مشرقی پاکستان اس کا حصہ نہیں تھا۔ بھٹو صاحب نے جمہوری پاکستان کو بندوق کی نالی کے زور پر یرغمالی بنانے کی حمایت کی تھی۔ 1971 کے اخبارات کی فائلیں موجود ہیں۔ تاریخ کے اس ماخذ سے فائدہ اٹھا کر تحقیق کرنی چاہیے کہ اپریل 71 سے نومبر 71 تک صدر پاکستان جنرل یحیی خان کیا کر رہے تھے۔ مشرقی پاکتان میں توپ چل رہی تھی، ٹینک دندنا رہے تھے۔ بندوقیں گولیاں اگل رہی تھیں۔ مشرقی پاکستان میں ہم وطن مارے جا رہے تھے۔ کیا بھٹو صاحب نے فوجی آپریشن کی مخالفت کی؟ کیا بھٹو صاحب نے مشرقی پاکستان کی نمائدہ قیادت کے ساتھ مفاہمت کا کوئی اشارہ دیا؟
جنرل گل حسن نے اپنی کتاب میں جنرل نیازی کو کمپنی کمانڈر کی سطح کا کمانڈر بیان کیا ہے۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ جب ستمبر 1971 میں جنرل نیازی کو مشرقی محاذ کی قیادت سونپی گئی تو جنرل گل حسن راولپنڈی کے جی ایچ کیو میں بیٹھے تھے۔ یہ امتحان کی گھڑی تھی۔ جنرل گل حسن کو آگے بڑھ کر اپنی خدمات کی پیش کش کرنی چاہیے تھی۔ ایک کے بعد ایک جنرل مشرقی پاکستان کی کمان سنبھالنے سے انکار کر رہا تھا۔ پھر یہ ذمہ داری جنرل نیازی کو سونپی گئی جن کا سینہ اٹھائیس تمغوں سے جگمگا رہا تھا۔ انہیں کل تین ڈویژن فوج کے ساتھ مشرقی پاکستان کا دفاع کرنا تھا۔ جنرل نیازی کو بتایا گیا تھا کہ انہیں تبت کے صدیوں پرانے تجارتی راستے سے کمک بھیجی جائے گی۔ جنرل نیازی کی عسکری غلطیاں اپنی جگہ، پوچھنا چاہیے کہ ہم نے کس بنیاد پر یہ مفروضہ قائم کیا تھا کہ چین ہماری مدد کو آئے گا۔ امریکا کے ساتویں بحری بیڑے کا شوشا کس نے چھوڑا تھا؟ ہم نے 25 برس تک اعلان کیا تھا کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کیا جائے گا۔ زمینی حقیقت یہ تھی کہ ہم نے مغربی محاذ پر دس دن میں پانچ ہزار مربع میل علاقہ کھو دیا۔
ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جنرل نیازی کا ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ غلط تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جنرل نیازی کے ہتھیار ڈالنے سے جنگ کے نتیجے پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ کل 44000 کی نفری کے ساتھ جنگ شروع کی گئی تھی اور 16 دسمبر کو ڈھاکہ میں جنرل نیازی کے پاس صرف 5000 سپاہی تھے۔ ڈھاکہ کی پلٹن گراؤنڈ میں ہتھیار ڈالنے کی تقریب دیکھنے کے لئے دس لاکھ بنگالی امڈ آئے تھے۔ نفری کے توازن کا اندازہ آپ خود لگا لیجئے۔ جنرل نیازی اپنی کتاب "مشرقی پاکستان سے غداری” میں راول پنڈی کی عسکری قیادت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ مشکل یہی ہے کہ جنرل گل حسن سے جنرل نیازی تک کسی کو یہ تسلیم کرنا قبول نہیں تھا کہ پاکستان کی ریاست نے غلط سیاسی موقف اختیار کیا تھا۔ یہ فوجی شکست نہیں تھی، یہ آئینی بحران حل کرنے میں پاکستانی ریاست کی ناکامی تھی۔ ہم اس تلخ سچائی کا سامنا نہیں کرنا چاہتے، چنانچہ ہم جنرل نیازی پر الزام دھرتے ہین کہ اس کی وجہ سے 54154 فوجی بھارت کے جنگی قیدی بن گئے۔ بحریہ کے 1381 اور فضائیہ کے 833 اہل کاروں نے ہتھیار ڈالے۔ نیم فوجی دستوں کے 22000 جوان جنگی قیدی بنائے گئے۔ شہری انتظامیہ کے 12000 ملازمیں بھارت کی قید میں گئے۔
حیران کن منطق ہے کہ ہم جنگ کے اسباب پر غور نہیں کرتے، جنگ کے حالات پر نظر نہیں ڈالتے۔ اور ہم چاہتے ہیں کہ جنرل نیازی کو اس بنیاد پر کٹہرے میں کھڑا کریں کہ اس نے 16 دسمبر 1971 کی سہ پہر ہتھیار ڈال کر نوے ہزار جانیں کیوں بچا لیں۔ ہم اس سوال کا جواب نہیں دینا چاہتے کہ ہتھیار ںہ ڈالنے کی صورت میں ہمارے پاس کیا متبادل لائحہ عمل تھا۔ صدیق سالک نے اپنی کتاب "میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا” کی اختتامی سطور مین جنرل نیازی سے ایک مکالمے کی روداد لکھیہ ہے۔ یہ مکالمہ جنگ ختم ہونے کے فورا ً بعد کیا گیا۔
صدیق سالک: جو تھوڑے بہت وسائل آپ کئے پاس ڈھاکہ میں موجود تھے، اگر آپ ان کو بھی صحیح طور پر استعمال کرتے ، تو جنگ کچھ دن اور جاری رہ سکتی تھی۔
جنرل نیازی: مگر اس کا کیا فائدہ ہوتا؟ ڈھاکہ کی اینٹ سے اینٹ بج جاتی، گلیوں میں لاشوں کے انبار لگ جاتے، نالیاں اٹ جاتیں، شہری زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتی۔ لاشوں کے گلنے سڑنے سے طاعون اور دوسری بیماریاں پھوٹ پڑتیں۔۔۔ اس کے باوجود انجام وہی ہوتا! میں نوے ہزار بیواؤں اور لاکھوں یتیموں کا سامنا کرنے کی بجائے نوے ہزار قیدی واپس لے جانا بہتر سمجھتا ہوں
صدیق سالک: اگرچہ انجام وہی ہوتا، مگر تاریخ مختلف ہوتی۔ اس سے پاکستان کی عسکری تاریخ میں ایک سنہرا باب لکھا جاتا۔۔۔
بھائی سلیم ملک کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے اس مفروضہ سنہری باب کے صفحات پر گرنے والے ممکنہ لہو کے دھبوں کی نشان دہی کی ہے۔ سلیم ملک نے کیا غلط کہا ہے کہ ہم اپنے بچوں کی زندگی کی دعائیں مانگتے تھے۔ مشرقی پاکستان کے بہادر کمانڈروں پر لعن طعن لکھنے والے سب مصنف راولپنڈی کے گیریژن میں بیٹھے تھے۔ امیر عبد اللہ مشرقی پاکستان کے گورنر ڈاکٹر مالک کے پاس بیٹھے تھے ۔ ڈاکٹر مالک نے امیر عبد اللہ کا حوصلہ بندھایا تھا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ڈاکٹر مالک غدار نہیں ہوتا۔ فوج کے جرنیل بزدل نہیں ہوتے۔ کاغذ پر قلم رکھ کر فتح کی بشارتیں لکھنا بہت آسان ہے۔ جنگ ایک سائنس ہے۔ قومی ریاست ایک معاہدہ ہے۔ اور آج کی دنیا میں جنگ مذہب کے اختلاف پر نہیں ہوتی۔ فوجی جنرل منصوبہ تیار کرتا ہے۔ سیاستدان سوال کرتا ہے کہ اس کے بعد کیا ہو گا۔ قوم جنگ کے تابع نہیں ہوتی۔ جنگیں قوم کے مفاد میں لڑی جاتی ہیں۔
اشاعت مکرر: Dec 16, 2020
بشکریہ : ہم سب
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر